Topics

رُوح کا نام

ہم جب اپنے آپ کا مطا لعہ کر تے ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک محدود اور فنا ہو نے والا ایک جسم ہے اور یہی ہماری زندگی کی پہچان ہے اور یہ جسم جو ہمیں نظر آتا ہے اس کے اجزائے تر کیبی کثافت ،گندگی ،تعفن اور سڑاندہیں ۔اس سڑاند کی بنیا د اس نظر یہ پر قائم ہے کہ ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں ما دہ ہو ں اور اس ما دی دنیا کی پیدا ئش ہوں ۔یہ محدود نظر یہ ہر آدمی کو کسی ایک مقام میں محدود کر دیتا ہے اور ہر آدمی ایک محدودیت کے تا نے با نے میں خود کو گر فتار کر لیتا ہے اور اس طر ح محدود اورپا بند نظر یے کی بنیاد پڑ جا تی ہے۔زمین پر بسنے والا ہر آدمی جب اپنا تذکرہ کر تا ہے تو کہتا ہے میں مسلمان ہوں میں ہندوں ہوں ،میں پا رسی ہوں ،میں عیسائی ہو ں حا لانکہ رو ح کاکو ئی نام نہیں رکھا جا سکتا ۔رو شنی ہر جگہ رو شنی ہے چاہے وہ عرب میں ہو،عجم میں ہو یا یو رپ میں ہو یا ایشیاکے کسی حصے میں ۔


Topics


کشکول

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔