Topics

توانائی

آسمانی کتا بوں کے مطا بق سکون حاصل کر نے کا مو ثر طر یقہ یہ ہے کہ انسان غصہ نہ کر ے اورکسی بات پر پیچ و تاب نہ کھا ئے ۔عملی جدو جہد میں کو تا ہی نہ کر ے ۔اور نتیجے کے اوپر نظر نہ رکھے ۔زمین پر بسنے والی قومیں زندگی کے جن اصولوں پر کا ر بند ہیں ان کا مطا لعہ کر ے ۔قانون فطرت میں کہیں جھول نہیں ہے ۔ ہر چیز وقت کے ہا تھوں میں کھلو نا بنی ہو ئی ہے ۔ وقت جس طر ح سے چا بی بھر دیتا ہے شئے حر کت کر نے لگتی ہے ۔ وقت اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے تو کھلو نے میں چا بی ختم ہو جا تی ہے ۔کل پر زے سب ہو تے ہیں لیکن انر جی با قی نہیں رہتی ۔وقت قوت کا مظا ہرہ ہے ۔قوت ایک تو انائی ہے ، ایک مر کز ہے اور اسی مر کز کو آسمانی کتا بیں قدرت کے نام سے متعارف کر اتی ہیں ۔قدرت ایک ایسا مر کز ی نقطہ ہے جس نقطے کے ساتھ پو ری کا ئنات کے افراد بندھے ہو ئے ہیں ۔ وجود اور عدم دو نو ں اس میں گم ہیں ۔ انسان جب کا ئنات کے مر کز ی نقطے سے اپنا رشتہ تلا ش کر لیتا ہے اور خالق کائنات کو جان لیتا ہے تو دنیا سے اس کی سا ری تو قعات ختم ہو جا تی ہیں اور جب ایسا ہو جا تا ہے تو مسرتیں اس کے گر د طواف کر تی ہیں اور موت کی آنکھیں اسے مامتا سے دیکھتی ہے ۔اس کے قریب آنے سے پہلے دستک دیتی ہے اور اجا زت کی طلبگار ہو تی ہے۔ 


Topics


کشکول

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔