Topics
وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا (سورۂ مائدہ-آیت6)
ترجمہ: اور اگر تم جنابت (ناپاکی) کی حالت میں ہو تو سارا بدن پاک کرو۔
ماہانہ نظام کے بعد، اولاد کی پیدائش (نفاس) کے بعد، ازدواجی تعلقات میں یکجائی کے بعد، بدخوابی اور احتلام کے بعد غسل کرنا فرض ہے۔
حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے، صبح کے وقت میدان عرفات میں وقوف کے لئے غسل کرنا سنت ہے۔
شب برات (شعبان کی پندرہویں رات) میں، عرفہ کی رات میں، سورج گرہن یا چاند گرہن کی نفلیں ادا کرنے، نماز استسقا کے لئے، مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں داخل ہونے، میت کو غسل دینے کے بعد غسل دینے والے کا غسل کرنا، اسلام لانے کے بعد اور لڑکا یا لڑکی کا حدِّ بلوغ تک پہنچنے کے بعد نہانا مستحب ہے۔
فرض غسل کی ترکیب یہ ہے:
پہلے دونوں ہاتھ دھوئے جائیں۔ پھر استنجے کی جگہ اور پھر وہ جگہ جہاں نجاست لگی ہوئی ہو۔ اس کے بعد وضو کیا جائے اور سر پر اس طرح پانی ڈالا جائے کہ سارے جسم پر بہہ جائے۔ غسل میں منہ بھر کر کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، تمام بدن پر ایک مرتبہ پانی بہانا فرض ہے۔
طہارت کرنا، بدن پر لگی ہوئی نجاست کو دھونا، غسل کی نیت کرنا، دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا، غسل سے پہلے وضو کرنا اور تمام بدن پر تین مرتبہ پانی بہانا سنت ہے۔ غسل کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔
غسل کرتے وقت اگر کوئی فرض چھوٹ جائے تو غسل کی شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ غسل میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ جسم میں بال برابر جگہ خشک نہ رہے۔
خواتین کا غسل
اگر سر کے بال گندھے ہوئے نہ ہوں تو سارے بال بھگونا اور ساری جڑوں میں پانی پہنچانا فرض ہے۔ بال کی جڑوں میں پانی نہیں پہنچا تو غسل نہیں ہو گا۔ اگر بال گندھے ہوئے ہوں تو بالوں کا بھگونا ضروری نہیں البتہ سب جڑوں میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔ اگر بالوں کو کھولے بغیر ساری جڑوں میں پانی نہ پہنچ سکے تو بالوں کو کھول کر بھگونا اور دھونا چاہئے۔
ناک میں نتھ، کانوں کی بالیوں، انگلیوں میں انگوٹھی اور چھلّوں کو اچھی طرح ہلا لینا چاہئے تا کہ ہر جگہ پانی پہنچ جائے۔
ماتھے پر افشاں ہو، بالوں میں گوند لگا ہوا ہو، ہونٹوں پر لپ اسٹک(lipstick) لگی ہوئی ہو یا اس قسم کا کوئی سامان آرائش استعمال کیا گیا ہو تو اس کو اچھی طرح صاف کر لینا چاہئے تا کہ نیچے کی جلد تک پانی پہنچ جائے ورنہ غسل نہیں ہو گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔