Topics

ذات الٰہی

حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذہن مبارک اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے اور ا س پر تجلیاتِ ربانی نازل ہوتی رہتی ہیں جب روحانیت کے راستے پر سفر کرنے والا کوئی شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روحانی طور پر اس درجہ قربت حاصل کر لیتا ہے کہ اس کا ذہن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت اور انوار نبوت کے فیضان سے مصفی ہو جاتا ہے تو اس پر اللہ کی تجلیات کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔ عملی طور پر اس مشاہدے کو مستحکم کرنے کے لئے ذات باری تعالیٰ کا تصور کرایا جاتا ہے تا کہ نسبت کی جڑیں گہری ہو جائیں اور عرفان ذات کا سفر جاری رہے۔ جب اس راستے پر چلنے والا کوئی شخص تجلیات ذات میں انہماک حاصل کر لیتا ہے تو اس مقام کو ’’فنا فی اللہ‘‘ یا ’’فنا فی الذات‘‘ کہتے ہیں۔

تصور ذات میں صفات کے بجائے اللہ کی ذات کا تصور کیا جاتا ہے۔ اللہ کی ذات الفاظ اور بیان سے باہر ہے اور ذہن کی کوئی بھی پرواز اللہ کی ذات کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ البتہ ادراک کی حدوں میں اللہ کی موجودگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’اور کسی آدمی کی حد نہیں کہ اس سے باتیں کرے۔ اللہ، مگر اشارہ سے یا پردے کے پیچھے سے یا بھیجے پیغام لانے والا۔‘‘ 

(سورہ شوریٰ آیت 51)

اس آیت میں انسانی حواس کی رسائی بیان ہوئی ہے۔ جب اللہ انسان کو مخاطب کرتے ہیں تو اشارہ کرتے ہیں اور دل دیکھ اور جان لیتا ہے۔ اللہ کے اس طرز تکلم کو ’’وحی‘‘ کہتے ہیں۔ دوسری طرز میں اللہ ایلچی کے ذریعے بات کرتے ہیں۔ یعنی آنکھیں ایلچی کو دیکھتی ہیں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کسی اپنے بندے پر رونمائی کرتے ہیں۔ اس طرز کا نام ’’حجاب‘‘ ہے۔ مثلاً اللہ ایک جمیل اور نور علیٰ نور صورت میں بندے پر جلوہ فرماتے ہیں۔ یہ جمیل صور ت اللہ نہیں بلکہ حجاب ہے۔

تصور ذات کے مراقبہ میں الفاظ اور بیان کی مختلف طرزوں میں اللہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ تصور ذات کے بہت سے طریقے ہیں:

1۔ صاحب مراقبہ تصور کرتا ہے کہ اس کے قلب پر اسم ’’اللہ‘‘ نورانی الفاظ میں لکھا ہوا ہے اور اس کی نورانی شعاعوں سے سارا 

عالم منور ہے۔

2۔ وہ عرش پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے۔

3۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تجلی کی صورت میں اس کے سامنے ہے۔

4۔ اللہ اس پر توجہ فرما رہے ہیں اور توجہ انوار کی صورت میں اس پر وارد ہو رہی ہے۔

5۔ روحانیت کا طالب یہ تصور کرتا ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کو مراقبہ رویت کہتے ہیں۔

6۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

چنانچہ مراقبہ میں اللہ کے ساتھ ہونے کا تصور کیا جاتا ہے۔ اس مراقبہ کو مراقبہ معیت کہتے ہیں۔

7۔ مراقبہ میں اس آیت کا تصور قائم کیا جاتا ہے کہ:

’’ہم تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘

اس مراقبہ کا نام مراقبہ اقرب ہے۔

8۔ ’’جدھر منہ کرو ادھر اللہ ہے۔‘‘

مراقبہ میں اس آیت کے مطابق یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ہر طرف اللہ ہی اللہ ہے۔

9۔ قرآن پاک میں ہے:

’’اللہ ہر چیز کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘

چنانچہ صاحب مراقبہ یہ تصور کرتا ہے کہ اللہ تمام اشیاء اور ساری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔

10۔ مراقبہ میں اللہ کی ہستی کو ایک لامحدود سمندر خیال کرتے ہوئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ صاحب مراقبہ ایک قطرے کی مانند اس 

سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔

11۔ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کائنات فنا ہو کر عدم ہو گئی ہے اور صرف اللہ باقی ہے۔

جب سالک کو تصور ذات میں کمال حاصل ہو جاتا ہے تو وہ روحانی استاد کی توجہ اور حضور محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تصرف و رحمت سے تجلی ذات کا ادراک کر لیتا ہے۔



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔