Topics
یہ وہ نسبت ہے جس کو تبع تابعین کے بعد سب سے پہلے خواجہ بہاء الحق والدّین نے نشان بے نشانی کا نام دیا ہے۔ نقشبندی سلسلہ کے افراد اس نسبت کو یادداشت کے نام سے جانتے ہیں۔ نشان بے نشانی سے مراد یہ ہے کہ عارف کا ذہن اس سمت میں سفر کرے جس سمت میں ازل سے پہلے کے نقوش موجود ہیں۔ جب ازل سے پہلے کے نقوش یعنی اللہ کا ذہن عارف کے قلب میں بار بار دور کرتا ہے تو سالک کو ہر سمت ہر طرف ہر لا موجود اور موجود شئے میں اللہ نظر آنے لگتا ہے۔ کوئی بھی کام ہو کوئی بھی عمل ہو سالک کی افتاد طبیعت یہ بن جاتی ہے کہ وہ غیر اختیاری اور اختیاری طور پر ہر چیز ہر بات ہر عمل میں اللہ کو تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کا ذہن از خود ہر کام میں اور ہر عمل میں اللہ کی وحدانیت کو تلاش کر لیتا ہے۔ جب یہ صورت حال اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ سالک ان میں اس طرح گھر جاتا ہے کہ اسے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ملتی تو عقل و شعور سے دست بردار ہو کر خود کو اس نسبت کی روشنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔
اس کی مثال یہ ہے:
ہر آدمی روزانہ کئی گلاس پانی پی لیتا ہے لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ پانی کیا چیز ہے؟ پانی کے اندر سیرابی کیا ہے، پانی کیسے نکلتا ہے، کنواں کا پانی ہے، چشمے کا پانی ہے یا دریا کا پانی ہے؟
عام بندے کا ذہن ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اسے جب پیاس لگتی ہے پانی پی لیتا ہے لیکن جس بندے کو نسبت جذب حاصل ہوتی ہے وہ پانی کے اندر اللہ کو تلاش کرتا ہے، وہ غور کرتا ہے کہ پانی اللہ نے تخلیق کیا ہے۔ جب وہ پانی کے بارے میں سوچتا ہے تو پانی سے متعلق تمام وسائل اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔ مثلاً سمندر ، بادل، بارش، پہاڑوں پر برف کا پگھلنا وغیرہ۔
بچہ پیدا ہوتا ہے تو لوگ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے۔ عارف جب پیدا ہونے والے بچے کو دیکھتا ہے تو اس کا ذہن از خود بغیر کسی ارادے و اختیار کے اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے کہ اللہ نے اس بچے کو نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں رزق فراہم کیا ہے۔ جس اللہ نے بچے کو نوہ ماہ تک رزق فراہم کیا ہے اور اس رزق سے بچے کی نشوونما ہوئی ہے وہ اللہ مجھے بھی رزق دیتا ہے اور جب تک میں دنیا میں ہوں مجھے رزق ملتا رہے گا۔ اس کے برعکس ساٹھ سال کا آدمی یہ نہیں سوچتا کہ میں کبھی دو دن کا بچہ تھا۔
نسبت جذب رکھنے والا بندہ بار بار اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ اللہ نے دو دن کے بچے کو ساٹھ سال تک وسائل فراہم کئے ہیں۔ رفتہ رفتہ اس نسبت کی شعاعوں کاہجوم اس قدر وسعت اخیتار کر لیتا ہے کہ عارف کا ذہن ہر طرف سے ہٹ کر یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ فی الواقع میری اپنی کوئی ہستی نہیں ہے۔ میری ہستی کے اوپر اللہ محیط ہے اور اس احاطے ہی میں، میں پیدا ہوا۔ اس احاطے ہی میں پروان چڑھا اور اس احاطے ہی میں، میں دنیا سے رخصت ہو کر دوسری دنیا میں انتقال کر جاؤں گا۔ یہ کیفیت عقل و شعور پر اس طرح طاری ہو جاتی ہے کہ آدمی کی انا اور ارادہ نسبت جذب کے احاطے میں معدوم ہو جاتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)