Topics

روح سے وُقوف حاصل کرنا

سوال: روح کیا ہے؟ اس کو تفصیل سے بیان کریں اور روح سے وُقوف کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جواب: قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ:

لوگ تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے ربّ کے امر سے ہے۔

(سورة الإسراء / سورۃ بنی اسرائیل – آيت 85)

قرآن پاک کی آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ:

انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی۔ یہ بولتا، سنتا، سمجھتا اور محسوس کرتا انسان بن گیا۔

(سورۃ الانسان / سورۃ الدّھر – آیت نمبر 1 – 2)

بات سیدھی اور صاف ہے کہ انسان گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کے اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے اندر اللہ کی پھونکی ہوئی روح نے اس کی تمام صلاحیتوں اور زندگی کے تمام اعمال و حرکات کو متحرّک کیا ہوا ہے۔

ہم روزہ مرہ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کا پورا جسم موجود ہونے کے باوجود اس کی حرکت ختم ہو جاتی ہے یعنی:

• حرکت تابع ہے روح کے… درحقیقت روح ہی زندگی ہے اور روح کے اوپر ہی تمام اعمال و حرکات کا انحصار ہے۔

• روح کی ہر حرکت میں مقداریں کام کرتی ہیں.. اور

• یہ معیّن مقداریں استعمال کر کے روح مختلف ھَیئتوں اور رنگ و روپ میں اپنا تعارف پیش کرتی ہے۔

روح جب ان معیّن مقداروں کے تانے بانے کے ساتھ لباس تیار کرتی ہے، جس کو ہم درخت کہتے ہیں تو روح ہمیں درخت کی شکل میں نظر آتی ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اس طرح جتنی نَوعیں اور نَوعوں کی شکل و صورت ہم دیکھتے ہیں یا ایسی نَوع جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے وہ روح کے لباس کی ہر لمحہ بدلتی ہوئی تصویریں ہیں۔ روح جب ملاءِ اعلیٰ کے لباس میں خود کو پیش کرتی ہے تب وہ ملاءِ اعلیٰ کہلاتی ہے۔ ملاءِ اعلیٰ میں گروہ جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل شامل ہیں۔

روح ہی کی تخلیق حاملان عرش، ملائکہ سماوی، ملائکہ ارضی اور ایسے سیّارے ہیں جن میں اربوں کھربوں انسان جنّات اور دوسری مخلوق آباد ہیں۔

روح ہمیشہ پردے میں رہتی ہے اور خود کو کسی نہ کسی لباس یا حجاب میں ظاہر کرتی ہے۔ روح کے بارے میں جتنے تذکرے ملتے ہیں اور جن لوگوں نے روح کی تعریف بیان کی ہے انہوں نے روح کو کسی نہ کسی شکل و صورت میں بیان کیا ہے مثلاً روشنی، نور وغیرہ وغیرہ۔ روشنی بھی ایک شکل ہے اور نور کی بھی ایک تعریف ہے۔

فی الواقع روح کیا ہے؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟ … اس کو واضح طور پر بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ (Vocabulary) نہیں ہے۔

روح جس نَوع کا لباس اختیار کرتی ہے اس کو زندہ رکھنے کے لئے تمام ضروری حواس بخشتی ہے۔ یہ حواس ہی ہیں جو الگ الگ مقدار رکھتے ہںل… زمان و مکان کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔

حواس کی ذیلی تخلیق بھی روح کی تخلیق ہے۔ اس طرح جیسے انسان ہوائی جہاز بناتا ہے تو کہا یہ جاتا ہے کہ انسان ہوائی جہاز کا خالق ہے حالانکہ ہوائی جہاز کی تخلیق میں درجہ بدرجہ وہ تمام تحریکات موجود ہیں جو روح سے انسان کو منتقل ہوتی ہیں۔

جب کوئی انسان تخلیقی مقداروں سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس حد تک آزاد ہو جاتا ہے کہ روح کا بنایا ہوا لباس یا اپنے لئے روح کے مُتعیّن کردہ میڈیم کی نفی ہو جاتی ہے، تو وہ ایک حد تک جتنا اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں، روح سے وُقوف حاصل کر لیتا ہے اور یہ وُقوف انسان کو تمام فاصلوں اور تمام حد بندیوں سے آزاد کر دیتا ہے۔

روح سے وُقوف حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی توجّہ اپنے اندر (Inner) میں مرکوز کر دیں۔ جوں جوں ہماری فکر گہرائی میں اترتی چلی جائے گی ویسے ویسے ہم روح سے واقف ہو جائیں گے۔ اپنی توجّہ اپنے Inner میں مرکوز کرنے کے لئے مراقبہ پہلی سیڑھی ہے۔

Topics


روح کی پکار

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے