Topics

مسخ چہرے

آج ہم جا نتے ہیں کہ ہم سے زیادہ تر قی یا فتہ تہذیبیں اسی زمین پر ظا ہر ہو ئیں ۔اور اس طر ح معدوم ہو گئیں کہ صرف آثاربا قی رہ گئے ۔جب ہم ان عوامل کا کھوج لگا تے ہیں جو ان کی مکمل تبا ہی میں کار فر ما ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات کھل کر آتی ہے کہ جن لوگوں کا رشتہ دنیا سے مستحکم اور اپنی رُوح سے کمزور ہو گیا بالآخر ان کے اوپر حرص اور لا لچ غالب آگیا ۔ ایسی قوموں کا مقصد زندگی صرف اور صرف دنیا کا حصول بن جا تا ہے ۔اور کبھی نہ ختم ہو نے والی حرص اور ہوس کی دوڑ میں پو را معاشرہ اس طر ح گر فتار ِبلا ہو جا تا ہے کہ کو ئی صورت با ہر نکلنے کی با قی نہیں رہتی تو قومیں تبا ہ اور بر باد کر دی جا تی ہیں یا پھر ان کے چہرےمسخ ہوجاتے ہیں ۔

Topics


کشکول

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔