Topics

غیب کی دنیا

صلوٰۃ اس عبادت کا نام ہے جس میں اللہ کی بڑائی، تعظیم اور اس کی ربوبیت و حاکمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ صلوٰۃ ہر پیغمبر پر اور اس کی امت پر فرض کی گئی ہے۔ صلوٰۃ قائم کرکے بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔ صلوٰۃ فواحشات اور منکرات سے روک دیتی ہے۔ صلوٰۃ دراصل اللہ کے لئے ذہنی مرکزیت کے حصول کا یقینی ذریعہ ہے۔ صلوٰۃ میں ذہنی یکسوئی (Concentration) حاصل ہو جاتی ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ زمین پر آباد کیا تو اس کی غرض یہ بیان کی۔

’’اے ہمارے پروردگار! تا کہ وہ صلوٰۃ (آپ کے ساتھ تعلق اور رابطہ) قائم کریں۔‘‘

حضرت ابراہیمؑ نے اپنی نسل کے لئے یہ دعا کی:

’’اے میرے پروردگار! مجھ کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو صلوٰۃ(رابطہ) قائم کرنے والا بنا۔‘‘

’’حضرت اسماعیل ؑ اپنے اہل و عیال کو صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم دیتے تھے۔‘‘ (سورہ مریم آیت 55)

حضرت لوط ؑ ، حضرت اسحاق ؑ ، حضرت یعقوبؑ اور ان کی نسل کے پیغمبروں کے بارے میں قرآن کہتاہے:

’’اور ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے اور صلوٰۃ قائم کرنے کی وحی کی۔‘‘ (سورۃ الانبیاء۔ آیت 73)

حضرت لقمان ؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی:

’’اے میرے بیٹے صلوٰۃ قائم کر۔‘‘(سورہ لقمان آیت 17)

اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا:

’’اور میری یاد کے لئے صلوٰۃ قائم کر یعنی میری طرف ذہنی یکسوئی کے ساتھ متوجہ رہ۔‘‘ (سورہ طٰہٰ آیت 14)

حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کو اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو اللہ نے حکم دیا۔

’’اور اللہ نے صلوٰۃ کا حکم دیا ہے۔‘‘ (سورہ مریم آیت 31)

آخری آسمانی کتاب قرآن بتاتا ہے کہ عرب میں یہود اور عیسائی قائم الصلوٰۃ تھے۔

ترجمہ:’’ اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راتوں کو کھڑے ہو کر اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ (اللہ کے ساتھ سپردگی) 

كرتے ہیں۔ ‘‘ (آل عمران آیت 113)

’’اور وہ لوگ جو محکم پکڑتے ہیں کتاب (اللہ کے بنائے پروگرام اور آسمانی قانون) کو اور قائم رکھتے ہیں صلوٰۃ ہم ضائع نہیں کرتے اجر نیکی کرنے والوں کے۔‘‘ (اعراف 120)

بندہ جب اللہ سے اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے تو اس کے دماغ میں وہ دروازہ کھل جاتا ہے جس سے وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر وہاں کے حالات سے واقف ہو جاتا ہے۔

صلوٰۃ کے معانی، مفہوم اور نماز کے اعمال پر تفکر کرنے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ صلوٰۃ دراصل ذہنی صلاحیت (Concentration) کو بحال کر دیتی ہے۔ انسان ذہنی یکسوئی کے ساتھ شعوری کیفیات سے نکل کر لاشعوری کیفیات میں داخل ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بندہ ہر طرف سے ذہن ہٹا کر، شعوری دنیا سے نکل کرلاشعوری دنیا، غیب کی دنیا سے آشنا ہو جائے۔ بندہ جب صلوٰۃ قائم کرتا ہے اور اللہ کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ تو پوری نماز مراقبہ ہے۔

صلوٰۃ (نماز) میں یکسوئی حاصل کرنے اور اللہ سے تعلق قائم کرنے اور اللہ کے سامنے سجدہ حضوری کرنے کے لئے یہ مراقبہ کرایا جاتا ہے۔

وضو کے بعد صلوٰۃ قائم کرنے سے پہلے آرام دہ نشست میں قبلہ رخ بیٹھ کر تین مرتبہ درود شریف، تین بار کلمہ شہادت پڑھ کر آنکھیں بند کر لیں۔

ایک منٹ سے تین منٹ تک یہ تصور قائم کریں۔

’’عرش پر اللہ موجود ہے، تجلیات کا نزول ہو رہا ہے اور میں عرش کے نیچے ہوں۔‘‘ اس کے بعد کھڑے ہو کر صلوٰۃ قائم کریں۔

مراقبہ کی طرح آدمی جب گرد و پیش سے بے خبر ہو کر نماز میں یکسوئی حاصل کر لیتا ہے۔ تو یہی قیام صلوٰۃ کا مراقبہ ہے۔

قرآن پاک اللہ کا کلام ہے اور ان حقائق و معارف کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے بوسیلہ حضرت جبرئیل ؑ ، آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب اطہر پر نازل فرمائے۔ قرآن مجید کا ہر لفظ انوار و تجلیات کا ذخیرہ ہے۔ بظاہر مضامین غیب عربی الفاظ میں سامنے ہیں، لیکن الفاظ کے پیچھے نوری تمثلات اور معانی کی وسیع دنیا موجود ہے۔ تصوف اور روحانیت میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ روح کی آنکھ سے الفاظ کے نوری تمثلات کا مشاہدہ حاصل کیا جائے تا کہ قرآن پاک اپنی پوری جامعیت اور معنویت کے ساتھ روشن ہو جائے۔ قرآن مجید میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ موجود ہے اور اسے حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ چاہے نماز میں، تہجد کے نوافل میں یا صرف تلاوت کے وقت، آدمی یہ تصور کرے کہ اللہ اس کلام کے ذریعے مجھ سے مخاطب ہیں اور میں ملاء اعلیٰ کی معرفت اس کلام کو سن رہا ہوں۔ اس تلاوت کے وقت وہ یہ خیال قائم رکھے کہ رحمت الٰہی الفاظ کے نوری تمثلات اس پر منکشف کر رہی ہے۔

جب آدمی اس ذہنی توجہ(مراقبہ) کے ساتھ تلاوت کلام اللہ کرتا ہے تو اس نسبت میں انہماک ہوتا ہے جس نسبت سے قرآن مجید کا نزول ہوا ہے۔ نسبت کے بار بار دور کرنے سے آدمی کا قلب ملاء اعلیٰ سے ایک ربط پیدا کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ قرآن مجید پڑھتا ہے تو جس قدر اس کے قلب کا آئینہ صاف ہوتا ہے اسی مناسبت سے معانی و مفاہیم کی نورانی دنیا اس کے اوپر ظاہر ہونے لگتی ہے۔



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔