Topics
اللہ کے فضل و کرم سے جب گھر کے آنگن میں پھول کھلے اور بچہ تولد ہو تو ساتویں دل اس کا نام رکھنا اور عقیقہ کر دینا سنت ہے۔ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کر سکے تو اس بات کا خیال رکھے کہ جب بھی کرے ساتواں دن پڑے۔ مثلاً اگر کوئی بچہ جمعہ کو پیدا ہوا ہو تو جمعرات کو، جمعرات کو پیدا ہوا ہو تو بدھ کو عقیقہ کرنا چاہئے۔
جس جانور کی قربانی ناجائز ہے وہ عقیقہ کے لئے بھی ناجائز ہے اور جس جانور کی قربانی جائز ہے وہ عقیقہ میں بھی جائز ہے۔ عقیقہ کے جانور کی شرطیں بھی وہی ہیں جو قربانی کے جانور کی ہیں۔
عقیقہ کا گوشت ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی سب کھا سکتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ ماں باپ نہیں کھا سکتے۔
عقیقہ کا گوشت کچا بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے اور پکا کر بھی کھلانا درست ہے۔
عقیقہ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر لڑکا ہو تو دو بکری یا دو دنبے یا دو بھیڑ ذبح کئے جائیں اور بچہ کے سر کے بال منڈوا کر بالوں کے برابر چاندی یا سونا وزن کر کے خیرات کیا جائے۔
بہتر یہ ہے کہ جانور ذبح کرنے سے پہلے سر کے بال کاٹ ڈالے جائیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ادھر بچہ کے سر پر اُسترا رکھا جائے اُدھر جانور کی گردن پر چھری چلے، یہ غلط ہے۔ حدیث میں ذبح سے پہلے بال کٹوانا اور بعد میں کٹوانا دونوں ثابت ہیں۔
اگر کسی کی اتنی حیثیت نہیں کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور ذبح کر سکے تو ایک بھی کر سکتا ہے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امام حسنؓ کا عقیقہ ایک بکری سے کیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ لڑکے کا نر اور لڑکی کا مادہ جانور ہونا ضروری نہیں ہے۔
جو شرطیں قربانی کے جانور کی ہیں وہی عقیقہ کے جانور کی بھی ہیں۔ اور گوشت کی تقسیم کا بھی وہی طریقہ ہے۔ ایک غرباء کے لئے، دوسرا اپنے استعمال کے لئے اور تیسرا دوست احباب کے لئے۔
عقیقہ کرنا سنت ہے۔ اگر سرپرستوں میں وسعت نہ ہو تو عقیقہ نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر زیادہ وسعت نہ ہو اور لڑکے کے لئے دو جانور ذبح کرنا استطاعت سے باہر ہو تو ایک جانور بھی کیا جا سکتا ہے۔ آدمی بڑا ہو کر اپنا عقیقہ خود بھی کر سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا عقیقہ نبی ہونے کے بعد خود کیا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔