Topics
انسان دو رُخ سے مرکب ہے، ایک شعور دوسرا لاشعور۔ شعور اس دماغ کا نام ہے جو بیداری میں کام کرتا ہے اور لاشعور اس دماغ کا نام ہے جو خواب اور نیند میں کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق بیداری کے حواس اور خواب کے حواس ایک ہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیداری کے حواس میں آدمی کے اوپر ٹائم اسپیس (Time and Space) مسلط رہتا ہے اور خواب کی حالت میں آدمی ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ٹائم اسپیس سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ہمارے سامنے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں کہ ہم بیداری کے حواس کو مغلوب کریں اور خواب کے حواس کو اپنے لئے زندگی قرار دیں۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اوپر بیداری کے حواس غالب ہیں اور خواب کے حواس مغلوب ہیں۔ ہم غالب و مغلوب حواس میں رد و بدل ہو رہے ہیں یعنی کبھی ہم بیداری کے حواس میں سرگرم عمل ہوتے ہیں اور کبھی ہم ٹائم اسپیس سے آزاد حواس (خواب) میں زندگی گزارتے ہیں۔ قرآن پاک نے ان حواسوں کا تذکرہ رات اور دن کے نام سے کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’نکالتے ہیں دن کو رات میں سے اور نکالتے ہیں رات کو دن میں سے۔‘‘
یعنی حواس ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف درجہ بندی ہوتی رہتی ہے۔ دن کے حواس میں زمان و مکان کی پابندی ضروری ہے لیکن رات کے حواس میں مکانیت اور زمانیت لازمی نہیں ہے۔ رات کے یہی حواس ہیں جو غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان ہی حواس سے انسان برزخ، اعراف، ملائکہ اور ملاء اعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تذکرے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
’’اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا اور پورا کیا ان کو دس سے تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ چالیس رات میں تورات (غیبی انکشافات) ہم نے موسیٰ کو عطا فرمائی۔ فرمان خداوندی بہت زیادہ غور طلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس دن میں وعدہ پورا کیا، صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ظاہر ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب چالیس دن اور چالیس رات کوہ طور پر قیام فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوپر رات کے حواس غالب رہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف تا کہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کروائے۔
رات کے حواس میں (سونے کی حالت میں) ہم نہ کھاتے ہیں۔ نہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی ارادتاً ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ قیام صلوٰۃ کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ نماز کی حالت میں ہمارے اوپر تقریباً وہ تمام حواس وارد ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔