Topics

مایا جال

کتنی عجیب بات ہے کہ وہ لو گ جنہوں نے سا ری زندگی اپنی خوا ہشات کی تکمیل کے لئے سامان دنیا اپنے گر د اکٹھا کیا ،ان کے مر نے کے بعد لوگوں نے ان کے نام بھی فرا موش کر دئیے ۔دو سری طر ف وہ پا کیزہ لو گ ہیں جن کے ذکر پر آج بھی پیشانیاں عقیدت و محبت کے جذبات سے جھک جا تی ہیں جب تک یہ لوگ عوام میں موجود رہے حق کی شمع بن کر فر وزاں  رہے اور جب پس پر دہ چلے گئے تب بھی ان کا تشخص لوگوں کے سامنے رہا اس لئے کے انہوں نے ذاتی غر ض اور خود پسندی کو با لا ئے طا ق رکھ دیا تھا ،مایا جال ان کو اپنی گر فت میں نہیں لے سکا ۔ ان سعید رُوحوں نے یہ راز جا ن لیا تھا کہ خود سے گزرے بغیر خدا نہیں مل سکتا ۔


Topics


کشکول

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔