Topics

علمِ کتاب

اللہ تعالیٰ نے انسان کو سا کت و صامت پنچرہ نہیں بلکہ بو لتا، چلتاپھر تا ،کھا تا پیتا،سو چتا سمجھتا انسان بنا یا ہے ۔فر ش سے عرش تک اس کا ایک قدم ہے ،سوئی  کا رو زن اور آسمانوں کی کھلی فضا ،ایک ستا رے سے دو سرے ستا رے تک کے لئے فا صلہ اس کے لئے  ایک معنی ر کھتا ہے۔وہ نہ کہیں رکتا ہے نہ راستہ کھو ٹا کر تا ہے ۔افسوس یہ ہے کہ وہ خود کو جا نتا نہیں کہ میں کیا ہوں اور کا ئنات کیا ہے ۔حضور ؐ کا نوع انسانی پر یہ سب سے بڑا  احسان ہے کہ انہوں نے ان تمام رازوں کو واشگاف کر کے رکھ دیا ،سب راز انہوں نے ازخود منکشف نہیں کر دئیےتھے بلکہ ان پر اللہ نے کھو لے ۔من و عن انہوں نے قرآن کی صورت میں ریکا رڈ کرا دیا ،انہوں نے سا ری زندگی کی جفا کشی سہہ کر اس اما نت کو نو ع انسانی کے حوالے کیا ۔نو ع انسانی نے جو قدر کی ہے وہ ظا ہر ہے۔اللہ نے اسی علم کو کتاب کا علم فر مایا ہے ہر انسان اس سے فا ئدہ اٹھا سکتا ہے چا ہے اس کا نام زید ہو،بکر ہو ،یا عمر ہو ۔


Topics


کشکول

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔