Topics

روحانی دماغ

زندگی کے بہت سے تجربات اور واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ آدمی کے اندر مادی حواس کے علاوہ ایسے ذرائع ادراک بھی موجود ہیں جن کی صلاحیت اور صفات عام حواس سے بلند ہے۔ جس نوعیت سے یہ ذرائع ادراک تجربے میں آتے ہیں، اس کی مناسبت سے ان کے لئے مختلف نام استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً چھٹی حس، ماورائے ادراک حواس (Extra Sensory Perception) وجدان، ضمیر، اندرونی آواز، روحانی پرواز وغیرہ۔

کبھی نہ کبھی انسان پر ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو جاتی ہے۔ حالات کی پیچیدگی میں وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ سوچتے سوچتے بے خیالی میں ایک خیال کو ندے کی طرح آتا ہے اور ایسی بات ذہن میں آ جاتی ہے جس کا بظاہر حالات سے کوئی جوڑ نہیں ملتا اور نہ منطقی استدلال سے اس کی توجیہہ کی جا سکتی ہے۔ اس خیال میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ آدمی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ خیال پر عمل کرتا ہے اور درپیش مشکل سے نجات مل جاتی ہے۔

اکثر سنا جاتا ہے کہ میری چھٹی حس فلاں بات بتا رہی تھی یا مجھے غیر معمولی طور پر فلاں خیال بار بار آ رہا تھا اور پھر وہی ہوا جو ذہن میں تھا۔

مثال:

آپ کو کسی عزیز کا خیال بار بار آنے لگتا ہے۔ وقفے وقفے سے اس کی تصویر ذہن میں آ جاتی ہے جب کہ ظاہری طور پر اس کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کبھی اس خیال کے ساتھ کیفیات بھی وارد ہوتی ہیں۔ خیال آتے ہی خوشی یا پریشانی کا تاثر بھی مرتب ہوتا ہے۔ کچھ دیر بعد یا چند دنوں بعد پتہ چلتا کہ آپ کا وہی عزیز شدید بیمار ہو گیا ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی ایسے دوست کا خیال شدت سے آنے لگتا ہے جس سے ملاقات کو ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ چند گھنٹوں بعد دروازے پر گھنٹی بجتی ہے اور وہی دوست سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں اور گفتگو کا موضوع غیر محسوس طریقے سے کوئی غیر حاضر شخص بن جاتا ہے اور کچھ دیر کے بعد وہی شخص کمرے میں آ جاتا ہے۔

سائنس دان کسی بات پر مسلسل غور و فکر کرتا ہے اور تجربات کے نتائج کو پرکھتا ہے۔ تحقیق کے دوران اس پر کوئی نیا خیال ظاہر ہوتا ہے اور یہی خیال کسی علم یا فارمولے کی بنیاد بن جاتا ہے۔ یہ انکشاف مرحلہ وار بھی ہوتا ہے اور اچانک تمام مراحل کو حذف کر کے بھی ہو جاتا ہے۔ مرحلہ وار طریقے میں یہ انکشاف کڑی در کڑی اس طرح ہوتا ہے کہ غیر معمولی محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن جب اچانک کوئی انکشاف ہو تو اسے عام حوا س کا کارنامہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نامیاتی کیمیا میں Benzeneایک مرکب ہے۔ اس مرکب کی مالیکیولی ساخت کی دریافت ایک ایسی ہی مثال ہے۔

کیمیا دان Wolfمسلسل اس بات پر غور کر رہا تھا کہ Benzeneکی ساخت کیا ہونی چاہئے کیونکہ سابقہ تھیوری کی روشنی میں تشریح ممکن نہ تھی۔ کافی غور و فکر کے بعد بھی وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ چھ عدد سانپ ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے کی دم منہ میں اس طرح پکڑی ہوئی ہے کہ ایک مخصوص شکل بن گئی ہے۔ اس شکل کو دیکھ کر وولف کے ذہن میں Benzeneکا خیال آیا۔ بیدار ہونے کے بعد وولف نے اس ساخت پر کام شروع کیا اور ثابت کر دیا کہ Benzeneکی ساخت وہی ہے جو اس نے خواب میں دیکھی تھی۔

اسی طرح علم طب میں مختلف ادویات کے خواص وجدان یا اندرونی رہنمائی کا نتیجہ ہیں۔ اطباء اور ماہرین کی ذہنی کاوش کے نتیجے میں ذہن کسی کیمیاوی مرکب، مفرد یا مرکب دوا کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور پھر تجربات اور تحقیق اس وجدانی اشارے کو مادی شکل و صورت اور یقین بخش دیتے ہیں۔

فنون لطیفہ اور اسی طرح کے دوسرے تخلیقی کاموں میں بھی شعوری کارکردگی لطیف احساسات کے تابع ہوتی ہے۔ اکثر موضوعات، مضامین، اشعار و خیالات کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں عقلی کوشش کو دخل حاصل ہے، اس بات کو مصنف، مصور، شاعر یا مفکر خود بھی محسوس کرتا ہے اور انہیں ’’آمد‘‘ کا نام دیتا ہے۔

زندگی کے مراحل پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری زندگی تعقل اور وجدان کے تابع ہے اور ایک بامعنی زندگی گزارنے کے لئے جن اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمیں کہیں سے فراہم ہوتے ہیں، ہمارے ذہن میں از خود خیالات ایک ترتیب و تعین سے وارد ہوتے ہیں اور اسی ترتیب کی بدولت زندگی بامعنی گزرتی ہے۔ بچپن سے تادم مرگ جو تجربات ہمارے شعور کو حاصل ہوتے ہیں ان کے مضبوط اور مربوط استعمال کا فہم بھی کوئی اور ایجنسی عطا کرتی ہے۔

افراد کی طبائع اور دلچسپیوں میں بھی اندرونی تحریکات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ شعور کو اپنی مرکزیت اور دلچسپی کا اشارہ ورائے لاشعور سے ملتا ہے۔ مثلاً ایک باپ کے دو بچوں میں مختلف دلچسپیاں اور مختلف صلاحیتیں ظہور میں آتی ہیں۔ سماجی حیثیت سے وہ ایک گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں۔ والدین کی یکساں توجہ انہیں حاصل رہتی ہے۔ ایک گھر اور ایک جیسے حالات میں زندگی گزارتے ہیں۔ ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن عمر کے ساتھ ساتھ ان کی شعوری دلچسپیاں الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ ایک بچہ مصوری میں دلچسپی لیتا ہے، تو دوسرا وکیل بننے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ ایک بچہ جماعت میں امتیازی پوزیشن حاصل کرتا ہے لیکن دوسرا اوسط درجے کا طالب علم ثابت ہوتا ہے۔ اگر ان تمام باتوں کی ظاہری وجوہات تلاش کی جائیں تو کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔ اسی طرح بچوں سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ فلاں بات یا فلاں پیشے میں کیوں دلچسپی لیتے ہیں تو وہ بھی کوئی وجہ نہیں بتا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ لاشعور کا انطباعیہ نقش شعور کے لئے دلچسپی کا تعین کرتا ہے اور آدمی کی صلاحیت، دلچسپی اور کارکردگی الگ الگ ہو جاتی ہے۔

اسی بات کی واضح ترین مثال جانوروں کی دنیا ہے۔ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں میں انفرادی و اجتماعی سطح پر ایک مربوط شعور پایا جاتا ہے اور ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اس شعور کی کارفرمائی میں کسی مخفی اور علمی تعلیم و تحصیل کو دخل نہیں ہوتا۔ مثلاً بطخ کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی پانی میں پہنچ جاتا ہے۔ شاہین کے بچے میں پرواز کا علم اسے بار بار اڑنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسی طرح شہد کی مکھی میں پھولوں کی کشش اور شہد بنانے کا علم کسی معلم کے بغیر کام کرنے لگتا ہے۔ چھوٹے سے پرندے ’’بیا‘‘ میں گھونسلے بنانے کا فن ظاہری تربیت کا نتیجہ نہیں ہوتا۔

عرض یہ کرنا ہے کہ شعوری میکانزم کے پس پردہ ایک اور ایجنسی موجود ہے۔ شعور اسی ایجنسی کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ انسانی زندگی ہر دور میں اس ایجنسی سے وابستہ رہتی ہے لیکن معمول کی زندگی گزارنے کی وجہ سے انسان اس پر غور نہیں کرتا۔ تاہم بہت سی صورتیں ایسی واقع ہوتی ہیں جنہیں معمول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ عقل انسانی عقلی تجربے و مشاہدے کی بنیاد پر ذہنی حرکات کو مختلف دائروں میں تقسیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ علم نفسیات تحت الشعور اور لاشعور کا تذکرہ کرتا ہے تو مابعد النفسیات اور علم نفس کے ماہرین چھٹی حس، اندرونی آواز، ماورائے ادراک حواس (Extra Sensory Perception)کا تعارف کراتے ہیں۔ اہل مذہب ضمیر، وجدان اور روح کا عقیدہ پیش کرتے ہیں۔ غرض علم کے ہر شعبہ میں انسانی دماغ کے ساتھ ساتھ ایک اور تشخص کا ذکر موجود ہے۔ حد یہ ہے کہ لامذہب افراد بھی عقل و شعور سے ماوراء ایک یونٹ Natureکو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔

آسان الفاظ میں اس بات کو اس طرح کہا جا سکتا ہے۔

آدمی کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک ظاہری دماغ اور دوسرا باطنی دماغ۔ ظاہری دماغ روحانی دماغ سے جتنا مربوط رہتا ہے اسی قدر ہم پر سکون زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے اندر ادراک کا زاویہ وسیع ہو جاتا ہے اور روحانی دماغ کی اطلاعات کو قبول کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔

روحانی علوم اس کلیہ پر قائم ہیں کہ آدمی روحانی دماغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا سیکھ لے۔ مادی وسیلے کے بغیر خیالات کو وصول کرنا اور دوسروں تک پہنچانا (Telepathy) ، ظاہری وسائل کے بغیر کسی بات کو معلوم کر لینا(کشف)، روحانی طاقت سے خیالات اور اشیاء میں تبدیلی کرنا(تصرف)، روحانی فارمولوں کا علم، دوسری دنیاؤں کی سیر، جنات، فرشتوں کا مشاہدہ، سماوات، جنت دوزخ، عرش اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا دیدار، یہ سب اس وقت ممکن ہے جب آدمی کا روحانی دماغ متحرک اور فعال ہو۔



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔