Topics

اللہ تعالیٰ نظر کیوں نہیں آتے

سوال: ہر انسان جب اللہ کے بارے میں تفکر کرتا ہے تو ایک سوال اس کے ذہن میں ضرور آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے تخلیق کیا۔ آپ اس سوال کی وضاحت فرما دیں۔

جواب: یہ بات اس لئے ذہن میں آتی ہے کہ ہم زندگی کو شعوری پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ مثلاً ہر آدمی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ میں پیدا ہوا اور میری پیدائش کا ذریعہ والدین بنے۔ علیٰ ہذالقیاس ہر مخلوق کے بارے میں اس کا شعوری مشاہدہ یہی ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان شعوری حواس یعنی شک، وسوسہ اور بے یقینی کی دنیا سے آزاد ہو کر یقین کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں اس کے سامنے یہ بات آ جاتی ہے کہ وہ اور پوری مخلوقات کو ایک ہستی نے بنایا ہے تو یہ بات اس کے ذہن سے حذف ہو جاتی ہے۔ یعنی اس لا یعنی بات کا خانہ ہی ختم ہو جاتا ہے اور جب اس بات سے کہ خدا کو کس نے بنایا ہے، ذہن آزاد ہو جاتا ہے تو اس کی طرز فکر یہ بن جاتی ہے کہ وہ ہر بات اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتا ہے اور اللہ ہی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (سورۃ آلِ عمران – آیت نمبر 7)

ترجمہ: ’’وہ لوگ جو راسخ فی العلم ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمارا ایمان ہے اور اس بات پر یقین ہے کہ ہر چیز ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘

جتنے پیغمبر علیہم الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ان سب کی طرز فکر یہی رہی کہ ہمارا بشمول کائنات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک رشتہ براہ راست قائم ہے اور یہ رشتہ ہی کائنات کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ پیغمبروں کی تعلیمات بھی یہی رہیں کہ بندے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ بندہ ذاتِ باری تعالیٰ کے رشتہ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے رشتہ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو کچھ جس طرح اور جب کرنا چاہتے ہیں وہی انسان کا عمل بنتا ہے۔ پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اسی طرز فکر میں ایک اور طرز فکر شامل کی ہے وہ یہ کہ انہوں نے اچھائی اور برائی کا تصور عطا کیا اور اچھائی اور برائی کا یہ تصور اس لئے ظاہر فرمایا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ یہی چاہتے ہیں۔ اگر اچھائی اور برائی کا تصور نہ ہوتا تو اختیارات اور نیکی اور بدی ناقابل تذکرہ ہو جاتے ہیں۔ اس بات سے کوئی آدمی انکار کی مجال نہیں رکھتا کہ شیطان کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ کہنا یہ ہے کہ شیطان یا شر کو ہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے جدا نہیں کر سکتے۔ لیکن شیطان زندگی کا ایک ایسا رخ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ناپسندیدہ ہے اور شیطنت کے برعکس اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ عمل ہے۔ لیکن جو لوگ تخلیق کے اس رخ سے واقف ہیں اور جن کا ایمان، یقین اور مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ یہ بات بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کو اپنی زندگی بنا لیتے ہیں تو ان کے اندر سے شر نکل جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر شیطان ان پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت رابعہ بصریؒ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے شادی نہیں کی۔ کیا آپ کو شیطان سے ڈر نہیں لگتا؟ حضرت صاحبہؒ نے فرمایا۔ ’’مجھے رحمان سے ہی فرصت نہیں۔‘‘ جب رحمان سے ہی فرصت نہیں تو شیطان کا خیال ہی نہیں آتا۔ اسی بات کوخواجہ غریب نوازؒ نے یوں فرمایا ہے:

’’یا ردم بہ دم و بار بارمی آید۔‘‘

حضور غریب نوازؒ فرماتے ہیں کہ

’’میری سانس کے ساتھ اللہ بسا ہوا ہے اور میری ہر سانس اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘

ظاہر ہے کہ جب ہر سانس کی وابستگی براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو تو وہاں شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ بات مشکل ہے لیکن واقعتاً ایسا ہوتا ہے کہ ایسے برگزیدہ اور پاک نفس بندے موجود ہوتے ہیں جن کے ذہن سے شر کا خانہ نکل جاتا ہے۔ اور جب شر کا خانہ نکل جاتا ہے تو خیر کا خانہ بھی حذف ہو جاتا ہے۔ شر اور خیر دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے روشنی اور تاریکی، گرم و سرد، تلخ و شیریں، راحت اور تکلیف، خوشی اور غم، غصہ اور محبت وغیرہ لازم و ملزوم ہیں۔ بظاہر یہ بات خلاف عقل اور خلاف شرع معلوم ہوتی ہے لیکن ایسا ہی ہے۔ یہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہمارے بندے ایسے بھی ہیں جو ہماری آنکھوں سے دیکھتے ہیں، ہماری زبان سے بولتے ہیں اور ہمارے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں۔

ان بندوں کی طرز فکر میں یہ بات یقین کا درجہ حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری حیثیت ایک معمول کی سی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تابع ہیں۔ مشیئت جو چاہتی ہے اور جیسا حکم دیتی ہے وہی ہوتا ہے۔ اگر مشیئت یہ چاہتی ہے کہ کسی زمین پر آباد بستی کو ختم کر دیا جائے تو ایسے بندے کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ قتل عام ہے۔ بس اس کے ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت یہ ہے کہ زمین کا تختہ الٹ دیا جائے۔ یہ تعریف ہے ان لوگوں کی جن کو صاحبِ خدمت کہا جاتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے اندر اچھائی اور برائی کا تصور ہے اور وہ اچھائی کو اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتے ہیں اور برائی سے اس لئے بچتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ خاتم النبیین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ دونوں طرز ہائے فکر ان کی امّت کو منتقل ہوئی ہیں۔

علوم کے بارے میں گفتگو کے دوران حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے علم کے دو لفظ ملے ہیں۔ ایک کو میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو چھپا لیا۔ لوگوں نے پوچھا کیا علم بھی چھپانے کی چیز ہے؟ آپؓ نے اس کو کیوں ظاہر نہیں کیا؟

حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں اگر وہ لفظ ظاہر کر دوں تو تم لوگ مجھے قتل کر دو۔

سوال: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں تمہاری رگ جان سے بھی قریب ہوں۔ براہِ کرم اس کی تشریح کریں کہ جب اللہ تعالیٰ ہم سے اتنے قریب ہیں تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟


جواب: سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین نارنگی کی شکل کی ہے اور مستقل گردش میں رہتی ہے اور ہم اس کے اوپر بستے ہیں لیکن روحانیت میں جب زمین کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے یا روحانی لوگ جس طرح زمین کو دیکھتے ہیں تو زمین انہیں پپیتے کی طرح نظر آتی ہے۔ فی الواقع ایسا پپیتا جس کے اطراف میں دیوار اور بیچ میں خلاء ہے اور ہم اور ہماری دنیا کے دوسرے موجودات یعنی درخت، حیوانات،چرند، پرند، درند، جنّات اور ملائکۂِ عنصری (وہ فرشتے جو اس دنیا کو سنبھالے ہوئے ہیں) اس خلاء میں بستے ہیں۔ فرشتے اور جنّات اپنے وجود کے بارے میں کیا علم رکھتے ہیں اور اس زمین کے اوپر کس طرح رہتے اور چلتے پھرتے ہیں، یہ ایک الگ علم ہے۔ البتہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ ایک سطح یا فرش ہے جس پر وہ چلتا پھرتا ہے۔ وہ اس سطح پر بنیادیں اور دیواریں بنا کر مکان بناتا ہے اور اس میں رہتا ہے جس گھر یا کمرہ میں رہتا ہے وہاں بھی اس کا یہ تصوّر ہوتا ہے کہ میں زمین پر ہوں اور زمین سے چھت تک خلاء ہے اور مکان کی اونچائی ہے۔ چاہے وہ ایک منزل ہو یا بیس منزل۔ آسمان تک پھر خلاء ہے۔ اسی طرح جب فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو بھی پہلے خلاء ذہن میں آتا ہے۔ پھر فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کا تصوّر قائم ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ میں زمین پر ہوں، زمین اور آسمان کے درمیان خلاء ہے، فرشتے آسمان کے اوپر ہیں۔

خلاء فی الحقیقت ایک راز ہے۔ اس راز سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے سمجھنے کی طرز میں یہ نقص واقع ہو گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا تذکرہ کرتے ہیں تو اللہ اور اپنے درمیان اربوں، کھربوں سال کا فاصلہ سمجھ کر بات کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اربوں کھربوں سال دور ایک مقام پر تشریف فرما ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’میں تمہاری رگ جاں سے زیادہ قریب ہوں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نہ کبھی بندے سے دور ہوئے اور نہ ہی اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

’’جہاں تم ایک ہو وہاں دوسرا اللہ ہے، اور جہاں تم دو ہو وہاں تیسرا اللہ ہے۔‘‘

قرآن کریم کی اس آیت اور حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی حدیث سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اللہ اور بندہ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے۔

ہم چاہے ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالیں یا سینکڑوں بار قرآن پاک کی تلاوت کریں اور تمام وہ اعمال کریں جن کو حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی سنت کہا جاتا ہے لیکن اللہ اور بندے کے درمیان دُوری کا تصوّر قائم رہے تو ان اعمال کے اندر کام کرنیوالے انوار سے ہم بے خبر رہتے ہیں۔ ذرا تفکر کریں تو یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ جن دلوں میں ایمان موجود ہے ان کی نظروں کے سامنے سے پردہ ہٹ جاتا ہے اور وہ اس بات سے واقف ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری رگ جان سے زیادہ قریب ہیں۔

شیطان ہمیشہ چھپ کر پردے کے پیچھے سے وار کرتا ہے مگر جس آدمی کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جاتا ہے وہ شیطان کو بھی دیکھ لیتا ہے اور ساتھ ہی واقف ہو جاتا ہے کہ یہ شیطان ہے۔ جس کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ اور بندہ کے درمیان دُوری پیدا کر دے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص جس کے بارے میں پورا یقین ہے کہ آپ کا دشمن ہے، آپ کے سامنے آ جائے اور کہے کہ میرے ساتھ چلو۔ میں تمہاری دعوت کروں گا۔ بہت اچھی اچھی چیزیں دوں گا، تفریح کراؤں گا۔ باغ کی سیر کراؤں گا وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ آپ کو یقین ہے کہ وہ آپ کا دشمن ہے اور فوراً سمجھ جائیں گے کہ اس بہانے وہ آپ کو کسی سخت پریشانی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ آپ اس کے فریب میں نہیں آئیں گے۔ یہی معاملہ شیطان کا بھی ہے۔ شیطان جب یہ دیکھ لیتا ہے کہ شخص اپنے چھپے ہوئے ازلی دشمن کو دیکھ سکتا ہے وہ خود ہی آپ کے سامنے نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ اگر اس نے ورغلانے کی کوشش بھی کی تو آپ اس کی بات نہیں مانیں گے۔

یہ نشانی ہے ان حضرات کی جن کے دلوں میں ایمان راسخ، مستحکم اور قائم ہے اور جو نظر کے قانون سے واقفیت رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی امانت کے حصول کے بعد ظالم اور جاہل کیسے

 

سوال: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ہم نے سماوات، زمین اور پہاڑوں کو اپنی امانت پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اگر ہم امانت کا یہ بار اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیں گے تو ہمارا وجود عدم ہو جائے گا۔ اور ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور اس امانت کو انسان نے قبول کر لیا۔

بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی امانت کے حصول کے بعد ظالم اور جاہل کیسے ہو سکتا ہے؟

جواب: تخلیقی فارمولوں کے تحت اللہ کی ہر مخلوق باشعور اور باحواس ہے اور اپنی خدادا صلاحیتوں سے قائم زندہ اور متحرک ہے۔ آسمان، زمین اور پہاڑوں کی گفتگو ہمارا ذہن اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان کی طرح آسمان، زمین اور زمین کے اندر تمام ذرّات اور زمین کے اوپر تمام تخلیق اور پہاڑ شعور رکھتے ہیں۔ جس طرح آدمی کے اندر عقل کام کرتی ہے اسی طرح مٹی کے ذرّات بھی اپنی موجودگی سے باخبر ہیں۔ کیونکہ کسی بات کا اقرار یا انکار بجائے خود فہم و ادراک اور شعور کی دلیل ہے۔ آیات مقدسہ میں تفکر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی زندگی جس میں بصیرت شامل نہ ہو وہ ظلم اور جہالت سے تعبیر کی جاتی ہے۔ پہاڑوں، آسمانوں اور زمین نے تفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس طرح وہ ظلم و جہالت کے دائرے سے باہر نکل گئے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ کی جو امانت حاصل ہے اس سے صرفِ نظر اگر انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انسان مٹی کے ذرّات سے کم عقل اور کوتاہ نظر ہے۔ زمین کی صلاحیت اور قوتوں پر نگاہ ڈالنے سے جن مظاہرات کے خاکے سامنے آتے ہیں وہ اپنی جگہ بجائے خود اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ زمین ایک ہے، دھوپ ایک ہے اور پانی بھی ایک ہے۔ لیکن جب زمین تخلیق کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو ایسے ایسے رنگ بکھیرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک ہی پانی زمین کی کوکھ میں جذب ہونے کے بعد اتنی تخلیقات میں جلوہ گر ہوتا ہے کہ ان کا کوئی شمار و قطار نہیں۔ لگتا ہے کہ زمین کے بطن میں بے شمار سانچے نصب ہیں، جس سانچے میں پانی ٹھہر جاتا ہے وہاں نیا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی کیلا بن جاتا ہے، کبھی سیب بن جاتا ہے، کہیں انگور بن جاتا ہے، کہیں پھول بن جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک چھوٹا سا بیج جب زمین کے پیٹ میں ڈال دیا جاتا ہے تو زمین اس بیج کو پرورش کر کے تناور درخت بنا دیتی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے مان کے پیٹ میں بچے کی نشوونما ہوتی ہے۔

انسان اور زمین کا تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین انسان سے زیادہ باصلاحیت ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انصاف اور بصیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم تلاش کریں کہ اشرف المخلوقات ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ عام زندگی میں انسان کی جو صلاحیت مظہر بنتی ہے اور جو اعمال و حرکات اس سے سرزد ہوتے ہیں صرف ان سے اشرف المخلوقات ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ پیدائش، شعور، بھوک، پیاس اور خواہشات چاہے جسمانی ہوں یا جنسی انسان دوسری مخلوقات کے برابر ہے۔ البتہ مظاہراتی زندگی سے ہٹ کر انسان اس درجہ پر فائز ہے جو آسمانوں، پہاڑوں اور زمین کو حاصل نہیں یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا امین ہے۔ کوئی انسان اگر اس امانت سے واقفیت رکھتا ہے۔ تو وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہے۔ بصورت دیگر آدم زاد اور دوسری مخلوقات میں کوئی خطِ امتیاز نہیں کھنچا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمت حاصل ہونے کے باوجود اس نعمت سے بے خبر ہونا سراسر ظلم اور جہل ہے۔

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس خصوصی انعام سے مستفیض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اپنی ذات کا عرفان حاصل ہو۔ تصوف میں اس علم کو خود آگاہی کا نام دیا جاتا ہے۔ خود آگاہی کے بعد انسان کے اوپر علوم کے جو دروازے کھلتے ہیں ان میں سے گزر کر بالآخر اللہ کے ساتھ بندے کا رشتہ مستحکم اور مضبوط ہو جاتا ہے اور جب کوئی بندہ مستحکم رشتے کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے تو وہ اس امانت سے وقوف حاصل کر لیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اس کو ودیعت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیش کردہ اس امانت سے واقف ہونا ہی انسان کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کرتا ہے اور اگر وہ اس امانت سے واقف نہیں ہے تو بے شک وہ ظالم اور جاہل ہے۔

Topics


روح کی پکار

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے