Topics

تیمّم کے مسائل

وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضیٰٓ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍا اَوْجَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَاءِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُرْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ   (سورۂ مائدہ۔ آیت6)

ترجمہ: اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کے اوپر یا تم سے کوئی مکان ضرور سے آئے یا صحبت کرو تم عورتوں سے پس نہ پاؤ تم پانی پس قصد کرو تم پاک مٹی کا پس ملو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو اس سے۔

اس آیت میں تیمّم کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ تیمّم کے احکامات  ؁ھ  ۵  میں نازل ہوئے۔ تیمّم ضرورت کے وقت وضو اور غسل دونوں کا قائم مقام ہے۔

تیمّم کرتے وقت دل میں یہ نیت ہو کہ میں ناپاکی دور کرنے اور نماز قائم کرنے کے لئے تیمّم کرتا ہوں۔ دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر اچھی طرح لگا کر دونوں ہاتھ چہرہ پر پھیرے جائیں۔ پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ مٹی پر مار کر داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر اور بائیں کو داہنے ہاتھ پر کہنیوں تک پھیرا جائے۔ ہاتھ اس طرح پھیرے جائیں کہ کوئی جگہ خالی نہ رہے۔

پاک مٹی، ریت، پتھر، مٹی کے کچے یاپکےبغیر روغن والے برتن، کچّی یاپکیّ مٹی کی اینٹیں، پتھر یا چونے کی دیوار، گُیرو، ملتانی، پاک غبار۔ ان سب چیزوں میں سے جو بھی دستیاب ہو اس سے تیمّم کیا جا سکتا ہے۔

لکڑی، لوہا، سونا، چاندی، تانبا، پیتل، المونیم، شیشہ، رانگ، جست، گیہوں، جو، ہر قسم کا غلہ، کپڑا۔ ان تمام چیزوں پر تیمّم ناجائز ہے۔

یوں سمجھئے کہ جو چیزیں آگ میں پگھل جاتی ہیں یا جل کر راکھ ہو جاتی ہیں ان سب پر تیمّم نہیں ہوتا۔ البتہ ان چیزوں پر اگر اتنا غبار ہو کہ ہاتھ مارنے سے اڑنے لگے یا اس چیز پر ہاتھ مارنے سے نشان پڑ جائے تو تیمّم کرنا جائز ہے۔

جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے، ان سے تیمّم بھی ساقط ہو جاتا ہے۔

اس وقت جب بیماری کی وجہ سے پانی نقصان کرتا ہو، تیمّم کرنا درست ہے۔ لیکن اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہو اور گرم پانی سے نقصان نہ ہو تو گرم پانی سے وضو اور غسل کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں گرم پانی دستیاب نہیں ہے تو تیمّم کر لینا صحیح ہے۔

کسی کو غسل کی حاجت ہے اور وہ غسل کا تیمّم کر لے تو وہی تیمّم وضو کے تیمّم کا،قائم مقام ہو جائے گا،بشرطیکہ وضو نہ کر سکتا ہو۔

ریل میں سیٹوں اور گدّوں وغیرہ پر جو گرد و غبار جم جاتا ہے اس پر تیمّم جائز ہے، یہ وہم نہیں کرنا چاہئے کہ یہ غبار پاک ہے یا ناپاک ہے۔ ریل میں جہاں مسافر جوتے پہن کر چلتے پھرتے ہیں وہ مٹی ناپاک ہے اس سے تیمّم درست نہیں۔

تیمّم کرتے وقت اگرانگوٹھی پہنی ہوئی ہے تو اس کو اتارنا یا ہلا لینا ضروری ہے۔

Topics


روحانی نماز

خواجہ شمس الدین عظیمی

نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی  کی ترغیب وتعلیم  کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم  کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات  پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں  میں اولیائے کرام  کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ  ذوق وشوق  اورخشوع  کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں  کو قائَم بالصلوٰۃ  دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین  عظیمی نے زیرنظر کتاب  تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی  اورسائنسی  فوائد بیان کرتے ہوئے  نماز کی اہمیت  اورغرض وغایت  پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام  علیہم السلام  کی نماز ، خاتم النبیین  رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔

انتساب

اُن خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی
ختم ہونے سے پہلے پوری دنیا کے اقتدار اعلیٰ پر فائز ہو کرنُورِ اوّل، باعث تخلیق کائنات، محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ و سلم
کے مشن کی پیش رفت میں انقلاب برپاکردیں گی۔


بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ


اے میرے پروردگار!
مجھ کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو نماز قائم کرنے والا بنا۔


اَلصَّلٰوۃُ مِعْراجُ الْمُؤْ مِنِیْنَ
صلوٰۃ مومنین کی معراج ہے


*****
معراج کا مفہوم ہے غیب کی دنیا میں داخل ہو جانا۔ مومن کی جب نماز کے ذریعے معراج ہوتی ہے تو اس کے سامنے فرشتے آ جاتے ہیں۔ نمازی آسمانوں کی سیر کرتا ہے اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت سے اسے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔