Topics

ترقی کا فسوں

سوال: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسی قومیں بھی گزر چکی ہیں، جو علم طاقت اور مال میں بہت زیادہ تھیں اور انہوں نے زمین کو بہت رونق بخشی۔ آج ہم سائنس کی بے پناہ ترقی دیکھتے ہیں۔ کمپیوٹر، اطلاعاتی سائنس، جینیات کی بے پناہ ترقی بھی ہمارے سامنے ہے۔ کیا ہم سے پہلے اس سے بھی زیادہ ترقی ہو چکی ہے؟ اور اتنی عظیم ترقی کے بعد ایسی کیا بات ہوئی کہ ان قوموں کا نام و نشان تک مٹ گیا؟

جواب: آج کے دَور سے پہلے بہت عظیم ترقیاں ہو چکی ہیں۔ قانون قدرت یہ ہے کہ ترقی یا ریسرچ جب اتنے عروج پر پہنچ جاتی ہے کہ جہاں انسان قدرت کے کاموں میں دخل دینا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور قومیں صفحہ ہستی سے نابود ہو جاتی ہیں۔

تاریخ کی کتابوں کے مطابق حکیم مقنی ایک شخص گزرا ہے۔ اس نے چاند بنا لیا تھا۔ ایک کنوئیں میں سے باقاعدہ چاند نکلتا تھا۔ چاند کی طرح چاندنی چٹکتی تھی اور وہ چاند اپنا سفر پورا کر کے دوبارہ کنوئیں میں جا چھپتا تھا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ کتابوں میں درج ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام زمین پر تشریف لائے۔ دو چھوٹے بچے کھیل رہے تھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے ان میں سے ایک بچے سے پوچھا کہ بتاؤ جبرائیل کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔بچے نے جواب دیا۔ جبرائیل نہ آسمانوں میں ہے، نہ زمین پر اس کا پتہ چلتا ہے۔ اب یا تو میں جبرائیل ہوں یا تُو جبرائیل ہے۔

اُڑن کھٹولوں کا تذکرہ دادیاں نانیاں عام طور سے کرتی ہیں۔ یہ اڑن کھٹولے ہوائی جہاز تھے۔ جامِ جم ایک ڈبہ تھا اس پر شیشہ لگا ہوا تھا۔ بادشاہ میلوں مِیل دُور جنگ کے حالات اس شیشے پر دیکھتا تھا۔ اگر تاریخ میں ڈھونڈا جائے تو اس قسم کی ترقیاں سامنے آتی ہیں جو آج سے کہیں زیادہ تھیں۔ جب سائنسدانوں نے قدرت کے کاموں میں دخل دینا شروع کیا جیسے آج کل DNAاور کلوننگ وغیرہ ہیں۔ چونکہ اس ریسرچ سے براہِ راست قدرت کے کاموں میں دخل اندازہ ہوتی ہے اس لئے قدرت نے انہیں نیست و نابود کر دیا۔ میں راقم الحروف اس دنیا میں نہیں ہوں گا لیکن میرے بعد آنے والی نسلیں اس بات کی شہادت فراہم کریں گی کہ موجودہ ترقی کا فَسوں جس نے انسان کا سکون برباد کر دیا ہے ختم ہو جائے گا۔

Topics


روح کی پکار

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے