Topics

رویا کی صلاحیتیں

پچھلے لیکچرز میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کے اندر زندگی سے متعلق خواہ وہ زندگی زمان اور مکان میں پابند زندگی ہو یا ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد زندگی ہو، خیالات کے اوپر قائم ہے اور ہر خیال علم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے فلم کی مثال کافی حد تک وضاحت کرتی ہے۔

پرجیکٹر سے لہریں چلتی ہیں جو محسوس بھی ہوتی ہیں اور نظر بھی آتی ہیں لیکن ان لہروں کے بارے میں ہمارے ذہن میں کوئی معنی پیدا نہیں ہوتے۔ سینما میں بیٹھے ہوئے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پشت کی جانب سے روشنیوں، لہروں یا شعاعوں کی ایک دھار چلی آ رہی ہے اور یہ لہریں یا شعاعیں پردے پر جا کر ٹکرا رہی ہیں۔ جب یہ لہریں یا شعاعیں پردے پر جا کر ٹکراتی ہیں تو وہاں ہمیں مختلف صورتیں، مختلف شکلیں اور مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ ہم ان لہروں کو خیال سے تشبیہ دے سکتے ہیں اور لہروں کے ٹکرانے کے عمل کو علم سے منسوب کر سکتے ہیں۔ پردے یا اسکرین سے لہروں کے ٹکرانے کے بعد جو صورتیں اور جو رنگ جلوہ گر ہوتے ہیں انہیں معنی و مفہوم کہہ سکتے ہیں۔ اس مثال سے علم میں یہ اضافہ ہوتا ہے کہ خیال جب تک کسی اسکرین پر ٹکرا کر اپنا مظاہرہ نہ کرے اس وقت تک خیال علم و معنی کا جامہ نہیں پہنتا۔

خیال کو مظہر بننے کے لئے تین دائروں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان تین دائروں کے نام ثابتہ اعیان اور جویّہ ہے۔ ثابتہ کا اصطلاحی نام   رُوح اعظم، اعیان کا اصطلاحی نام   رُوح انسانی اور جویّہ کا اصطلاحی نام   رُوح حیوانی ہے۔ کوئی علم ان تین دائروں سے گزرے بغیر علم نہیں بنتا۔ جب سالک ان تین دائروں کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اندر   رُوح کی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور جس جس مناسبت سے یہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں اسی مناسبت سے وسعت بڑھتی جاتی ہے۔ اندر کی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اور جس جس مقام پر سفر کرتی ہے حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اس کو چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

پہلا حصہ کشف الجُو ہے۔ کشف الجُو ایسی صلاحیت ہے جب بیدار ہو جاتی ہے تو سالک کو اس بات کا شعور حاصل ہو جاتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی نسبت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبت حاصل ہونا نسبت وحدت ہے۔

نسبت کے معنی یہ ہیں کہ سالک کو ایک مخصوص طرزِفکر حاصل ہو جائے مثلاً بندہ یہ جان لے، سمجھ لے اور اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ میں مخلوق ہوں اور میرا خالق اللہ ہے۔ نسبتوں کی بہت سی قسمیں ہیں۔ علمائے باطن نے اٹھارہ نسبتوں کا تذکرہ کیا ہے۔

نسبت عشق نسبت سُکینہ نسبت مطمئنہ وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت ہمارے پیش نظر نسبت وحدت ہے۔

جب انسان کو اس بات کایقین حاصل ہو جاتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہوں اور اس ذات کے علاوہ دوسری کوئی ذات خالق نہیں ہے تو اس کے ذہن میں پوری کائنات کا ایک تصور ابھرتا ہے۔ باالفاظ دیگر نسبت وحدت کے تحت خالق کائنات اور تخلیق کا نظام اس کے ذہن پر منعکس ہونے لگتا ہے۔ جب کائنات کا اجتماعی نظام۔۔۔ذہن کے اوپر منعکس ہوتا ہے تو تفکر اس طرف رہنمائی کرتا ہے کہ کوئی بساط ہے جہاں پوری مخلوقات موجود ہیں اور تخلیق کائنات کا پورا پروگرام نقش ہے۔ اس کے بعد یہ بات علم میں آ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اللہ تعالیٰ کا کُنبہ ہے۔ یہی وہ یقین ہے جس کی بناء پر انسان چاند ستاروں اور اپنی زمین سے الگ ماحول اور زمین کے اوپر موجود دوسری مخلوقات سے متعارف ہوتا ہے۔

جب ہم آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو ہمیں بے شمار ستارے نظر آتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ستارے نظر آتے ہیں بلکہ ہمارے حواس ستاروں کی روشنی کو ان کی ٹھنڈک کو اور ان کی چمک کو اور اس ماحول کو جس میں ستارے جگمگ کر رہے ہیں محسوس کر لیتے ہیں۔ جب ہم ستاروں کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ہمارے لاشعور میں آ جاتی ہے کہ ستارے کہیں قائم ہیں اور کسی بساط پر مخصوص نظام کے تحت گردش کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی نگاہ اپنے ماحول کے باہر کی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے اور دیکھنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر کام کرنے والی حس ان چیزوں کے تاثرات کو محسوس کرتی ہے۔

مثلاً جب ہم چاند کو دیکھتے ہیں تو ہمارا دماغ چاند کی ٹھنڈک کو محسوس کرتا ہے، جب ہم سورج کو دیکھتے ہیں تو ہمارا دماغ سورج کی تپش کو محسوس کرتا ہے۔ چاند کی روشنی اور سورج کی روشنی کو دیکھنا آنکھ کا دیکھنا ہے اور چاند و سورج کے تاثرات کو قبول کرنا حس کا پہچاننا ہے۔

چاند سورج کیا ہے؟ اس بارے میں ہمیں صرف اتنا علم ہے کہ یہ چاند ہے۔ یہ سورج ہے ایسی کوئی یقینی بات ہمارے علم میں نہیں ہے کہ سورج کو روشنی کہاں سے ملتی ہے اور چاند کی روشنی کا منبع اور مخزن کیا ہے؟ اس بات کو آسان الفاظ میں اس طرح کہیں گے کہ انسان کی نگاہ تمام اجرام سماوی کو دیکھتی ہے اور زمین کے اوپر مختلف نوعوں اور مختلف مخلوقات کو بھی دیکھتی ہے۔ انسانی آنکھ جو نگاہ کا تصور دے رہی ہے کائنات کو دیکھتی ہے۔

کائنات کا دیکھنا دو طرزوں میں ہے۔ ایک کائنات کو صرف دیکھنا۔ دوسری طرز یہ ہے کہ کائنات کی ماہیت سے واقف ہونا۔ یہ معلوم کرنا کہ کائنات کن فارمولوں سے مرکب ہے اور کائنات کو دیکھنا یا مظاہر کو دیکھنا شعوری دائرہ کار میں آتا ہے۔

کائنات کے باطن کو دیکھنا یعنی کائنات کن فارمولوں پر قائم ہے لاشعور میں دیکھنا ہے۔ انسان کا لاشعور اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کائنات کے ہر ذرہ کی شکل و صورت، حرکات اور باطنی حسیات کیا ہیں؟ یہ علم شعور میں اس لئے نہیں آتا کہ انسانی شعور کو اپنے لاشعور کا مطالعہ کرنا نہیں آتا۔ اگر ہمارے اندر لاشعور کو مطالعہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو پھر کائنات کے ہر ذرہ کی شکل و صورت، حرکات اور باطنی حسیات کا مطالعہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ کائنات کی باطنی حسیات کو مطالعہ کرنے کی صلاحیتوں میں پہلی صلاحیت کا نام "کشف الجُو " ہے۔

مضمون نگار کی مثال دی جا چکی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مضمون نگار جب مضمون لکھنے بیٹھتا ہے تو مضمون کا مفہوم پہلے مضمون  نگار کے لاشعور میں موجود تھا وہاں سے منتقل ہو کر ذہن تک پہنچا اور جب شعور لاشعور میں موجود مضمون کی طرف متوجہ ہوا تو مضمون الفاظ کی شکل اختیار کر کے کاغذ پر منتقل ہو گیا۔

روحانی نقطۂ نگاہ سے مضمون کا موجود ہونا زمان اور مکان میں قید نہیں ہے۔ لاشعور میں مضمون پہلے سے موجود تھا خواہ وہ ہزاروں سال پہلے لکھا جا چکا ہو یا ہزاروں سال بعد لکھا جانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے " کُن" کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ جس جس ترتیب کے ساتھ وقوع میں آنا تھا وقوع میں آ گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات سے متعلق جو پروگرام تھا اس پروگرام سے متعلق جو فارمولے تھے اجزائے ترکیبی تھے ان اجزائے ترکیبی میں ماضی حال مستقبل جس طرح موجود تھے “ کُن” کہتے ہی وجود میں آ گئے۔" کُن" کہنے کے بعد کسی زمانے میں بھی لاکھوں سال پہلے یا لاکھوں سال بعد جو چیز بھی مظاہرے میں آئے گی وہ اس   کُن کا مظہر ہو گی۔ جو   کُن کے بعد وجود میں آ چکا ہے۔ یعنی کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہو سکتی جو پہلے سے اپنا وجود نہ رکھتی ہو۔

نسبت وحدت کے تحت ایک طرزِفکر کا بیان ہوا ہ جس کسی بندے کے یقین میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہم مخلوق ہیں اور ہمارا بنانے والا اللہ ہے، ایسا اللہ جو یکتا ہے اور اس کا کوئی ہم عصر نہیں ہے تو یقین راسخ ہو جاتا ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے جو کچھ موجود ہے یا جو کچھ آئندہ ہو گا وہ سب   کُن کے بعد کا مظاہرہ ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:

جف القلم بما ھوا کائن

قلم لکھ کر خشک ہو گیا۔

نسبت وحدت جب گہری ہو جاتی ہے تو دوسری بات ہمارے اوپر منکشف یہ ہوتی ہے کہ کسی بات کو صحیح سمجھنے کے لئے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے انسان کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ اگر غیر جانبدار (Neutral) ذہن نہیں ہو گا تو معنی پہنانے میں مصلحتیں شامل ہو جائیں گی۔

ہر شخص کو دو طرزِفکر حاصل ہیں یا ایک ہی طرزِفکر کے دو زاویئے حاصل ہیں۔ ایک زاویہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات سے الگ ہو کر سوچتا ہے اور دوسرا زاویہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کو سامنے رکھ کر غور و فکر کرتا ہے۔ جو بندہ اپنی ذات کو سامنے رکھ کر تجسس کرتا ہے یا کسی مسئلہ کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے اوپر حقائق منکشف نہیں ہوتے اور جو بندہ اپنی ذات سے ماوراء ہو کر یعنی غیر جانبدار ہو کر کسی مسئلہ کی حقیقت کو تلاش کرتا ہے تو اس کے اوپر حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔ نسبت وحدت کے تحت دنیا میں موجود ہر فرد کو یہ صلاحیت ودیعت کی گئی ہے تا کہ کوئی فرد کوئی گروہ کوئی طبقہ کوئی قوم اور کسی بھی مذہب وملت کا آدمی معاملات کی تفہیم اور صحیح فیصلوں سے استفادہ کر سکے۔


Topics


شرح لوح وقلم

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)