Topics
ہر انسان تین جسم یا تین روحوں سے مرکب ہے۔ روح حیوانی، روح انسانی اور روح اعظم۔ ہر روح دو دائروں پر قائم ہے۔
روح حیوانی (دائرہ نمبر 1) نفس ‘ (دائرہ نمبر2) قلب
روح انسانی(دائرہ نمبر 1) روح‘ (دائرہ نمبر 2)سر
روح اعظم(دائرہ نمبر 1) خفی‘ (دائرہ نمبر 2) اخفیٰ
یہ چھ دائرے محوری اور طولانی گردش سرکل اور ٹرائی اینگل(Circle&Triangle)میں تقسیم ہو کر روشنی اور نور کی چھ لہروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ روشنی کی تین لہروں سے بیداری کے حواس بنتے ہیں اور تین نورانی لہروں سے خواب کے حواس بنتے ہیں۔ روشنی کی تین لہریں، بیداری کی زندگی کو متحرک رکھتی ہیں اور نور کی تین لہریں خواب کی زندگی کو متحرک رکھتی ہیں۔
ہر آدمی سونے کے بعد بیدار ہوتا ہے، بیداری کے بعد جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ شعوری حواس میں داخل ہوتا ہے، ہم اس کیفیت کو نیم بیداری کی حالت کہہ سکتے ہیں۔ نیم بیداری سے مطلب یہ ہے کہ ابھی آدمی پوری طرح شعور میں داخل نہیں ہوا ہے لیکن جیسے ہی وہ سو کر اٹھنے کے بعد بیداری کی پہلی کیفیت میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے نفس میں فکر و عمل کا ہجوم ہو جاتا ہے۔ بیداری کے حواس میں فکر و عمل کی جو طرزیں ہیں وہ سب یکجائی طور پر دور کرنے لگتی ہیں۔ نیم بیداری کے بعد دوسرا وقفہ شروع ہوتا ہے۔ اس میں آدمی کے ہوش و حواس میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ہوش و حواس کی اس گہرائی سے دماغ کے اوپر جو خمار ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس وقفے میں سرور کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ کبھی سرور کی کیفیت بڑھ جاتی ہے کبھی کم ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت سے دائرہ قلب متحرک ہو جاتا ہے۔ سرور کے احساسات گہرے ہونے کے بعد تیسری کیفیت وجدان کی ہے، وجدان بیداری کا تیسرا وقفہ ہے۔ وجدان میں دائرہ روح کام کرتا ہے۔
پہلا وقفہ: نیم بیداری(شعوری حواس کی ابتداء) = فکر و عمل کا ایک مرکز پر قائم ہونا = دائرہ نفس کی حرکت
دوسرا وقفہ: دماغ کے اوپر سے خمار کا غلبہ ختم ہو کر ہوش و حواس میں گہرائی پیدا ہونا = سرور = دائرہ قلب کی حرکت
تیسرا وقفہ: سرورمیں گہرائی = وجدان = دائرہ روح کی حرکت
جس طرح بیداری میں تین وقفے ہیں اسی طرح نیند کے بھی تین وقفے ہیں۔ جس طرح انسان تین (Stages) سے گزر کر بیداری میں داخل ہوتا ہے اسی طرح تین مرحلوں سے گزر کر نیند میں داخل ہوتا ہے۔
نیند اور بیداری کے درمیانی وقفے کا نام غنود ہے۔ غنود میں ’’دائرہ سر‘‘ حرکت میں رہتا ہے۔ نیند کی دوسری حالت میں جسے ہلکی نیند کہنا چاہئے ’’خفی دائرہ ‘‘ کی حرکت ہوتی ہے اور نیند کی تیسری حالت میں آدمی جب پوری طرح گہری نیند سو جاتا ہے۔ ’’اخفیٰ دائرہ‘‘ کی تحریکات ہوتی ہیں۔
نیند اور بیداری کے درمیان پہلی کیفیت:
غنود = بوجھل حواس = لاشعور کا ہلکا احساس
نیند اور بیداری کے درمیان دوسری کیفیت:
ہلکی نیند = لاشعوری حواس میں حرکت + شعور ی حواس کا ادراک۔
نیند اور بیداری کے درمیان تیسری کیفیت:
گہری نیند = لاشعوری حواس کا غلبہ + شعوری حواس کی نفی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ان تمام حالتوں کے شروع میں انسان پر سکوت کی حالت ضرور طاری ہوتی ہے۔ جس وقت آدمی سو کر اٹھتا ہے اس وقت اس کا ذہن قطعی طور پر پُر سکون اور خالی ہوتا ہے ۔ اسی طرح دوسری کیفیات میں بھی انسان کی طبیعت چند لمحوں کے لئے ضرور ساکت ہو جاتی ہے۔ یعنی ایک حالت سے دوسری حالت میں داخل ہونے کے لئے سکوت کا ہونا ضروری ہے۔ جس طرح بیداری کی حالت میں ہر حالت سکوت سے شروع ہوتی ہے اسی طرح غنودگی کے وقت بھی حواس پر ہلکا سا سکوت طاری ہوتا ہے اور چند لمحے گزر جانے کے بعد حواس کا یہ سکوت بوجھل ہو کر غنودگی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ابتدائی نیند کے چند ساکت لمحات سے ہلکی نیند کی شروعات ہوتی ہیں اور پھر گہری نیند کی ساکت لہریں انسانی جسم پر غلبہ حاصل کر لیتی ہیں۔ اس غلبہ کو گہری نیند کہا جاتا ہے۔
نظر کا قانون:
بیداری ہو یا نیند دونوں کا تعلق حواس سے ہے ایک حالت میں یا ایک کیفیت میں حواس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور ایک حالت یا کیفیت میں حواس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ لیکن حواس کی نوعیت نہیں بدلتی بیداری ہو یا خواب دونوں میں ایک ہی طرح کے اور ایک ہی قبیل کے حواس کام کرتے ہیں۔ بیداری اور نیند دراصل دماغ کے اندر دو خانے ہوتے ہیں یا یوں کہئے کہ انسان کے اندر دو دماغ ہیں۔ ایک دماغ میں جب حواس متحرک ہوتے ہیں تو اس کا نام بیداری ہے ، دوسرے دماغ میں جب حواس متحرک ہوتے ہیں تو اس کا نام نیند ہے۔ یعنی ایک ہی حواس بیداری اور نیند میں رد و بدل ہو رہے ہیں اور حواس کا رد و بدل ہونا ہی زندگی ہے۔ جب دماغ کے اوپر کے ایک حواس سے متعلق سکوت طاری ہوتا ہے .تودوسرے حواس متحرک ہو جاتے ہیں۔ بیداری میں حواس کے کام کرنے کا قاعدہ اور طریقہ یہ ہے کہ آنکھ کے ڈیلے پر پلک کی ضرب پڑتی ہے تو حوا س کام کرنا شروع کر دیتے ہیں یعنی انسان نیند کے حواس سے نکل کر بیداری کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی مثال کیمرے سے دی جا سکتی ہے۔ کیمرے کے اندر فلم موجود ہے۔ لینز(Lens) بھی موجود ہے۔ لیکن اگر کیمرے کا بٹن نہ دبایا جائے اور شٹر(Shutter) میں حرکت واقع نہ ہو تو فلم پر تصویر نہیں آتی۔ بالکل اسی طرح آنکھ کے دیلے پر اگر پلک کی ضرب نہ پڑے تو سامنے موجود مناظر دماغ کی اسکرین پر فلم نہیں بنتے۔ بیداری میں دیکھنے کا یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ جب انسان سونے کے بعد بیدار ہوتا ہے تو فوری طور پر اسے کوئی خیال آتا ہے اور یہ خیال ہی دراصل بیداری اور نیند کے درمیان حد بن جاتا ہے۔ جب اس خیال میں گہرائی واقع ہوتی ہے تو پلک جھپکنے کا عمل شروع ہو تا ہے اور پلک جھپکنے کے ساتھ ساتھ موجود مناظر دماغ کی اسکرین پر منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
دیکھنے کا قانون یہ ہے کہ دماغ پر موجود مناظر کے ساتھ ساتھ علمی حیثیت میں دماغ ایک اطلاع موصول کرتا ہے۔ دیکھنے سے ذہن اس اطلاع میں معانی پہنا دیتا ہے۔ پلک جھپکنے کے عمل کے ساتھ ساتھ انسانی دماغ میں جو عکس منتقل ہوتا ہے اس کا وقفہ پندرہ سیکنڈ ہوتا ہے۔ ابھی پندرہ سیکنڈ نہیں گزرتے تو نظر کے سامنے مناظر میں سے کوئی ایک ، دو یا زائد مناظر پہلے مناظر کی جگہ لے لیتے ہیں اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ قائم رہتا ہے۔
بیداری میں نگاہ کا تعلق آنکھ کے ڈیلوں سے براہ راست ہے۔ آنکھ کے ڈیلوں پر پلکوں کی ضرب آنکھ کے کیمرہ کا وہ بٹن ہے جو بار بار تصویر لیتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ اگر آنکھ کے ڈیلوں کے اوپر پلک کی ضرب نہ پڑے تو آنکھ کے اندر موجود اعصاب کام نہیں کرتے۔ آنکھ کے اندر موجود اعصاب کی حسیں اسی وقت کام کرتی ہیں جب ان کے اوپر پلکوں یا آنکھ کے پردوں کی ضرب پڑتی رہے۔ اگر آنکھ کی پلک کو باندھ دیا جائے اور ڈیلوں کی حرکت رک جائے تو نظر کے سامنے خلاء آ جاتا ہے۔ مناظر کی فلم بندی رک جاتی ہے۔
ساری کائنات اور کائنات کے اندر تمام نوعیں اور افراد ایک مرکزیت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ زندگی کے مختلف مراحل اور زندگی کے مختلف زمانے ظاہر بیں نظروں سے الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن فی الواقع زمانے کا نشیب و فراز اور زندگی کے مراحل میں تغیر و تبدل کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو سب کا تعلق مرکزیت سے قائم ہے۔ افراد کائنات اور مرکزیت کے درمیان لہریں یا شعاعیں رابطہ کا کام کرتی ہیں۔ ایک طرف مرکزیت سے لہریں نزول کر کے افراد کائنات کو فیڈ کرتی ہیں، مرکزیت کو قائم رکھتی ہیں دوسری طرف یہ لہریں افراد کائنات کو فیڈ کرنے کے بعد صعود کرتی ہیں۔ نزول، صعود کا یہ لامتناہی سلسلہ زندگی ہے۔ شعاع اور لہر کے دورانیہ کے پیش نظر کائنات کی جو صورت بنتی ہے اس کو ہم ایک دائرہ کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یعنی پوری کائنات ایک دائرہ ہے۔ صعودی اور نزولی حرکت کے ساتھ تقسیم ہو کر یہ ایک دائرہ چھ دائروں میں جلوہ نما ہوتا ہے۔ کائنات اور افراد کائنات کے پہلے دائرے کا نام ’’نفس‘‘ ہے۔ نفس ایک چراغ ہے۔ جس میں سے روشنی نکل رہی ہے۔ چراغ کی اس روشنی یا لو کا نام نگاہ ہے۔ ظاہر ہے جہاں لو ہو گی وہاں روشنی ہو گی اور جہاں روشنی ہوتی ہے وہاں کا ماحول منور ہو جاتا ہے۔ چراغ کی روشنی جہاں تک پڑتی ہے خود اپنا مشاہدہ کر لیتی ہے۔ چراغ کی لو میں بے شمار رنگ ہیں۔ جتنے رنگ ہیں اتنی ہی کائنات میں رنگینیاں ہیں۔ چراغ کی لو کی روشنی ہلکی، مدہم، تیز اور بہت تیز ہوتی رہتی ہے۔ جن چیزوں پر روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے ان چیزوں سے متعلق ہمارے دماغ میں تواہم پیدا ہوتے ہیں اور جن چیزوں پر لو کی روشنی ہلکی پڑتی ہے ان چیزوں سے متعلق ہمارے ذہن میں خیال پیدا ہوتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی تیز پڑتی ہے ان چیزوں کا ہمارے ذہن میں تصور بنتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے نگاہ ان کو دیکھ لیتی ہے ۔ دراصل ہم کسی چیز کو دیکھنے کے لئے چار مراحل سے گزرتے ہیں۔
کسی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے اس چیز کا ہلکا سا وہم دماغ پر وارد ہوتا ہے۔ یعنی کسی چیز سے متعلق ایک ہلکا سا خاکہ بنتا ہے۔ وہم میں گہرائی ہوتی ہے تو خیال بن جاتا ہے۔ خیال میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو ذہن پر اس چیز کے نقش و نگار بن جاتے ہیں۔ نقش و نگار گہرے ہو جاتے ہیں تو خیال تصور بن جاتا ہے اور جب نقش و نگار تصوراتی طور پر خدوخال میں ظاہر ہونے لگتے ہیں تو وہ چیز نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔
تفکر نشاندہی کرتا ہے کہ دیکھنا ایک صلاحیت ہے جو ہلکی سے ہلکی روشنی میں کام کرتی ہے کسی چیز کے ہلکے سے خاکے کو چاہے اس کی حیثیت ’’وہم‘‘ کیوں نہ ہو نگاہ میں منتقل کر دیتی ہے۔ تا کہ مزید تین درجوں میں سفر کر کے اس چیز کو خدوخال کی شکل وصورت اور رنگ و روپ (Dimension) میں دیکھا جا سکے۔ جس طرح ہم نے نگاہ کا قانون بیان کیا ہے اسی طرح ساری حسیں کام کرتی ہیں۔ یہ حسیں شامہ (سونگھنے کی حس) ، سماعت (سننے کی حس)، قوت ذائقہ(چکھنے کی حس) اور لامسہ(چھونے کی حس) ہیں۔ زندگی کی ساری دلچسپیاں زندگی کے سارے اعمال و واقعات و حالات، زندگی کی کل طرزیں اسی قانون پر جاری ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔