Topics
تمام آسمانی صحائف اور قرآن پاک سے یہ بات ثابت ہے کہ فی الواقع انسان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’تم ہماری سماعت سے سنتے ہو، ہماری بصارت سے دیکھتے ہو، ہمارے فواد سے سوچتے ہو۔ تمہارا آنا ہماری طرف سے ہے اور تم ہماری ہی طرف لوٹ جاؤ گے۔ اللہ ہر شئے پر محیط ہے، اللہ ہی ابتدا ہے، اللہ ہی انتہا ہے، اللہ ہی ظاہر ہے، اللہ ہی باطن ہے۔ جہاں تم ایک ہو وہاں دوسرا اللہ ہے اور جہاں تم دو ہو وہاں تیسرا اللہ ہے۔ اللہ ہی پیدا کرتا ہے اور اللہ ہی پیدائش کے بعد پرورش کے وسائل فراہم کرتا ہے اور اللہ ہی ہے جو بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔‘‘
ہر نبی نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی امت کے لئے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے۔ اس پروگرام میں بنیادی بات یہ رہی ہے کہ بندے کا اللہ سے ایک رشتہ قائم ہو جائے۔ انبیائے کرام نے ہمیں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس لئے تخلیق کیا ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں اور ان کا ذہن ارتباط اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم و دائم رہے۔ قربان جایئے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اللہ کے محبوب پر کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم کرنے کیلئے قیام صلوٰۃ کی صورت میں ایک طریقہ متعین فرما دیا ہے۔ جیسا کہ ہم پچھلے صفحات میں عرض کر چکے ہیں کہ غور و فکر کرنے کے بعد یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نماز میں زندگی کا ہر عمل اور ہر حرکت موجود ہے۔ گو یہ اعمال و حرکات بظاہر جسمانی ہیں لیکن ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کے سامنے حضوری اور عرفان حق کا حصول ہے۔
آدم و حوّا
اللہ تعالیٰ نے آدم سے ارشاد فرمایا:
’’اے آدم! تم اپنی بیوی کے ساتھ جنت میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے دل چاہے کھاؤ پیو خوش ہو کر لیکن اس درخت کے قریب مت جانا اور اگر تم نے حکم عدولی کی تو تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔‘‘
آدم نے جب تک حکم عدولی نہیں کی وہ جنت کی نعمتوں سے مستفیض ہوتے رہے اور جب وہ نافرمانی کے مرتکب ہوئے تو جنت کی فضا نے اُن کو رد کر دیا اور وہ اسفل السافلین میں پھینک دیئے گئے۔
’’اور ہم نے انسان کو بہترین صناعی کے ساتھ تخلیق کیا اور پھر پھینک دیا اسفل السافلین میں۔‘‘ (سورۃ التین)
انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک دماغ جنتی دماغ ہے یعنی آدم کی وہ حیثیت جب وہ نافرمانی کا مرتکب نہیں ہوا تھا اور دوسرا اسفل السافلین کا دماغ ہے جو نافرمانی کے بعد وجود میں آیا۔ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت جنت میں آدم کے اندر صرف ایک دماغ تھا جس کا شیوہ فرمانبردار ہو کر زندگی گزارنا تھا اور جب آدم اپنا اختیار استعمال کر کے نافرمانی کا مرتکب ہوا تو اس دماغ کے ساتھ ایک دوسرا ذیلی دماغ وجود میں آ گیا جو نافرمانی اور حکم عدولی کا دماغ قرار پایا۔ جب تک آدم و حوا جنت کے دماغ کی حدود میں زندگی گزارتے رہے۔ وہ ٹائم اسپیس (Time And Space) کی قید سے آزاد رہے لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کیا تو ان کے اوپر ٹائم اسپیس مسلط ہو گیا۔ یعنی آزاد ذہن قید و بند اور صعوبت کی بلاؤں میں گرفتار ہو گیا۔ ٹائم اسپیس میں قید ہو کر زندگی گزارنے کے لئے اس نے نئے اصول و قواعد مرتب کر لئے مثلاً بھوک و پیاس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کھیتی باڑی کا اہتمام اور محنت و مشقت کے ساتھ انتظار کی زحمت کو بھی گلے لگانا پڑا جب کہ جنت میں اس کے لئے انتظار نام کی کوئی شئے نہیں تھی۔ آدم نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور عفو و درگذر کی درخواست پیش کی۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ہم اپنے بندے بھیجتے رہیں گے جو تمہیں صراط مستقیم کی ہدایت کریں گے اور جو لوگ ان برگزیدہ پیغمبروں کی ہدایت پر عمل پیرا ہوں گے ہم انہیں ان کا اصل وطن جنت دوبارہ عطا فرما دیں گے۔‘‘
آدم جنت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے وہ ربط قائم نہیں رہا جو نافرمانی کے ارتکاب سے پہلے تھا، چونکہ یہ ربط (عارضی طور پر) ٹوٹ گیا تھا، اس لئے جنت کے دماغ نے انہیں رد کر دیا۔ عربی کی ایک مثل ہے کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس دماغ کو حاصل کرنے کے لئے جو ٹائم اسپیس سے آزاد ہے وہی طریقہ اختیار کرنا ہو گا جس طریقے سے ہم نے اس دماغ کو کھویا ہے یعنی ہم اپنے اختیار کے تحت اس دماغ کو رد کریں جس کی حدود میں رہ کر ہم آزاد دماغ سے دور ہیں اور جس کی حدود کے تعین سے ہمارا وہ ربط قائم نہیں رہا جو جنت میں تھا۔ اس ربط کو تلاش کرنا اور اس ربط کو قائم کرنا قرآن پاک کی زبان میں قیام صلوٰۃ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’قائم کرو صلوٰۃ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا ربط اور تعلق قائم کرو۔ ایسا ربط جو زندگی کے ہر حال و قال میں قائم رہے۔
ہم جب کوئی چیز حاصل کرتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں ایثار کرنا پڑتا ہے۔۔۔وقت کا ایثار، صلاحیت کا ایثار، دماغ اور جسمانی صحت کا ایثار۔ ایثار جتنا بڑھتا چلا جاتا ہے اسی مناسبت سے ہم حصول مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔