Topics

خاندان

پا نی کا قطرہ سمندر سے اٹھا تو با دل بن گیا ۔وہاں سے ریگستانوں میں ٹپکا تو دو با رہ فضا ء میں اڑ گیا ۔ باغ میں بر سا تو اوس بن کر پھلوں میں جا پہنچا وہاں سے پیٹ میں آیا اور یہاں آیا تو جزو جسم بن کر قائم رہا یا جسم میں سے پھر با ہر نکل گیا اور اگر دو با رہ سمندر میں جا ئے گا تو یہ گو یا وطن پہنچ گیا ۔الغر ض قطرہ آب کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہتا ہے ۔اگر پا نی مر کب ہو نے کے با وجود زندہ رہتا ہے تو رو ح کو جو بسیط ہے بدرحہ ءاولیٰ با قی رہنا چا ہئے۔جس طر ح آفتابی شعاعیں پیا سے ریگستان میں ٹپکے ہو ئے قطروں کو ڈھونڈ کر آسمانی بلندیوں کی طرف واپس لے جا تی ہیں اسی طر ح زندگی کے یہ تمام قطرے جو اجسام انسان کے خاک دانوں میں ٹپک پڑتے ہیں لا مکا نی وسعتوں میں دو با رہ پہنچ جا تے ہیں ۔


Topics


کشکول

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔