Topics

تصور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام

کامل روحانی استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے فیضیاب ہو اور اس کو حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرز فکر حاصل ہو۔ چنانچہ جب کوئی شاگرد اپنے روحانی استاد میں فنا ہو جاتا ہے توا س کی طرز فکر اور افتاد طبیعت وہی ہو جاتی ہے جو استاد کی ہے اور وہ روحانی طور پر حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات میں جذب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس نسبت کو قوی کرنے کے لئے شاگرد سے ’’تصور رسول‘‘ کرایا جاتا ہے تا کہ روحانی ربط مضبو ط ہو اور شاگرد انوار نبوت سے فیض یاب ہوتا رہے۔ حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت اور نظر عنایت سے شاگرد اپنی ہمت اور سکت کے مطابق ان انوار قدسی کا مشاہدہ کرتا ہے جن کا مشاہدہ نور نبوت کے فیضان سے ممکن ہے۔ جب نور نبوت سے شاگرد کے لطائف حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام رنگین ہو جاتے ہیں تو وہ فنا فی الرسول کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔

مدارج کے اعتبار سے تصور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی طریقے ہیں:

1۔ مراقبہ میں مسجد نبوی یا گنبد خضرا کا تصور کیا جاتا ہے۔

2۔ شاگرد یہ تصور کرتا ہے کہ مدینہ المنورۃ سے انوار اس کے اندر جذب ہو رہے ہیں۔

3۔ شاگرد کے قلب پر اسم محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام نورانی الفاظ میں لکھا ہوا ہے اور اس کے انوار سے قلب روشن ہے۔

4۔ حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام تخت نبوت پر جلوہ فرما ہیں اور آپ کے قلب مبارک سے انوار و تجلیات شاگرد کے قلب میں 

منتقل ہو رہے ہیں۔

5۔ شاگرد یہ تصور کرتا ہے کہ وہ حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب موجود ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے ملاحظہ 

فرما رہے ہیں۔

جس طرح مسلمان حضرت محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ اور اپنے درمیان میڈیم یا رسول مانتے ہیں اسی طرح مختلف طبقہ فکر کے لوگ دیگر مقدس ہستیوں کو خدا اور اپنے درمیان رابطے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہودی حضرت موسیٰ ؑ پر، عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ پر، ہندو کرشن جی یا رام چندر جی پر، پارسی جناب ذرتشت پر یقین رکھتے ہیں۔ بدھ مت کے پیروکار مہاتما بدھ کو نجات دھندہ تصور کرتے ہیں۔ اسی یقین کی روشنی میں ان لوگوں کے ہاں گرو کے تصور کے بعد ان مقدس ہستیوں کا تصور کیا جاتا ہے۔



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔