Topics

استغنائی طرزِ فکر

سوال: استغنائی طرزِ فکر کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟

جواب: انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک دماغ وہ ہے جو آدم کو جنّت میں حاصل تھا یعنی ایسا دماغ جو نافرمانی سے نا آشنا تھا۔ اور دوسرا دماغ جو نافرمانی کے بعد حاصل ہوا۔ جب تک آدم نے جنّت میں حکم عدولی نہیں کی تھی تو اسے فرمانبرداری والا دماغ حاصل تھا۔ جب انسان نے نافرمانی کی تو اسے دوسرا دماغ ملا۔ جو حکم عدولی اور نافرمانی کا دماغ قرار پایا اور یہ ورثہ نسلِ آدم میں منقل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج بھی نسلِ آدم کے پاس ورثہ میں وہی اسفلُ السافلین کا دماغ موجود ہے جس کا مظاہرہ آج بھی انسان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

جب تک آدم جنّت میں رہے ان کا ربط برابر اللہ تعالیٰ سے رہا۔ لیکن آدم نے جنّت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو وہ ربط ٹوٹ گیا۔ جہاں اس ربط کے ٹوٹنے کا اثر اور بہت سی باتوں پر پڑا اس سے یقین بھی متاثر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اس ربط کو آسانی سے دوبارہ قائم نہیں کر سکا اس لئے اس کے سوچنے کا انداز متاثر ہوا۔ اور انسان وہ طرزِ فکر حاصل کرنے میں ناکام رہا جو پُرسکون اور امن اور چین کی زندگی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔

آج کا انسان ماضی کے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مایوس ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو مستقبل میں لوگ اس سے بھی زیادہ مایوس ہونگے۔ یہ مایوسی انسان کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتی۔ مایوسی میں انسان پر بے یقینی چھا جاتی ہے اور وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اس کی طرزِ فکر میں تبدیلی آ جاتی ہے سوچ کا انداز وہ نہیں رہتا جو اللہ تعالیٰ پر بھروسے کے لئے ضروری ہے۔

انسان کی سوچ کا انداز یہ ہونا چاہئے کہ ہر کام، مسئلہ، معاملہ اللہ کی طرف سے ہے۔ انسان کا اس مسئلہ یا معاملہ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اور اس کی مرضی سے ہو رہا ہے یا جو چیزیں یہاں موجود ہیں ان سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ہم سے ہر بات کا تعلق اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ جب آہستہ آہستہ سوچ کا یہ انداز ہو جاتا ہے تو یہ ایک عادت بن جاتی ہے۔ اس طرح جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو انسان یہ سوچتا ہے کہ اس بات سے ہمارا تعلق یا واسطہ صرف اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو انسان اس مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں جدّ و جہد کرے اور نتیجہ اللہ کے حوالہ کر دے اپنی مرضی کے مطابق نتیجہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچے بھی نہیں۔ بلکہ یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ وہ کر دے جس میں ہماری بہتری ہو۔ جب انسان کی طرزِ فکر اس طرح کی ہو جاتی ہے۔ درحقیقت یہی استغنائی طرزِ فکر ہے۔

اس صورت حال میں کبھی کبھی تکلیف اور پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر یہ صورت زیادہ عرصے تک نہیں رہتی۔ صحیح طرزِ فکر کی وجہ سے کچھ عرصے بعد اچھے نتائج خود بخود برآمد ہونے لگتے ہیں۔

استغنائی طرزِ فکر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے۔ کوشش اور جدّ و جہد شرطِ اوّل ہے۔ یہ سوچ لینا کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ کر دے گا ہم خود کچھ نہ کریں۔ یہ سوچ غلط ہے۔ اس سے انسان پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ یہ جمود انسان کو بے کار اور ناکارہ بنا دیتا ہے۔ انسان ایک حرکت ہے۔ زندگی حرکت کا نام ہے۔ یعنی متحرّک رہنا زندگی کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ جمود ایک طرح سے انسانی صلاحیتوں کی موت ہے۔ اس لئے انسان متحرّک رہ کر ہی اللہ تعالیٰ سے اچھے نتائج حاصل کرنے کی توقع کر سکتا ہے۔

اگر انسان کے سوچنے کا انداز صحیح راستہ اختیار کرے اور انسان پختہ یقین کے ساتھ اس طرزِ فکر کو اپنا بنا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسان مایوسی سے بچ جائے اور مسائل کے بہتر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو۔ اصل مسئلہ یقین کا ہے۔ یقین میں اتنی طاقت ہوتی ہے جس کا خود انسان کو اندازہ نہیں ہوتا۔ انبیاء اور اوّلیاء اللہ کو یہی یقین کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ وہ ہر طرف سے بے فکر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود ان کی مدد اور کفالت فرماتا ہے۔ انسان یقین محکم کے ساتھ کوشش و جدّ و جہد کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندہ کی تمام تر ذمہ داری خود اٹھا لیتا ہے۔

إستغناء اللہ تعالیٰ کی صفَت صمدیت کا عکس ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اسے کسی چیز کی ضرورت و حاجت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر ایک بندہ اپنی تمام حاجتوں اور ضرورتوں کا کفیل اللہ تعالیٰ کو ٹھہرا کر بَریُ الذِّمّہ ہو جائے یعنی وہ یہ سوچنے لگے کہ میری تمام ضرورتوں کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور اللہ ہی ان کو پورا کرنے والا ہے۔ میرا کام صرف کوشش کرنا ہے۔ یہ سوچ ایک طرف تو بندے کو بے فکر کر دیتی ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ بھی بندہ کی ضرورتوں کی کفالت کی طرف توجہ دینے لگتا ہے۔اگر انسان صرف اپنی کوشش اور جدّ و جہد کی طرف توجہ دے اور نتائج سے بے فکر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف پوری توجہ دے گا اور بندے کے حق میں اچھے نتائج برآمد ہونگے۔

استغنائی طرزِ فکر حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ بندے کی طرزِ فکر اس طرزِ فکر سے ہم رشتہ ہو جائے جو اللہ کی طرزِ فکر ہے۔


 

Topics


روح کی پکار

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب

اُس روح
کے
نام
جو اللہ تعالیٰ
کا عرفان
حاصل کر لیتی
ہے