Topics

روحانی طرزِ فکر کا تجزیہ

سوال: روحانی نقطۂ نظر سے اچھائی اور برائی کیا ہے؟

جواب: اچھائی کیا ہے؟ ایک ایسی اطلاع ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس قسم کا طرزِ زندگی گزارنے اور اس قسم کے اعمال و حرکات سے ہم مطمئن اور پرسکون رہ سکتے ہیں اور اس اطمینانِ قلب کی بنا پر ہم غم آشنا زندگی اور خوف و ہراس سے نجات حاصل کر کے غیب کی پرسکون وادیوں (جنّت) میں گھر قائم کر سکتے ہیں۔ عالمِ غیب کی راہوں پر سفر کرتے ہوئے کائنات اور اللہ تعالیٰ کا تعارف حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ یہ اطلاع ہے۔ ایسی اطلاع جو اللہ تعالیٰ کے نبیوںؑ کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے۔

دوسرا رخ برائی ہے۔ برائی کیا ہے؟ ایسی اطلاعات کا مجموعہ ہے جو حُزن و ملال، خوف، غم، حسد، طمع، لالچ، مصائب زدہ حیات اور غیر مطمئن طرز عمل پر مشتمل زندگی ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ بھی ایک اطلاع ہے۔ اور یہ اطلاع بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہم تک پہنچائی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صدورِ اطلاعات کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث کیا اور ان کے مقابل ایک تشخّص بنایا جس کا نام شیطان رکھا گیا۔ یعنی کائنات میں مکلّف مخلوق کے اندر اطلاعات کا ذریعہ وہ تشخّص ہے۔ ایک تشخّص برائی کا ہے اور دوسرا تشخّص بھلائی کا ہے۔ برائی کا تشخّص اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتا ہے اور بھلائی کا تشخّص اللہ تعالیٰ سے قریب کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی آدمی ہو یا دس بیس یا پچیس ہزار آدمی ہوں۔ مطلب واضح ہے کہ جب کوئی اطلاع ہمارے دماغ کے لئے قابلِ قُبول ہے اور ہمارا دماغ ان اطلاعات میں معنی پہنا سکتا ہے تو ہم مکلّف ہیں۔ بھلائی اور برائی کے دو رخوں میں بند ہیں۔ اور جکڑے ہوئے ہیں۔ ایک بات بہت زیادہ فکر طلب ہے کہ اطلاع ایک ہے اور ایسی اطلاعات کو دو معنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک اطلاع ہے بھوک۔ اس لئے کہ آدمی کھا پی کر زندگی کو قائم رکھتے ہوئے حرکت کرنے کے قابل ہے۔ بھوک رفع کرنے کی دوصورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ محنت مزدوری کر کے ایماندارانہ اور مخلصانہ طرزوں سے بھوک کو رفع کیا جائے اور بھوک کے تقاضے اس طرح پورے کئے جائیں جو بھلائی کے دائرے میں نہیں آتے۔ یہ اطلاع میں دوسرے معنی پہنانے کے مترادف ہے۔ ایک گائے اور آدمی میں یہی فرق ہے کہ گائے ہر اطلاع میں معنی نہیں پہنا سکتی۔ جہاں چاہے منہ مار دیتی ہے اور پیٹ بھر لیتی ہے لیکن زندگی کے وہ سب تقاضے بھی اس کے اندر موجو د ہیں جو انسان کے اندر موجود ہیں۔ اس کے اندر ماں کی شفقت اور بچوں کی پرورش کا جذبہ بھی ہے۔ وہ خوش بھی ہوتی ہے اور غمگین بھی، کوئی رنج پہنچے تو رونے کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔ بچپن میں، میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک گائے کا بچہ مر گیا اور گائے مسلسل تین دن تک آنسوؤں سے روتی رہی۔ اس کو اپنے تحفّظ کا احساس بھی ہے اور سردی گرمی سے محفوظ رہنے کا طریقہ بھی جانتی ہے۔

’’بڑی عجیب بات ہے کہ دانشوروں نے انسان کو حیوانِ ناطق کہا ہے۔ ایسا حیوان جو اپنا مفہوم باتوں میں بیان کر سکے۔ لیکن جب ہم بقول ان کے غیر ناطق حیوانوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ وہ بھی زبان رکھتے ہیں۔ خیالات کی لہروں کا تبادلہ ان کے اندر بھی ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی بات سمجھتے ہیں۔ یہ جملۂِ مُعترضہ ہے۔‘‘

بہرکیف ہم بتا یہ رہے تھے کہ اطلاعات میں معنی پہنانے کا یہ تصوّر انبیاء علیہم السّلام سے منتقل ہوا ہے۔ انبیاء علیہم السّلام کی مقدس زندگی پر غور کیا جائے تو ایک ہی بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ انہوں نے بھلائیوں کو خود اختیار کیا ہے اور اپنی امّتوں کے لئے بھلائی اور برائی میں حد فاصِل قائم کرنے کے لئے قاعدے اور ضابطے بنائے ہیں۔ جب ہم کوئی بھلائی اختیار کرتے ہیں تو دراصل پیغمبرﷺ کی زندگی کو اپناتے ہیں۔ پیغمبر اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ کے دوستوں کو اس زندگی میں اور مرنے کے بعد کی زندگی میں کوئی خوف نہیں ہوتا نہ غم۔۔۔! دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے۔ انبیاءؑ کا طرز عمل اختیار کرنے والا کوئی بندہ انبیاءؑ کا دوست ہوتا ہے اور انبیاءؑ کے دوست اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔

Topics


روح کی پکار

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے