Topics

فلم اور اسکرین

ہمارا ذہن ایک اسکرین ہے۔ جس پر زندگی کی فلم چلتی رہتی ہے۔ اس اسکرین کی دو سطحیں ہیں۔ ایک سطح وہ ہے جس پر مادی حواس کی فلم چلتی ہے۔ جو بھی خواہشات اور تقاضے، خیالات کی صورت میں وارد ہوتے ہیں ان کا عکس شعور کی بیرونی سطح پر پڑتا ہے اور ان تقاضوں کے تحت مادی جسم کے اعمال و وظائف پورے ہوتے ہیں۔

اسکرین کی دوسری سطح ذہن کی گہرائی میں موجود ہے۔ اسے اندرونی سطح بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سطح پر اطلاعات کا تصویری عکس روشنی کی شکل میں پڑتا ہے ۔عام حالات میں یہ اسکرین ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں آتا۔

مثال:

سینما گھر میں اسکرین کے بالمقابل ایک جگہ پروجیکٹر نصب ہوتا ہے۔ اس پروجیکٹر پر فلم چڑھا کر روشنی کا سوئچ آن کر دیا جاتا ہے۔ فلم کے فیتے پر محفوظ نقوش روشنی کی لہروں کے ذریعے سفر کرتے ہوئے اسکرین پر تصویری خدوخال میں نظرآتے ہیں۔ اگر پروجیکٹر اور اسکرین کے درمیان خلاء میں دیکھا جائے تو روشنی کا ایک دھارا نظر آتا ہے۔ روشنی کی ان لہروں میں وہ تمام تصاویر موجود ہوتی ہیں جو اسکرین تک پہنچتی ہیں۔ اس طرح تین تعینات قائم ہوتے ہیں۔ ایک فلم کے نقوش، دوسرا روشنی یا لہروں کا وہ نظام جس کے ذریعے تصاویر سفر کرتی ہیں اور تیسرا وہ اسکرین جہاں لہریں ٹکرا کر تصویری خدوخال بن جاتی ہیں۔

جب ہمارے اندر مادی حواس حرکت کرتے ہیں تو ہم فلم کو مادی اسکرین پر مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس وقت فلم کا عکس شعور کی بیرونی سطح پر پڑتا ہے۔ جبلی طور پر ہمارا حافظہ ہمیں کشش ثقل کا پابند کر دیتا ہے۔ ہم وقت اور فاصلے کی پابندیوں میں صرف لمحہ حاضر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

ہمارے ذہن میں ایک روشنی کی اسکرین بھی موجود ہے۔ جس پر کائناتی فلم کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس اسکرین پر ہم فلم کے ان اجزاء کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو مادی آنکھوں سے ماورا رہتے ہیں۔ اس طرز مشاہدہ میں وقت اور فاصلہ کی مروجہ پابندی باقی نہیں رہتی۔ ثانیۂ حاضر میں ہم کسی بھی لمحے کو دیکھ سکتے ہیں۔ چاہے اس کا تعلق ماضی و مستقبل سے ہو یا قریب و بعید سے ہو۔

ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ایسے عوامل کے دوش پر سفر کر رہا ہے جو بظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ لیکن ان کی موجودگی کے بغیر کوئی حرکت ظہور میں نہیں آتی۔ موجودات کی ہر حرکت ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ اور ہر لمحے کی تعمیر پہلے لمحے پر قائم ہے۔ پہلے لمحے سے دوسرا لمحہ جنم لیتا ہے اور دوسرے لمحے سے تیسرا لمحہ وجود میں آتا ہے۔ زندگی کی جن حرکات کو ہم ماضی کہتے ہیں اور جن لمحات کا نام مستقبل رکھا جاتا ہے، زمانہ حال میں ان کی موجودگی کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔

زندگی کی تمام صفات اور تمام اطلاعات جسمانی وجود کے ساتھ منسلک رہتی ہیں۔ عام طور پر ہماری آنکھیں انہیں دیکھ نہیں سکتیں۔ لیکن جب ان کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ سامنے آ جاتی ہیں۔ ظاہری حواس ان صفات کو دیکھ نہیں سکتے، لیکن ان صفات کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ صفات کی یہ سطح روشنی کی دنیا میں مکمل خدوخال کے ساتھ موجود رہتی ہے۔ لہروں کے ذریعے یا خلیات کے کیمیاوی عناصر کی معرفت یہ نظام حرکت کرتا ہے۔

جب ہم کسی شخص مثلاً محمود کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے گوشت پوست کا ایک مجسمہ ہوتا ہے لیکن محمود کی صفات نگاہوں سے ماوراء رہتی ہیں۔ مثلاً محمود نرم دل ہے، بردبار ہے، معاملہ فہم ہے، احساسات رکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ محمود کے دماغ میں بہت سے علوم محفوظ ہیں۔ حافظے میں لاتعداد نقوش جمع ہیں، محمود کے جسم و دماغ میں لاتعداد حرکات ایسی جاری رہتی ہیں جنہیں بظاہر دیکھا نہیں جا سکتا۔

محمود کی زندگی لاتعداد حرکات کا مجموعہ ہے۔ پیدائش سے زمانہ حاضر تک ہر ذہنی اور جسمانی عمل ایک حرکت ہے۔ محمود کی زندگی ایک فلم ہے۔ جس میں ہر حرکت ایک نقش ہے۔ ان میں کسی بھی نقش کو محمود کی زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تمام حرکات محمود کی خفی زندگی ہیں۔ ہمارے سامنے جو شخص موجود ہے۔ وہ صرف مادی خدوخال کا مجسمہ ہے لیکن اس کا ماضی، اس کا مستقبل اور اس کی تمام صلاحیتیں اور صفات نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل محمود صفات کا نام ہے اور جسم ان صفات کا مظاہرہ ہے۔

محمود کی خفی زندگی اور اس کی تمام خصوصیات ایک ریکارڈ یا فلم کی شکل میں موجود ہیں۔ اس فلم کا مادی مظہر خود محمود کا جسمانی وجود ہے۔ جس کو شعور بھی کہتے ہیں۔ ہماری نگاہیں جس محمود کو دیکھتی ہیں وہ چند صفات کا مجموعہ ہے جبکہ دیگر لاتعداد صفات کو ہماری نگاہ احاطہ نہیں کر سکتی۔ لیکن ان صفات کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔

غیبی ریکارڈ یا فلم ہر وقت ذہن کے ساتھ موجود رہتی ہے۔ مثلاً جب ہم کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جسے پچیس سال پہلے دیکھا تھا تو ہمیں گذشتہ پچیس سال کے واقعات یاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ ہم جسمانی طور سے پچیس سالوں کو عبور کر کے ماضی میں منتقل ہوتے ہیں بلکہ ہم دیکھتے ہی اس شخص کو پہچان جاتے ہیں۔ یعنی پچیس سال کا وقفہ لاشعور میں ریکارڈ ہے۔ جب یہ ریکارڈ حرکت میں آیا تو پچیس سالہ شخصیت کو واپس لانے کے لئے تمام درمیانی وقفہ حذف ہو گیا اور ہمارا ذہن ریکارڈ میں اس لمحے کو دیکھنے کے قابل ہو گیا جس میں پچیس سال پہلے کی شخصیت محفوظ ہے۔

کسی درخت کا بیج اس کی زندگی کا اولین مادی مظہر سمجھا جاتا ہے۔ یہی بیج جب مٹی اور پانی سے متصل ہوتا ہے اور اسے ایک مخصوص درجہ حرارت میسر آتا ہے تو زندگی میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ بظاہر ایک ننھے سے بیج کو دیکھ کر یہ بات ناقابل فہم معلوم ہوتی ہے کہ ایک ننھے منے بیج میں درخت کی پوری زندگی، اس کی شاخیں، پتے، پھل پھول اور آنے والی نسلوں کے پورے درخت موجود ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ناقابل تردید ہے۔ یہی بیج نمو پاتا ہے تو زندگی کے تمام مراحل یکے بعد دیگرے طے کرنے لگتا ہے۔ باالفاظ دیگر درخت کے مادی وجود (بیج) کے ساتھ اس کی پوری زندگی ایک ریکارڈ کی صورت میں منسلک رہتی ہے۔ اور یہی ریکارڈ ترتیب اور معین مقداروں کے ساتھ پورا درخت بن جاتا ہے۔

روحانی علم کے مطابق صفات کا تمام ریکارڈ ایک ایسی سطح پر موجود ہے۔ جسے روشنی کی دنیا کہتے ہیں۔ اس ریکارڈ کو فلم کی شکل میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اندرونی فلم کے مشاہدے کا طریقہ یہ ہے کہ نگاہ کو مادی اسکرین سے ہٹایا جائے۔ اس عمل میں وہ تمام امور اختیار کیے جاتے ہیں جن سے نگاہ بیرونی اسکرین کے بجائے اندرونی اسکرین کی طرف راغب ہوتی ہے۔ اس کوشش سے شعوری واردات مغلوب ہو جاتی ہے اور نگاہ اس اسکرین کو رد کر دیتی ہے جو مادی ہوش و حواس میں نگاہ کے سامنے رہتا ہے۔ مسلسل مشق سے نگاہ کی مرکزیت وہ اسکرین بن جاتا ہے جو ذہن کی داخلی سطح اور جس پر کائنات کے مخفی مظاہر کی فلم حرکت کرتی ہے۔

اندرونی فلم پر نگاہ قائم کرنا، ہماری عادت میں داخل نہیں ہے اس لیے طبیعت اس رجحان کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ طرح طرح کے خیالات آتے ہیں اور طبیعت میں بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ اندرونی اسکرین پر نگاہ کو قائم کرنے کے لئے اس عمل کو بار بار دھرانا پڑتا ہے تا کہ یہ عمل عادت بن جائے۔

آدمی کے اندر نقطۂ ذات دونوں اسکرین پر کائنات کے مظاہر دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اندرونی فلم سے وہ اس لئے ناواقف ہے کہ ا س کی تمام تر دلچسپی بیرونی اسکرین کے ساتھ ہے۔ اندرونی فلم دیکھنے کی طرف آدمی متوجہ نہیں ہوتا۔



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔