Topics
اے واعظ ! میں جس آقا کا غلام ہوں ان کا ارشاد ہے ’’قلم لکھ کر خشک ہو گیا ۔‘‘آج میری پیشانی پر جو فلم زندگی کی رقصاں ہے وہ میری پیدا ئش سے پہلے ہی ازل میں بن گئی تھی اور یہی میری تقدتر ہے اے واعظ ! تیرے واعظ نصیحت کا میرے اوپر کیا اثر ہو گا۔ تو خود ازل کی کی لکھی ہو ئی تحریر ہے ۔یہی سب با دہ و جا م کی با تیں بھی ازل میں لکھی جا چکی ہیں ۔یہ شراب (زندگی )اور یہ جام (خاکی لباس سے مزین جسم قدرت کی ایسی لکیر ہے جسےکو ئی نہیں بدل سکتا ۔)اے واعظ ! یہ سعا دت ازلی سعادت مندوں کو میسر آتی ہے ۔ازلی شقی اس کے قُرب سے محروم رہتے ہیں ۔با لاآخر وقت آئے گا کہ یہ لکیریں (لہریں )منتشر ہو جا ئیں گی گرویٹی ( GRAVITY) کا عمل ختم ہو جا ئے گا اور جسم تحلیل ہو جا ئے گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔