Topics
نیت باندھنے اور قیام صلوٰۃ میں انسانی دماغ پر کیا اثرات قائم ہوتے ہیں اس کی علمی اور سائنسی توجیہہ یہ ہے:
نیت باندھنا
دماغ میں کھربوں خلیے کام کرتے ہیں اور خلیوں میں برقی رو دوڑتی رہتی ہے۔ اس برقی رو کے ذریعے خیالات شعور اور تحت الشعور سے گزرتے رہتے ہیں، اس سے بہت زیادہ لاشعور میں۔ دماغ میں کھربوں خلیوں کی طرح کھربوں خانے بھی ہوتے ہیں۔ دماغ کا ایک خانہ وہ ہے جس میں برقی رو فوٹو لیتی رہتی ہے اور تقسیم کرتی رہتی ہے۔ یہ فوٹو بہت ہی زیادہ تاریک ہوتا ہے یا بہت زیادہ چمک دار۔ ایک دوسرا خانہ ہے جس میں کچھ اہم باتیں ہوتی ہیں۔ ان اہم باتوں میں وہ باتیں بھی ہوتی ہیں جن کو شعور نے نظر انداز کر دیا ہے اور جن کو ہم روحانی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں۔ نمازی جب ہاتھ اٹھا کر سر کے دونوں طرف کانوں کی جڑ میں انگوٹھے رکھ کر نیت باندھتا ہے تو ایک مخصوص برقی رو نہایت باریک رگ کو اپنا کنڈنسر بنا کر دماغ میں جاتی ہے اور دماغ کے اندر اس خانے کے خلیوں (Cells) کو چارج کر دیتی ہے جس کو شعور نے نظر انداز کر دیا تھا۔ یہ خلیے چارج ہوتے ہیں تو دماغ میں روشنی کا ایک جھماکا ہوتا ہے اور اس جھماکے سے تمام اعصاب متاثر ہو کر اس خانے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں جس میں روحانی صلاحیتیں مخفی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہاتھ کے اندر ایک تیز برقی رو دماغ میں سے منتقل ہو جاتی ہے جب کانوں سے ہاتھ ہٹا کر ناف کے اوپر اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر باندھے جاتے ہیں تو ہاتھوں کے کنڈنسر سے ناف (ذیلی جنریٹر) میں بجلی کا ذخیرہ ہو جاتا ہے۔ زیر ناف ہاتھ باندھنے کی صورت میں جنسی اعضاء جو نظام برقی کا ایک قوی عضو ہیں، کو طاقت ملتی ہے تا کہ نوع انسانی کی نسل دوسری نوعوں سے ممتاز اور مشرف رہے۔ اب سُبْحَانَکَ اَللّٰھُمَّ پڑھا جاتا ہے۔ جیسے ہی یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں، روح اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ صفاتِ الٰہیہ میں جذب ہوجاتی ہے اور پورے جسمانی نظام میں اللہ کی صفات روشنی بن کر سرایت کر جاتی ہے۔ جسم کا رُواں رُواں اللہ کی پاکی بیان کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَ الْقُرْاٰنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَّرَایَتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّ عًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ
ترجمہ: "اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر تو تُو دیکھتا وہ دب جاتا، پھٹ جاتا اللہ کی خشیئت سے۔"(پارہ ۲۸۔ سورۂ حشر، آیت۲۱)
آیتِ مقدسہ کا مفہوم یہ ہے کہ نماز شروع کرتے ہی انوارِ الٰہی ذخیرہ کرنے کی وہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے جس کے پہاڑ بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔
سُبْحَانَکَ اَللّٰھُمَّ کے بعد جب نمازی قرآن پڑھتا ہے تو وہ شعوری طور پر اپنی نفی کر دیتا ہے اور قرآن کے انوار اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔ وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ بیشک اللہ نے مجھے اس کا اہل بنایا ہے کہ میں قرآن کے انوار سے مستفیض ہو سکتا ہوں۔
سینہ پر ہاتھ باندھنا
خواتین نیت کے بعد جب سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں تو دل کے اندر صحت بخش حرارت منتقل ہوتی ہے اور وہ غدود نشوونما پاتے ہیں جن کے اوپر بچوں کی غذا کا انحصار ہے۔ نماز قائم کرنے والی ماؤں کے دودھ میں یہ تاثیر پیدا ہو جاتی ہے کہ بچوں کے اندر براہ راست انوار کا ذخیرہ ہوتا رہتا ہے جس سے ان کے اندر ایسا پیٹرن (Pattern) بن جاتا ہے جو بچوں کے شعور کو نورانی بناتا ہے۔ ایسے بچوں میں رضا و تسلیم کی کیفیت پیدا ہو کر بچوں میں خوش رہنے کی عادت ڈالتی ہے۔ نمازی ماؤں کے بچوں کے اندر گہرائی میں تفکر کرنے اور لطیف سے لطیف تر معانی پہنانے اور سمجھ بوجھ کی صلاحیتیں روشن ہو جاتی ہیں۔
رکوع
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ دماغی خلیوں اور برقی رو سے تمام اعصاب کا تعلق ہے۔ تمام اعصاب پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ یہ برقی رو کتنے قسم کی ہے، کتنی تعداد پر مشتمل ہے، اس کا شمار کیا ہے، آدمی کسی ذریعہ سے گن نہیں سکتا۔ البتہ یہ برقی رو دماغی خلیوں سے باہر آتی ہے اور پھر دیکھنے، چکھنے، سونگھنے، سوچنے، بولنے اور چھونے کی حِس بناتی ہے۔ یہ برقی رو اُمّ الدماغ میں سے چل کر ریڑھ کی ہڈی کے حرام مغز (Spinal Cord) سے گزرتی ہوئی کمر کے آخری جوڑ میں داخل ہو کر پورے اعصاب میں تقسیم ہو جاتی ہے اور یہی تقسیم حواس بن جاتی ہے۔
نمازی جب رکوع میں جھکتا ہے تو حِسیں (Senses) بنانے کا فارمولا اُلٹ جاتا ہے یعنی حواس براہ راست دماغ کے اندرونی رخ کے تابع ہو جاتے ہیں اور دماغ یک سُو ہو کر ایک نقطہ پر اپنی لہریں منعکس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ رکوع کے بعد جب نمازی قیام کرتا ہے تو دماغ کے اندر کی روشنیاں دوبارہ پورے اعصاب میں تقسیم ہو جاتی ہیں جس سے انسان سراپا نور بن جاتا ہے۔
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚمَثَلُ نُوْرِہٖ کِمشْکوٰۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحُ ۖ المِصباح فِیْ زُجَاجَۃٍ ۖاَلزُّجَتُہ کَانَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْفِیَّۃٍ وَّ لَاْغَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُزَیْتُھَا یُضِیْٓ عُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ ۚ نَارٌ نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرِ ۗ یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَاءُ ۚوَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسَ ۗ وَاللّٰہُ بِکّلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌo
ترجمہ:" اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا، اس کے نور کی مثال مانند اس طاق کے ہے کہ بیچ اس کے چراغ ہو، وہ چراغ شیشہ کے قندیل کے بیچ ہے، وہ قندیل شیشہ کا گویا کہ چمکتا تارا ہے، وہ چراغ روشن کیا جاتا ہے زیتون کے مبارک درخت سے کہ نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف ہے۔ نزدیک ہے کہ تیل اس کا روشن ہو جاوے اور اگرچہ اس کو آگ نہ لگے، روشنی اوپر روشنی کے، اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف راہ دکھاتا ہے اور اللہ بیان کرتا ہے مثالیں لوگوں کے واسطے ،اور اللہ ہر چیز کے ساتھ جاننے والا ہے۔(سورۂ نور۔ آیت ۳۵)
رکوع میں اس قدر جھکیں کہ سر اور ریڑھ کی ہڈی متوازی رہے۔ نگاہیں پیر کے انگوٹھوں کے ناخن پر مرکوز رہیں۔ ہاتھ دونوں گھٹنوں پر اس طرح رکھیں کہ ٹانگوں میں تناؤ رہے۔ سُبْحَانَ رَبِیَّ الْعَظِیْم تین بار، پانچ بار یا سات بار کہہ کر اس طرح کھڑے ہوں جیسے کوئی فوجی اٹینشن (Attention) ہوتا ہے۔
رکوع میں نمازی ہاتھ کی انگلیوں سے جب گھٹنوں کو پکڑتا ہے تو ہتھیلیوں اور انگلیوں کے اندر کام کرنے والی بجلی گھٹنوں میں جذب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے گھٹنوں کے اندر صحت مند لعاب برقرار رہتا ہے اور ایسے لوگ گھٹنوں اور جوڑوں میں درد سے محفوظ رہتے ہیں۔
سجدہ اور ٹیلی پیتھی
روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی (۱۸۶۲۸۲) میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور زمین کے گرد ایک سیکنڈ میں آٹھ دفعہ گھوم جاتی ہے۔ جب نمازی سجدہ کی حالت میں زمین پر سر رکھتا ہے تو اس کے دماغ کے اندر کی روشنیوں کا تعلق زمین سے مل جاتا ہے اور ذہن کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو بیاسی میل فی سیکنڈ ہو جاتی ہے۔ دوسری صورت یہ واقع ہوتی ہے کہ دماغ کے اندر زائد خیالات پیدا کرنے والی بجلی براہ راست زمین میں جذب (Earth) ہو جاتی ہے اور بندہ لاشعوری طور پر کششِ ثقل (Gravity) سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس کا براہ راست تعلق خالقِ کائنات سے ہو جاتا ہے۔ روحانی قوتیں اس حد تک بحال ہو جاتی ہیں کہ آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ کر اس کے سامنے غیب کی دنیا آ جاتی ہے۔
جب نمازی فضا اور ہوا کے اندر سے روشنیاں لیتا ہوا سر، ناک، گھٹنوں، ہاتھوں اور پیروں کی بیس انگلیاں قبلہ رُخ زمین سے ملا دیتا ہے یعنی سجدے میں چلا جاتا ہے تو جسمِ اعلیٰ کا خون دماغ میں آ جاتا ہے اور دماغ کو تغذیہ فراہم کرتا ہے۔ کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہو کر انتقال خیال (Telepathy) کی صلاحیتیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔
سجدہ میں آنکھیں بند کر لیں اور یہ تصور قائم کریں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں۔ اس تصور کو قائم کرتے ہوئے سُبْحَانَ رَبِّی الْاَعَلیٰ تین بار، پانچ بار یا سات بار پڑھیں۔ جب کوئی بندہ اللہ کے لئے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتا ہے تو کائنات اس کے سامنے سر بسجود ہو جاتی ہے اور شمس و قمر اس کے لئے مسخر ہو جاتے ہیں۔
جلسہ
جلسہ میں نگاہ سجدہ کی جگہ قائم رکھیں اور اطمینان سے اتنی دیر بیٹھیں جتنی دیر میں سُبْحَانَ رَبِّی الْاَعَلیٰ کم سے کم تین بار پڑھا جا سکتا ہے۔
دونوں سجدے ادا کر کے ٹھہر ٹھہر کر التحیات پڑھیں اور ساتھ ساتھ معنی پر بھی غور کرتے جائیں۔
سلام
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہ(سلامتی ہو تم پر اور اللہ کی رحمت) کے الفاظ یہ ثابت کرتے ہیں کہ نمازی کے ساتھ دوسری ماورائی مخلوق بھی نماز میں شریک ہے جس کو سلام کیا جا رہا ہے۔
سلام پھیرتے وقت یہ تصور ہونا چاہئے کہ ہمارے ساتھ جنات اور فرشتوں نے بھی نماز ادا کی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔