Topics

علم الغیب کیا ہے؟

سوال: علم الغیب کیا ہے اور کیا رسول اللہﷺ کو علم الغیب حاصل تھا یا نہیں؟

جواب: رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس بہت ہی اعلیٰ و ارفع، حاصلِ کائنات اور باعثِ تخلیقِ کائنات ہے۔ حضورﷺ کو علم الغیب حاصل تھا یا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔یہ تو انتہائی بچگانہ بات ہے۔ اگر کوئی آدمی یہ سوال کرے کہ جناب حضرت جبرائیل علیہ السّلام کی شخصیت مظہر کی ہے یا غیب کی؟۔۔۔۔۔۔امر ہے کہ ایک عام آدمی بھی جواب میں یہی کہے گا کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام کی شخصیت غیب کی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب قرآنِ پاک نازل فرمایا تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام مسلسل حضور پاکﷺ کے پاس تشریف لاتے رہے اور قرآن کا نزول حضرت جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے ہوتا رہا۔ اگر رسول اللہﷺ کو غیب کی نظر حاصل نہ ہوتی تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ یہ بالکل ایک اور ایک جمع دو والی بات ہے یعنی یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس پر مناظرہ ہو یا مباحثہ کیا جائے۔ دوسری دلیل رسول اللہﷺ کی معراج ہے۔ رسول اللہﷺ معراج پر تشریف لے گئے۔ یہ آپ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ قربت حاصل ہوئی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اور ہمارے اور ہمارے بندے کے درمیان فاصلہ اتنا کم رہ گیا کہ دو کمانوں سے بھی کم اور ہم نے اپنے بندے سے راز و نیاز کی باتیں کیں اور ہمارے بندے نے جو کچھ دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔‘‘ (سورۃ النجم)

اللہ تعالیٰ سے گفتگو، اللہ تعالیٰ سے قربت، آسمانوں کی سیر، یہ سب کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔اس کو ہم کسی صورت سے غیب کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ کیا رسول اللہﷺ کو علم الغیب اس طرح حاصل تھا جس طرح اللہ کو ہے تو اس بات کی نفی خود رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔ لیکن جتنا علم اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو دیا وہ سب کا سب غیب ہے اور اس کو ہم قرآنِ پاک اور احادیث مبارکہ کی رُو سے غیب کے علاوہ کوئی نام نہیں دے سکتے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

’’جس نے خود کو پہچان لیا اس نے ربّ کو پہچان لیا۔‘‘

رب کو پہچان لینے سے مراد یہ ہے کہ ہر انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے ربّ کو پہچان سکتا ہے۔ ربّ کو ہم غیب کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

’’مر جاؤ مرنے سے پہلے۔‘‘

یعنی مرنے سے قبل مرنے کی زندگی سے آشنا ہو جاؤ۔ ظاہر ہے عالمِ اَعراف اور وہاں موجود روحوں سے اگر انسان متعارف ہو جاتا ہے تو اس کو بھی علم غیب کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

رسول اللہﷺ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے سکھا دیا، جو کچھ عطا کیا وہ ان کے لئے غیب کہاں رہا؟ جو چیز ظاہر ہو گئی، وہ غیب کہاں رہی؟ لیکن جو چیز حضورﷺ پر ظاہر ہو گئی وہ ہمارے لئے غیب ہے۔ اس لئے کہ ہم نے نہ تو جبرائیل علیہ السّلام کو دیکھا ہے نہ ہی آسمانوں کی سیر کی ہے اور نہ ہی ہم نے اللہ تعالیٰ سے وہ قربت حاصل کی ہے جو رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ سے ہوئی۔ جب حضور پاکﷺ کو وہ چیزیں حاصل ہو گئیں جن کو علم الغیب کہا جاتا ہے تو حضورﷺ کے لئے وہ غیب غیب ہی نہیں رہا، لہٰذا یہ سوال ہی غلط ہے۔ رسول اللہﷺ کو جو علم حاصل ہے وہ دراصل ہمارے لئے غیب ہے یعنی جو چیز ہمیں معلوم نہیں ہے جو چیز ہماری آنکھ نہیں دیکھ سکتی، اسے رسول اللہﷺ کی آنکھوں نے دیکھا اور اسے سمجھا ہے۔ رسول اللہﷺ کی ذات تو بہت اعلیٰ و ارفع ہے ان کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق کی ہے۔ قرآنِ پاک کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے ایک عام انسان کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اللہ سے رابطہ کر سکتا ہے۔

’’کسی انسان کی یہ قدرت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کر سکے مگر وحی کے ذریعے۔‘‘

(سورۂ الشّوریٰ۔ آیت ۵۱)

Topics


روح کی پکار

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے