Topics
ہمیں پو ری سنجیدگی کے ساتھ متا نت اور برد باری کے ساتھ یہ سو چنا ہو گا کہ مر نے جینے اور جسم سے نت نئی تبدیلیوں کے پیچھےکیا عوامل کا م کر رہے ہیں ۔ہم کیوں قائم با لذات نہیں ہو جا تے ،کیا ہم بار بار تبدیلئ جسم کے سلسلے کو ختم نہیں کر سکتے اور کیا ہم بقا ئے دوام پا سکتے ہیں ،اور کیا ہر آن ،ہر لمحہ جسمانی ذہنی شعوری تبدیلی سے نجا ت پا سکتے ہیں ؟ہمیں سو چنا ہو گا کہ اختلا ف لیل و نہار کے ساتھ ہم بھی کیوں تبدیل ہو تے رہتے ہیں یہ جا ننے کے لئے ہمیں اپنے دو ست کو پہچا ننا ہوگا اور جب ہم اپنے سچے، پاک اور ایثار کر نے والے دو ست سے واقف ہو جا ئیں گے تو ردّوبدل کا لا متنا ہی سلسلہ ایک نقطے پر ٹھہر جا ئے گا ۔۔۔ہمارا یہ دو ست خدا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔