Topics

کیا مراقبہ خواب کا تسلسل ہے؟

سوال: مراقبہ کرتے ہوئے کسی شخص کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ نیند کی حالت میں ہے۔ مکمل خاموشی اور سکون، بند آنکھیں اور سانس کا ایک مخصوص زیروبم۔ یہ سب وہ علامات ہیں جو خواب کی حالت کو ظاہر کرتی ہیں۔ براہِ کرم اس تاثر کی روشنی میں مراقبہ پر روشنی ڈالیں۔

جواب: خواب اور بیداری کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خواب اور بیداری دراصل زندگی کے دو رُخ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہر چیز دو رخوں پر پیدا کی گئی ہے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات بھی دو رخوں پر قائم ہیں۔ زندگی کے وہ دو رخ جن پر ماضی حال اور مستقبل رواں دواں ہیں۔ بنیادی طور پر خواب اور بیداری ہیں جب کہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ خواب کوئی خاص زندگی نہیں ہے البتہ بیداری زندگی ہے۔ علومِ ظاہری کے دانش ور جب خواب کا تذکرہ کرتے ہیں تو خواب کو ایک خیالی زندگی کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق خواب اور بیداری الگ الگ نہیں ہیں صرف حواس کی درجہ بندی کا فرق ہے۔ ایک حواس میں ذی روح اپنے اوپر پابندی محسوس کرتا ہے اور دوسرے حواس میں خود کو پابندی سے آزاد دیکھتا ہے۔ ان میں ایک ہی فرق صرف پابندی اور آزادی کا ہے۔

مراقبہ دراصل ایک ایسی کیفیت او ر مشق کا نام ہے جو انسان کو حواس کے دو رخوں سے متعارف کراتی ہے۔ اس کیفیت سے متعارف ہونے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ آدمی اعصابی تھکان کی وجہ سے پابندی کے حواس سے ہٹ کر ایسے حواس میں قدم رکھنا چاہتا ہے جہاں پابندی نہیں ہے تو طبیعت اسے دنیاوی آلام و مصائب سے آزاد کر کے اس زندگی میں لے جاتی ہے جس زندگی کا نام خواب ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اعصابی طور پر بے حس ہو کر سو جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اعصابی سکون کے ساتھ اپنے ارادہ اور اختیار سے بے دار رہتے ہوئے اپنے اوپر خواب کے حواس مسلّط کرے۔ جس مناسبت سے خواب کے حواس بیداری میں منتقل ہوتے ہیں اسی مناسبت سے کوئی آدمی روحانی ترقی کرتا ہے۔

جب آدمی سونے کے لئے لیٹتا ہے تو اعصابی سکون اور خمار کی کیفیت سے دوچار ہونے کے بعد غنودگی کے عالم میں چلا جاتا ہے۔ غنودگی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے شعوری حواس لاشعوری حواس میں منتقل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اور جب غنودگی اپنے عروج کو پہنچتی ہے یعنی شعوری حواس لاشعوری حواس میں منتقل ہو جاتے ہیں تو آدمی سو جاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ہر ذی روح میں جاری ہے خواہ وہ کسی نوع سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کو اپنی صفات کا علم عطا فرمایا ہے جو دوسری مخلوقات کو عطا نہیں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم سب کا سب غیبی انکشافات ہیں۔ اور یہ وہی صلاحیتیں ہیں جن کو ’’علم الاسماء‘‘ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ بندہ غیب کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صناعی کا مشاہدہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان حاصل کرے۔ اس لئے یہ ضروری ہو گیا کہ بندے کے اندر وہ صلاحیتیں بھی موجود ہوں۔ جن کو بروئے کار لا کر وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کر سکے۔ یہ منشاء آزاد زندگی میں داخل ہو کر پورا ہو سکتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ غیب کی دنیا میں ٹائم اور اسپیس نہیں ہوتا۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ انسان کے حواس پابند زندگی میں بھی سفر کرتے ہیں اور پابند زندگی سے آزاد ہو کر بھی۔ پابند زندگی بیداری ہوتی ہے اور آزاد زندگی خواب ہے۔ خواب کی زندگی میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بیداری کے حواس بھی قائم رہیں اور آدمی جس طرح بیدار رہ کر ارد گرد کے ماحول سے متصل رہتا ہے اسی اتّصال کے ساتھ آزاد زندگی میں بھی سفر کرے۔ اس بات کو آسان الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ مراقبہ دراصل بیداری کے حواس میں رہتے ہوئے خواب دیکھنا ہے۔ یعنی ایک آدمی بیدار ہے۔ شعوری حواس کام کر رہے ہیں۔ وہ ماحول اور فضا سے متاثر بھی ہو رہا ہے، آوازیں بھی سن رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خواب بھی دیکھ رہا ہے۔ وہ بیک وقت دو کام کر رہا ہے۔ جاگ بھی رہا ہے ، سو بھی رہا ہے، ’’ٹائم اسپیس‘‘ میں بند بھی ہے اور آزاد بھی ہے۔

اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے۔ ایک آدمی کسی دوست کو خط لکھ رہا ہے۔ خط لکھنے میں اس کا دماغ بھی کام کر رہا ہے۔ اس کا ہاتھ بھی چل رہا ہے۔ ماحول میں پھیلی ہوئی آوازیں بھی سن رہا ہے، کوئی بولتا ہے تو اس کی بات کا مفہوم بھی اس کے ذہن میں منتقل ہوتا ہے۔ کوئی شخص اس سے سوال کرتا ہے تو اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ فضا میں خنکی ہے تو سردی محسوس کر رہا ہے، گرمی ہے تو گرمی کا احساس بھی اُسے ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر وہ خط لکھ رہا ہے اور خط لکھنے میں شعوری کیفیت الفاظ کی شکل میں منتقل ہو رہی ہے اور الفاظ کے اندر جو مفہوم ہے وہ لاشعور سے شعور میں منتقل ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی بیک وقت اپنے اندر چھپی ہوئی کئی صلاحیتوں کو استعمال کر رہا ہے۔ جب کوئی بندہ بیداری میں رہتے ہوئے خواب کے حواس کو اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے تو جس طرح خط لکھنے کی حالت میں وہ بہت سے صلاحیتیں ایک ساتھ استعمال کر رہا تھا اسی طرح وہ خواب یا لاشعوری زندگی میں بھی بیداری اور خواب کی صلاحیتوں سے ایک ساتھ متعارف ہو کر ان کا استعمال کر سکتا ہے۔

شعوری اور لاشعوری صلاحیتوں سے ایک ساتھ کام لینے کے طریقے کا نام مراقبہ ہے۔

Topics


روح کی پکار

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے