Topics

جگہ اور اوقات

ماحول جس قدر پر سکون اور فرحت بخش ہوتا ہے اسی مناسبت سے مراقبہ میں انہماک اور یکسوئی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مراقبہ ایسی جگہ کرنا چاہئے جہاں نہ زیادہ گرمی ہو اور نہ اتنی ٹھنڈک کہ سردی محسوس ہونے لگے۔ گرد و پیش میں چیزیں جتنی کم ہوں گی اسی قدر ذہن ہلکا رہے گا۔ جگہ ہوا دار اور گھٹن سے پاک ہونی چاہئے۔ مراقبہ کرتے وقت زیادہ سے زیادہ اندھیرے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ بتیاں بجھا دینی چاہئیں اور اگر کسی کھڑکی سے روشنی آ کر چہرے پر پڑ رہی ہو تو اسے پردے سے ڈھک دیں لیکن یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کمرے میں آکسیجن کی کمی نہ ہو۔

بستر پر بیٹھ کر مراقبہ کرنے سے ذہن آرام کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ مراقبہ فرش، تخت، چوکی یا کسی ہوئی چارپائی پر کیا جائے۔ مراقبہ کے وقت لباس ایسا ہونا چاہئے جس سے جسم بے آرام نہ ہو۔

مراقبہ کے لئے چار اوقات بہتر ہیں۔

* صبح سورج نکلنے سے پہلے۔

* دن کے وسط میں زوال کے بعد۔

* عصر کے بعد اور

* نصف رات کے بعد۔

ان اوقات میں نیچر کے اوپر سکوت طاری ہو جاتا ہے اور انسانی حواس میں بھی ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے ان اوقات میں مراقبہ کرنے کے فوائد زیادہ ہیں۔ان سب اوقات کی اپنی جگہ کچھ خصوصیات ہیں۔ لیکن وہ اوقات بہتر ہیں جو غروب آفتاب سے لے کر طلوع آفتاب کے درمیان ہیں۔ اس کے بعد عصر کا وقت ہے جو غروب آفتاب کے قریب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات میں وہ حواس متحرک ہو جاتے ہیں جن سے غیبی دنیا کا انکشاف ہوتا ہے۔

زمین دو طرح چل رہی ہے۔ ایک گردش محوری ہے اور دوسری طولانی۔ زوال کے بعد زمین کی گردش میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ گردش کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ عصر کے وقت تک یہ گردش اتنی کم ہو جاتی ہے کہ حواس پر دباؤ پڑنے لگتا ہے۔ انسان، چرند و پرند، سب پر دن کے حواس کی بجائے رات کے حواس کا دروازہ کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہر ذی فہم انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ عصر کے وقت اس کے اوپر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کو وہ تھکان اور اضمحلال کا نام دیتا ہے۔ یہ کیفیت شعور پر لاشعوری تحریکات کی ابتداء ہوتی ہے۔

نصف رات کے بعد لاشعوری حواس کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اور اسی لحاظ سے مراقبہ کے لئے یہ بہترین وقت ہے۔

لاشعوری حواس صبح سورج نکلنے سے پہلے تک غالب رہتے ہیں۔ اس لئے طلوع آفتاب سے پہلے مراقبہ کرنا زیادہ فوائد کا حامل ہے۔ سورج نکلنے سے پہلے مراقبہ کرنے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ رات کی نیند دن بھر کے تھکن کے اثرات اور دماغی اضمحلال دور کر دیتی ہے اور مراقبہ کے وقت یکسوئی حاصل رہتی ہے۔ بیدار ہونے کے بعد بھی کچھ وقت لاشعوری تحریکات کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے مراقبہ کے اثرات ذہن کے اندر اتر جاتے ہیں۔

اکثر لوگوں کے لئے تقسیم کار اور معاشی مصروفیات کی بناء پر نصف رات کے بعد مراقبہ کرنا مناسب نہیں ہوتا کیونکہ دن بھر کی تھکن سے نیند غالب آ جاتی ہے اور مراقبہ نہیں ہو پاتا۔ ایسے لوگوں کے لئے سورج نکلنے سے پہلے کا وقت بہترین وقت ہے۔

مراقبہ کتنی دیر کرنا چاہئے۔ یہ آدمی کی اپنی ذہنی کیفیت اور دماغی یکسوئی پر منحصر ہے۔ مراقبہ کا وقت دس پندرہ منٹ سے لے کر کئی گھنٹے تک ہو سکتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مراقبہ کے دوران وقت گزرنے کا احسا س نہیں ہوتا۔ جب آنکھیں کھلتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ حد سے زیادہ وقت گزر گیا ہے۔ کبھی آدمی کی آنکھیں مقررہ وقت سے پہلے کھل جاتی ہیں اور طبیعت میں مراقبہ کا رجحان نہیں رہتا۔ لیکن مراقبے کا اوسط دورانیہ بیس منٹ سے لے کر پینتالیس منٹ ہے۔

مراقبہ کے لئے جو وقت بھی مقرر ہو اس کو پوری طرح استعمال کیا جائے۔ نہایت سکون اور اطمینان سے مراقبہ شروع کیجئے۔ خود کو ہر طرح کی ذہنی یکسوئی کے لئے تیار کر لیں۔ جس طرح ہم کسی کتاب کے مضمون سے مستفید ہونے کے لئے زیادہ سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ مطالعہ کے لئے ماحول کو پر سکون بناتے ہیں۔ اسی طرح مراقبہ کے لئے بھی توجہ، انہماک اور سکون کا ہونا ضروری ہے۔

مراقبہ کی نشست میں بیٹھ کر پہلے ذہن کو بالکل آزاد چھوڑ دیں اور زیادہ سے زیادہ پر سکون ہو جائیں۔ اس کے لئے الفاظ کے ذریعے بھی ترغیب دی جا سکتی ہے۔ مثلاً:

’’ہر طرف سکون اور ٹھہراؤ ہے، میرے اندر بھی یکسوئی اور ٹھہراؤ داخل ہو رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

یہ الفاظ دل ہی دل میں آہستگی سے ادا کئے جائیں تا کہ ان کا اثر ذہن میں گہرائی میں اتر جائے۔ جب جسم، ذہن اور سانس میں توازن پیدا ہو جائے تو مراقبہ شروع کیا جائے۔

مادی امداد:

مراقبہ کا مقصد باطنی نگاہ کو حرکت دینا ہے۔ یہ مقصد اس وقت پورا ہو سکتا ہے جب آنکھ کے ڈیلوں کی حرکات زیادہ سے زیادہ ساکت ہو جائیں یا انہیں زیادہ سے زیادہ معطل رکھا جائے۔ آنکھ کے ڈیلوں کے تعطل میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے۔ اسی قدر باطنی نگاہ کی حرکت بڑھ جاتی ہے۔ اس قانون کو سامنے رکھتے ہوئے مراقبہ کے وقت روئیں دار رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر بطور بندش استعمال کیا جاتا ہے۔ کپڑے کا رنگ سیاہ ہو تو اچھا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کپڑا تولیے کی طرح روئیں دار ہو یا نرم روئیں دار تولیہ استعمال کیا جائے۔ بندش میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پپوٹے تولیہ یا کپڑے کی گرفت میں آ جائیں۔ یہ گرفت ڈھیلی نہیں ہونی چاہئے اور نہ اتنی سخت کہ آنکھوں میں درد ہونے لگے۔ منشاء یہ ہے کہ آنکھوں کے پپوٹے ہلکا سا دباؤ محسوس کرتے رہیں۔ مناسب دباؤ سے آنکھ کے ڈیلوں کی حرکت بڑی حد تک معطل ہو جاتی ہے۔ اس تعطل کی حالت میں جب نگاہ سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو آنکھ کی باطنی قوتیں جن کو ہم روحانی آنکھ کی بینائی کہہ سکتے ہیں، حرکت میں آ جاتی ہیں۔

سماعت کو بیرونی آوازوں سے محفوظ رکھنے اور باطنی آوازوں کی طرف توجہ بڑھانے کے لئے کالی مرچ کا سفوف روئی کے پھوئے کو ہلکا سا نم کر کے اس میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور اس پھوئے کو مراقبہ کے وقت کانوں میں رکھا جاتا ہے۔ کالی مرچ کی یہ خصوصیت  ہے کہ وہ بیرونی آواز کی لہروں کو جذب کرلیتی ہے اور اندر کی آواز کو سماعت کی سطح پر لاتی ہے۔

کانوں میں روئی کے پھوئے رکھنے اور آنکھوں پر پٹی باندھنے کا اضافی فائدہ یہ ہے کہ مراقبہ کے وقت ماحول کے اثرات کم سے کم ہو جاتے ہیں۔ لازمی نہیں ہے کہ مراقبہ کرتے ہوئے ان دونوں طریقوں پر عمل کیا جائے، ان کے بغیر بھی مراقبہ کیا جا سکتا ہے۔ 

تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آرام دہ نشست میں بیٹھ جائیں۔ آنکھیں بند کر کے کچھ دیر کے لئے ذہن کو آزاد چھوڑ دیں۔ پھر ہر طرف سے توجہ ہٹاکر مراقبہ کریں۔

تصور:

عام طور پر لوگ اس الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ تصور کیا ہے یا تصور کس طرح کیا جاتا ہے۔ تصور کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے کسی چیز کو دیکھا جائے مثلاً اگر کوئی شخص روحانی استاد کا تصور(تصور شیخ) کرتا ہے تو وہ بند آنکھوں سے استاد کے جسمانی خدوخال یا چہرے کے نقوش دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

کوئی شخص روشنیوں کا مراقبہ کرتا ہے تو بند آنکھوں سے روشنیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ عمل تصور کی تعریف میں نہیں آتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک شخص بند آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی دیکھنے کا عمل ساقط نہیں ہوا۔ چونکہ دیکھنے کا عمل ساقط نہیں ہوا اس لئے تصور قائم نہیں ہو گا۔

تصور سے مراد یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے ذہن ہٹا کر کسی ایک خیال میں بے خیال ہو جائے۔ اس خیال میں کسی قسم کے معانی نہ پہنائے اور نہ ہی کچھ دیکھنے کی کوشش کرے۔ مثال کے طور پر اگر روحانی استاد کا تصور کیا جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی آنکھیں بند کر کے اس خیال میں بیٹھ جائے کہ میں شیخ کی طرف متوجہ ہوں یا میری توجہ کا مرکز شیخ کی ذات ہے۔ شیخ کے جسمانی خدوخال یا چہرے کے نقوش کو دیکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اسی طرح روشنیوں کا مراقبہ کرتے ہوئے محسوس کیا جائے کہ میرے اوپر روشنیاں برس رہی ہیں۔ روشنی کیا ہے اور روشنی کا رنگ کس طرح کا ہے اس طرف ذہن نہ لگایا جائے۔

مبتدی کو اس وقت شدید ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب اسے مراقبہ میں اِدھر اُدھر کے خیالات آتے ہیں۔ مراقبہ شروع کرتے ہی خیالات کا ہجوم ہو جاتا ہے۔ ذہن کو جتنا پر سکون کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خیالات زیادہ آنے لگتے ہیں یہاں تک کہ اعصابی تھکن اور بیزاری طاری ہو جاتی ہے۔ کبھی خیالات اتنی شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ آدمی مراقبہ ترک کر دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے اندر مراقبہ کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ جبکہ یہ بات ایک وسوسے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

ذہن کا کردارگھوڑے جیسا ہوتا ہے۔ جب گھوڑے کو سدھانا شروع کرتے ہیں تو وہ سخت مزاحمت کرتا ہے۔ لیکن مسلسل محنت کے بعد کامیابی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ذہن کو کنٹرول کرنے کے لئے مسلسل محنت ضروری ہے۔ اصول و ضوابط کے ساتھ وقت کی پابندی سے مراقبہ کیا جائے تو قوت ارادی حرکت میں آ جاتی ہے اور ذہن کا سرکش گھوڑا بالآخر رام ہو جاتا ہے۔ 

ہماری شعوری زندگی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں توجہ تمام خیالات کے باوجود، زیادہ وقفہ تک کسی ایک نقطہ پر مرکوز رہتی ہے۔ ایسی چند مثالیں دے کر ہم واضح کریں گے کہ مراقبہ میں ’’تصور قائم‘‘ ہونے کے کیا معنی ہیں۔

مثال نمبر 1: دو افراد کے درمیان جذبہ الفت و محبت ہے۔ جب دو افراد کے درمیان پسندیدگی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو دونوں کے ذہنوں میں زیادہ سے زیادہ وقت ایک دوسرے کا خیال موجود رہتا ہے۔ دونوں کے خیالات ایک دوسرے کے ساتھ رد و بدل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن خیالات کے اس تبادلے میں زندگی کے معاملات متاثر نہیں ہوتے۔

مثال نمبر 2: ایک بیٹا کئی دنوں تک ماں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس وقت ماں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ہمہ وقت بیٹے کا خیال اس کے دل و دماغ پر مسلط رہتا ہے۔ اگرچہ وہ ضروریات کے تمام کام انجام دیتی ہے۔ لیکن بیٹے کا خیال اس کےذہن سے الگ نہیں ہوتا۔

مثال نمبر 3: مصنف مضمون لکھتے ہوئے تمام تر ذہنی صلاحیتوں کا رخ مضمون کی طرف کر دیتا ہے۔ مضمون کی تفصیلات، جملوں کی نشست و برخاست اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔ حواس کئی سمتوں میں کام کرتے ہیں، نظریں کاغذ کو دیکھتی ہیں، ہاتھ قلم کو پکڑتے ہیں، کان آوازیں سنتے ہیں، قوت لامسہ میز کرسی کو محسوس کرتی ہے اور قوتِ شامہ ماحول میں رچی ہوئی خوشبو کا ادراک کرتی ہے۔ اس کے باوجو دذہن مضمون اور اس کی تفصیلات سے نہیں ہٹتا اور بالآخر مضمون کاغذپر منتقل ہو جاتا ہے۔

مثال نمبر 4: بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس حالت میں اگرچہ ہم زندگی کے کم وبیش سارے اعمال انجام دیتے ہیں۔ لیکن ذہن کے اندر پریشانی کا خیال دستک دیتا رہتا ہے۔ اس خیال میں پریشانی کی شدت گہرائی پر منحصر ہوتی ہے۔ ہم چلتے پھرتے بھی ہیں، کھاتے پیتے بھی ہیں، بات چیت بھی کرتے ہیں، سوتے جاگتے بھی ہیں لیکن ذہنی حالت کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ذہن کے اندر پریشانی کا خیال متواتر حرکت میں ہے۔ کبھی کبھی پریشانی کا خیال ذہن پر اس قدر غالب آ جاتا ہے کہ ہم ماحول سے اپنا رشتہ منقطع کر بیٹھتے ہیں، اور گم سم ہو جاتے ہیں۔

جس طرح اوپر بیان کی گئی مثالوں میں تمام جسمانی افعال اور خیالات کے ساتھ ذہن کسی ایک طرف متوجہ رہتا ہے اسی طرح مراقبہ میں خیالات کے باوجود ذہن کو مسلسل ایک تصور پر قائم رکھا جاتا ہے۔ مراقبہ کرتے وقت مختلف خیالات ارادے اور اختیار کے بغیر ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن مراقبہ کرنے والے کو چاہئے کہ خیالات پر توجہ دیئے بغیر اپنے تصور کو جاری رکھے۔

بے ربط خیالات آنے کی بڑی وجہ شعور کی مزاحمت ہوتی ہے۔ شعور کسی ایسے عمل کو آسانی سے قبول نہیں کرتا جو اس کی عادت کے خلاف ہو۔ اگر آدمی شعور کی مزاحمت کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ اگر وہ شعوری مزاحمت کی پرواہ کئے بغیر مراقبہ جاری رکھتا ہے تو رفتہ رفتہ خیالات کی رو مدہم پڑ جاتی ہے اور طبیعت میں الجھن اور بیزاری ختم ہو جاتی ہے۔ مراقبہ میں کامیاب ہونے کا آسان راستہ یہ ہے کہ خیالات کو رد کرنے یا جھٹکنے سے گریز کیا جائے۔ خیالات آئیں گے اور گزر جائیں گے۔ اگر خیالات کو بار بار رد کیا جائے تو یہ خیالات کی تکرار بن جاتی ہے اور بار بار کسی خیال کی تکرار سے ذہن پر خیال کا نقش گہرا ہو جاتا ہے۔

مثال نمبر 5: آپ گھر سےکسی باغ کی سیر کو نکلتے ہیں۔ آپ کے ارادے میں یہ بات متواترموجود رہتی ہے کہ آپ باغ کی سیر کو جا رہے ہیں۔ اگر یہ خیال ذہن سے حذف ہو جائے تو آپ کبھی باغ تک نہیں پہنچ سکتے۔ راستے میں خوشنما سڑکیں اور مکانات دکھائی دیتے ہیں اور کسی جگہ گندگی کا ڈھیر بھی نظر آ جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے باوجود قدم منزل کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ اگر آپ کسی خوبصورت عمارت کو دیکھنے کے لئے رک جائیں یا گندگی کے پاس ٹھہر کر کراہت کا اظہار کرنے لگیں تو آپ رک جائیں گے اور باغ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اگر خوبصورت عمارت کا خیال یا گندگی کا تصور ذہن پر مسلط ہو جائے تو باغ تک پہنچنے کے بعد بھی باغ کی سیر سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔

اس مثال سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اگر مراقبہ میں کوئی شخص کسی خیال کو رد کرنے یا تصور کی تصویر کشی میں مصروف ہو جائے تو اس کا ذہن ثانوی باتوں میں الجھ جاتا ہے اور ذہنی مرکزیت حاصل نہیں کر سکتا۔ 

گریز:

شروع شروع میں بہت زیادہ مراقبہ نہیں کرنا چاہئے۔ شدت پسندی کے بجائے اعتدال کا راستہ مناسب ہے۔ بہت زیادہ شدت برتنے سے گریز کی قوت غالب آ سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آدمی بہت الجھن اور بیزاری سے مغلوب ہو کر مراقبہ ترک کر دے۔ چنانچہ ابتداء میں مراقبہ کا وقفہ کم رکھنا چاہئے اور پھر بتدریج اضافہ کرنا چاہئے۔ مراقبہ میں پابندی وقت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بعض لوگ کسی دن بہت زیادہ مراقبہ کرتے ہیں تو کسی دن وقفہ بہت کم کر دیتے ہیں اور بعض اوقات ناغہ ہو جاتا ہے۔

شعور پوری کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح مراقبہ کی مشق ترک کر دی جائے۔ کبھی یہ خیال آتا ہے کہ آج تھکن بہت ہو گئی ہے لہٰذا کل مراقبہ کر لیں گے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ آج نیند پوری نہیں ہوئی لہٰذا جلد سو جانا چاہئے۔ کبھی یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آج کے بجائے کل سے پابندی کے ساتھ مراقبہ کریں گے۔ اس طرح ہر روز ناغہ ہوتا رہتا ہے۔

اکثر لوگ ماحول یا حالات کے سازگار ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ بلاشبہ ہر کام کے لئے ماحول کا ساز گار ہونا ضروری ہے۔ لیکن شعور مراقبہ سے بچنے کے لئے اس بات کو بہانہ بنا لیتا ہے۔ اگر تمام ناسازگار عوامل دور ہو جائیں تو آدمی کوئی دوسرا عذر تلاش کر لیتا ہے۔ جب ہم کوئی تقاضہ یا خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں تو اچھے برے ہر حال میں پورا کر لیتے ہیں، نیند آتی ہے تو شور کے باوجود بستر پر لیٹ کر سو جاتے ہیں۔ دفتر جانے میں دیر ہوتی ہے تو ناشتہ چھوڑ کر دفتر چلے جاتے ہیں۔ معاش کے کام کے لئے صبح سویرے جانا ہوتا ہے، تو کسی نہ کسی طرح صبح اٹھ جاتے ہیں اور دل چاہے نہ چاہے کام پر چلے جاتے ہیں۔

اگر ہم مراقبہ کے فوائدسے آگاہی چاہتے ہیں تو جس طرح دوسرے کاموں کے لئے وقت نکال لیتے ہیں مراقبہ کے لئے بھی وقت نکالنا امر لازم ہے۔ اگر ہم دن بھر کی مصروفیات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ معاشی اور معاشرتی مصروفیات کے علاوہ ایک قابل ذکر وقفہ بے کار وقت گزاری سوچ بچار اور بے مقصد مصروفیات میں گزر جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم شکایت کرتے ہیں کہ اتنی زیادہ مصروفیت ہوتی ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا۔ اگر ہم مراقبہ کے ذریعے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں سے نصف گھنٹہ بھی نہیں نکال سکتے تو دراصل ہم مراقبہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔