Topics
ٹیلی پیتھی میں ایسے
علوم سے بحث کی جاتی ہے جو حواس کے پس پردہ شعور سے چھپ کر کام کرتے ہیں۔ یہ علم ہمیں
یہ بتاتا ہے کہ ہمارے حواس کی گرفت محض مفروضہ ہے۔سائنس کے نقطۂ نظر اور مخفی علوم
کی روشنی میں ہر شے در اصل شعاعوں یا لہروں کے مجموعہ کا نام ہے۔ جب ہم کسی لکڑی یا
لوہے کی طرف کسی بھی طریقہ سے متوجہ ہوتے ہیں تو لکڑی یا لوہے کی شعاعیں ہمارے دماغ
کو باخبر کردیتی ہیں۔ باخبری کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ لکڑی یا لوہے کی سختی کو چھوکر
محسوس کیا جائے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ
شعاع یا لہر اپنے اندر سختی رکھتی ہے اور نہ وزن۔ پھر ہمیں یہ علم کیسے ہوجاتا ہے کہ
فلاں چیز سخت ہے یا فلاں چیز نرم ہے۔ ہم پانی کو دیکھتے ہیں یا چھوتے ہیں تو فوراً
ہمارے دماغ میں یہ بات آجاتی ہے کہ یہ پانی ہے حالانکہ ہمارے دماغ میں پانی کا کوئی
اثر نہیں ہوتا یعنی دماغ بھیگتا نہیں ہے۔ جب ہمارا دماغ بھیگا نہیں ہے تو ہم یہ کیسے
کہہ دیتے ہیں کہ یہ پانی ہے۔
حقائق یہ ہیں کہ ہر
شے الگ اور معین مقدار کے ساتھ وجود پذیر ہے۔ لہروں یا شعاعوں کی معین مقداریں ہی ہر
شے کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں اور ہر شے کی یہ لہریں یا شعاعیں ہمیں اپنے وجود کی
اطلاع فراہم کرتی ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ہر موجود شے دراصل لہروں یا شعاعوں کا دوسرا نام
ہے اور ہر شے کی لہر یا شعاع ایک دوسرے سے الگ یا مختلف ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے
کہ انسان، حیوانات اور جمادات میں کس کس قسم کی لہریں کام کرتی ہیں اور ان لہروں پر
کس طرح کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے تو ہم ان چیزوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔
لہر یا شعاع دراصل ایک
جاری و ساری حرکت ہے اور ہر شے کے اندر لہروں یا شعاعوں کی حرکت کا ایک فارمولا ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ باہر نہیں دیکھتے۔ کائنات کا ہر مظہر
ہمارے اندر موجود ہے ہم سمجھتے یہ ہیں کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے سامنے موجود
ہے حالانکہ خارج میں کسی شے کا وجود محض مفروضہ ہے۔ ہر شے ہمارے Inner میں قیام پذیر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم کسی چیز کا مشاہدہ اپنے اندر کرتے
ہیں اور یہ سب کا سب ہمارا علم ہے۔ اگر فی الواقع کسی شے کا علم حاصل نہ ہو تو ہم اس
چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔
آدمی دراصل نگاہ ہے۔
نگاہ یا بصارت جب کسی شے پر مرکوز ہوجاتی ہے تو اس شے کو اپنے اندر جذب کرکے دماغ کی
اسکرین پر لے آتی ہے اور دماغ اس چیز کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور اس میں معنی
پہناتا ہے۔ نظر کا قانون یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو اپنی ہدف بناتی ہے تو دماغ کی اسکرین
پر اس شے کا عکس پندرہ سیکنڈ تک قائم رہتا ہے اور پلک جھپکنے کے عمل سے یہ آہستہ آہستہ
مدھم ہو کر حافظہ میں چلا جاتا ہے اور دوسرا عکس دماغ کی اسکرین پر آجاتا ہے۔ اگر نگاہ
کو کسی ہدف پر پندرہ سیکنڈ سے زیادہ مرکوز کردیا جائے تو ایک ہی ہدف بار بار دماغ کی
اسکرین پر وارد ہوتا ہے اور حافظہ پر نقش ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً ہم کسی چیز کو پلک جھپکائے
بغیر مسلسل ایک گھنٹہ تک دیکھتے ہیں تو اس عمل سے نگاہ قائم ہونے کا وصف دماغ میں پیوست
ہوجاتا ہے اور دماغ میں یہ پیوستگی ذہنی انتشار کو ختم کردیتی ہے۔ ہوتے ہوتے اتنی مشق
ہوجاتی ہے کہ شے کی حرکت صاحب مشق کے اختیار اور تصرف میں آجاتی ہے۔ اب وہ شے کو جس
طرح چاہے حرکت دے سکتا ہے مطلب یہ ہے کہ نگاہ کی مرکزیت کسی آدمی کے اندر قوت ارادی
کو جنم دیتی ہے اور قوت ارادی سے انسان جس طرح چاہے کام لے سکتا ہے۔
ٹیلی پیتھی کا اصل اصول
بھی یہی ہے کہ انسان کسی ایک نقطہ پر نگاہ کو مرکوز کرنے پر قادر ہوجائے۔ نگاہ کی مرکزیت
حاصل کرنے میں کوئی نہ کوئی ارادہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جیسے جیسے نگاہ کی مرکزیت پر عبور
حاصل ہوتا ہے اسی مناسبت سے ارادہ مستحکم اور طاقت ور ہوجاتا ہے۔ ٹیلی پیتھی جاننے
والا کوئی شخص جب یہ ارادہ کرتا ہے کہ اپنے خیال کو دوسرے آدمی کے دماغ کی اسکرین پر
منعکس کردے تو اس شخص کے دماغ میں یہ ارادہ منتقل ہوجاتا ہے۔ وہ شخص اس ارادہ کو خیال
کی طرح محسوس کرتا ہے۔ اگر وہ شخص ذہنی طور پر یکسو ہے تو یہ خیال تصور اور احساسات
کے مراحل سے گزر کر مظہر بن جاتا ہے۔
اگر اسی ارادہ کو بار
بار منتقل کیا جائے تو دماغ اگر یکسو نہ بھی ہوتویکسو ہو کر اس خیال کو قبول کرلیتا
ہے اور ارتکاز توجہ سے خیال عملی جامہ پہن کر منظر عام پر آجاتا ہے۔انسان کے اندر یہ
خواہش فطری ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ خیالات کیوں آتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں اور
خیالات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مل کر کس طرح زندگی بنتے ہیں۔
کہکشانی نظاموں اور
ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے درپے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے
نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعہ ہم
تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے بے شمار تصویر خانے لے کر آتی
ہیں۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زبان میں توہم، تخیل، تصور اور تفکر کا نام دیتے
ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ تمام
مخلوق کے سوچنے کی طرزیں ایک نقطۂ مشترک رکھتی ہیں۔ وہی نقطۂ مشترک تصویر خانوں کو
جمع کر کے ان کا علم دیتا ہے۔
یہ علم نوع اور فرد
کے شعور پر منحصر ہے۔ شعور جو اسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق قائم کرتا ہے تصویر
خانے اسی اسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔اس موقع پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ تین نوعوں
کے طرز عمل میں زیادہ اشترک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ قرآن پاک میں انسان، فرشتہ اور جنات
کے نام سے کیا گیا ہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی نظاموں میں پائی جاتی
ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق کاربن گئی ہیں۔
ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہوکر کائنات میں منتشر ہوتی ہیں اور جب یہ لہریں
معین مسافت طے کرکے معین نقطہ پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر کی صورت اختیار کرلیتی
ہیں۔
کائنات زمانی اور مکانی
فاصلوں کا نام ہے۔ یہ فاصلے انا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا
چھوٹا بڑا ہونا ہی تغیر کہلاتا ہے۔یہ قانون بہت زیادہ فکر سے ذہن نشین کرنا چا ہئے
کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے رہتے ہیں ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی
اطلاعات سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ یہ اطلاعات لہروں کے ذریعہ
ہم تک پہنچتی ہیں۔ سائنس داں روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن
وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی اور مکانی فاصلوں کو منقطع کردے البتہ انا کی لہریں
لامتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں۔زمانی اور مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے
ہیں۔ باالفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان لہروں کے لئے زمانی اور مکانی فاصلے موجود
ہی نہیں ہیں۔ روشنی کی لہریں جن فاصلوں کو کم کرتی ہیں انا کی لہریں ان ہی فاصلوں کو
بجائے خود موجود نہیں جانتیں۔ اس بات کی تصدیق قرآن حکیم میں حضرت سلیمان کے سلسلہ
میں بیان کردہ واقعہ سے بھی ہوتی ہے ۔
جب حضرت سلیمان علیہ
السلام کومعلوم ہوگیا کہ ملکہ سبا حاضر خدمت ہورہی ہے۔ آپ نے اپنے درباریوں کو مخاطب
کرکے فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی اس
دربار میں موجود ہو۔ایک دیو پیکر جن نے عرض کیا، آپ کا دربار برخاست کرنے سے پہلے ہی
میں تخت لاسکتا ہوں۔ جن کا یہ دعویٰ سن کر ایک انسان جس کے پاس کتاب کا علم تھا یہ
عرض کیا، اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے میں یہ تخت آپ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں۔حضرت
سلیمان نے رخ پھیر کر دیکھا تو دربار میں ملکہ سبا کا تخت موجود تھا۔
ٹائم اسپیس کی حد بندیوں
میں جکڑے ہوئے شعور کے لئے یہ امر قابل غور ہے کہ سینکڑوں میل کی مسافت طے کرکے ملکہ
سبا کا تخت شاہی خیال کی رفتار سے، پلک جھپکتے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں
پہنچ گیا یعنی بندہ کے خیال کی لہریں تخت کے اندر کام کرنے والی لہروں میں جذب ہوکر
تخت کو منتقل کرنے کا ذریعہ بن گئیں۔
ہمارے ارد گرد بہت سی
آوازیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ آوازیں بھی لہروں کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کے قطر بہت چھوٹے
اور بہت بڑے ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چار سو قطرسے نیچے کی آوازیں
اور ایک ہزار چھ سو قطر سے زیادہ اونچی آوازیں بھی آدمی نہیں سن سکتا۔ چار سو قطر سے
نیچے کی آوازیں اور ایک ہزارچھ سو قطر سے اوپر کی آوازیں بھی بجز برقی رو کے سننا ممکن
نہیں۔
انسانوں کے درمیان ابتدائے
آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنی معین کرلئے جاتے ہیں
سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں۔ یہ طریقہ اس ہی تبادلۂ خیال کی نقل ہے جو انا کی لہروں
کے درمیان ہوتا ہے۔جیسے گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف سی جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا
ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔
یہ طریقہ بھی پہلے طریقہ
کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کردیتے ہیں۔ یہاں بھی
انا کی لہریں خیالات کی منتقلی کا کام کرتی ہیں۔ درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو
صرف آمنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہوتی
ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں،
پتھروں، مٹی کے ذروں میں من و عن اسی طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
روحانی طاقت رکھنے والے
انسانوں کے کتنے ہی واقعات اس کے شاہد ہیں۔ ساری کائنات میں ایک ہی لاشعور کار فرما
ہے۔ اس کے ذریعہ غیب و شہود کی ہر لہر دوسری لہر کے معنی سمجھتی ہے چاہے یہ دونوں لہریں
کائنات کے دو کناروں پر واقع ہوں۔ غیب و شہود کی فراست اور معنویت کائنات کی رگ جاں
میں جو خودہماری اپنی رگ جاں بھی ہے تفکر اور توجہ کرکے ہم اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں
کے آثار و احوال کا مشاہدہ کرسکتے ہیں اور انسانوں، حیوانوں، جنات اور فرشتوں کی حرکات
و سکنات، نباتات اور جمادات کی اندرونی تحریکات بھی معلوم کرسکتے ہیں۔
مسلسل مشق اور ارتکاز
توجہ سے ذہن کائناتی لاشعور میں تحلیل ہوجاتا ہے اور ہمارے سراپا کامعین پرت، انا کی
گرفت سے آزاد ہوکر ضرورت کے مطابق ہر چیز دیکھتا، سمجھتا اور شعور میں محفوظ کردیتا
ہے۔
یہی روحانیت ہے اور
یہی ٹیلی پیتھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ روحانیت اپنے اندر بہت وسعت رکھتی ہے جب کہ
ٹیلی پیتھی صرف خیالات کے تبادلے کا نام ہے۔انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے جو الفاظ
کی لہروں کے ذریعہ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
لیکن جب ہم یہ دیکھتے
ہیں کہ دوسرے حیوا ن جن کو حیوان غیر ناطق کہا جاتا ہے اپنے خیالات الفاظ کا سہارا
لئے بغیر دوسروں تک منتقل کرتے ہیں اور دوسرے حیوان ان خیالات کو قبول کرتے اور سمجھتے
ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ الفاظ کا سہارا لئے بغیر بھی خیالات اپنے پورے معنی
اور مفہوم کے ساتھ ردوبدل ہوتے رہتے ہیں۔
قرآن میں اﷲ تعالیٰ
نے چیونٹی اور حضرت سلیمان کی گفتگو کا تذکرہ کیا ہے وہ بہت زیادہ غور طلب ہے۔ چیونٹی
نے حضرت سلیمان سے باتیں کیں اور حضرت سلیمان نے اس کی گفتگو کو سمجھا۔ ظاہر ہے کہ
چیونٹی نے الفاظ میں گفتگو نہیں کی بلکہ اس کے خیالات کی لہریں حضرت سلیمان کے ذہن
نے قبول کیں اور ان کو سمجھا۔ اس واقعہ میں یہ حکمت ہے کہ خیالات، احساسات، جذبات الفاظ
کے بغیر بھی سنے اور سمجھے جاسکتے ہیں۔
ٹیلی پیتھی الفاظ کے
تانے بانے سے مبرا ہوکر خیالات منتقل کرنے کا ایک علم ہے۔ ہم اگر کسی ایک فرد کو اپنے
خیالات کا ہدف بنالیں تو وہ ایک فرد ہمارے خیالات کی لہروں سے متاثر ہوکر وہی کچھ کرنے
پر مجبور ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اور اگر ہم کائنات کے نقطۂ مشترک سے باخبری حاصل کرلیں
اور اپنے خیالات اس نقطۂ مشترک میں منتقل کردیں تو کائنات ہمارا خیال قبول کرنے پر
مجبور ہے۔
اور ہم نے تمہارے لئے
مسخر کردیا ہے جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے۔ القرآن
بات صرف اتنی ہے کہ
ہم اس قانون سے واقف ہوجائیں کہ کائنات کی تمام مخلوق کے افراد خیالات کی لہروں کے
ذریعہ ایک دوسرے سے مسلسل اور پیہم ربط رکھتے ہیں اور ہر فرد کے خیالات لہروں کے ذریعہ
آپس میں تبادلہ ہوتے رہتے ہیں۔ ہم کیونکہ تبادلۂ خیال کے اس قانون سے واقفیت نہیں رکھتے
اس لئے خیال ہماری گرفت سے باہر رہتا ہے اور ہم زندگی کا زیادہ حصہ خیالات کی شکست
و ریخت میں گزار دیتے ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاء
فرماتے ہیں کہ لوح محفوظ سے پھیلنے والا نور انسان کو اطلاعات فراہم کرتا ہے تو وہ
اپنی غرض اور مطلب بر آری کے نقطۂ نظر سے کام لے کر ان اطلاعات ۹۹۹ فی ہزار تو رد کردیتا ہے۔ ایک فی ہزار کو مسخ کرکے، توڑ مروڑ کے حافظہ میں
رکھ لیتا ہے۔ یہی مسخ شدہ اور بگڑے ہوئے خد و خال اس کے تجربات، مشاہدات، عادات اور
حرکات کا سانچہ بن جاتے ہیں۔
یہ بات عام طور سے کہی
جاتی ہے کہ فلاں آدمی کی قوت ارادی بہت زیادہ ہے۔ ایسا آدمی عام آدمیوں کی نسبت معاملات
زندگی کو زیادہ بہتر طریقہ سے انجام دیتا ہے۔ قوت ارادی سے مراد یہ ہے کہ اس آدمی کے
اندر خیالات کی شکست و ریخت بہت کم ہوتی ہے اور ذہن ایک نقطہ پر مرکوز رہتا ہے۔ یہی
وجہ ہے وہ اپنے مد مقابل کسی شخص کو زیادہ آسانی کے ساتھ متاثر کرسکتا ہے۔ جن لوگوں
میں قوت ارادی کمزور ہوتی ہے وہ اپنی زندگی کا کوئی خاص نصب العین متعین کرنے میں ناکام
رہتے ہیں۔
قوت ارادی کو بروئے
کار لانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات سے وقوف حاصل کرلیں کہ ہماری پوری زندگی
خیال کے گرد گھومتی ہے۔ کائنات اور ہمارے درمیان جو مخفی رشتہ ہے وہ بھی خیال کے اوپر
قائم ہے۔ روحانیت میں خیال اس اطلاع کا نام ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ میں زندگی سے قریب
کرتی ہے۔
پیدائش سے بڑھاپے تک
زندگی کے سارے اعمال محض اطلاع کے دوش پر رواں دواں ہیں۔ ان اطلاعات کو صحیح حالت میں
وصول کرنے کا طریقہ صرف ایک ہے۔ انسان ہر طرز میں، ہر معاملہ میں کامل استغناء رکھتا
ہو۔ مسخ کرنے والی اس کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔جہاں مصلحت نہیں ہے، وہاں استغناء ہے،
غیر جانبداری ہے اور اﷲ کا شعار ہے۔
اب جب یہ بات واضح ہوگئی
کہ ہماری پوری زندگی خیال کے گرد گھومتی ہے اور یہ کہ کائنات اور ہمارے درمیان جو مخفی
رشتہ ہے وہ بھی خیال پر قائم ہے تو اب ضرورت اس بات کی رہ جاتی ہے کہ دماغ میں خیالات
کی اس شکست و ریخت کو کم سے کم کیا جائے اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دماغ میں شک
اور وسوسوں کو کم سے کم جگہ دی جائے۔ یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قوت ارادی میں کمزوری
کی سب سے بڑی وجہ دماغ میں شک کی موجودگی ہے۔ ذہن کو شک سے نجات دلانے کے لئے یہ معلوم
ہونا بہت ضروری ہے کہ آخر شک ذہن انسانی میں کیوں کر جنم لیتا ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا
چاہیے کہ وسوسوں اور شک کی بنا وہم اور یقین پر ہے اور اسی کو مذہب کی زبان میں شک
اور ایمان کہا گیا ہے۔تمام مخفی علوم میں یقین کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیوں کہ ہر
ارادے اور ہر عمل کے ساتھ یقین کی روشنیاں بھی کام کرتی ہیں۔ اگر یقین کی ان روشنیوں
کو الگ کردیا جائے تو ہر عمل اور ہر حرکت لا یعنی ہوکر رہ جائے گی۔ ہم کہنا یہ چاہتے
ہیں کہ جب تک ارادہ میں یقین کی روشنیاں شامل نہ ہوں اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ماہرین
روحانیت یقین کی تعریف اس طرح کرتے ہیں، یقین وہ عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو۔
ارادہ یایقین کی کمزوری
دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ جب تک خیالات میں تذبذب رہے گایقین میں کبھی بھی پختگی
نہیں آئے گی۔ مظاہر اپنے وجود کے لئے یقین کے پابند ہیں کیونکہ کوئی خیال یقین کی روشنیاں
حاصل کرکے ہی مظہر بنتا ہے۔یقین جب کسی آدمی کے اندر جاگزیں ہوجاتا ہے تو اس کے ارادہ
کے تحت عمل واقع ہوتا ہے چاہے یہ ارادہ غلط باتوں کے لئے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔قانون
روحانیت کی رو سے فی الواقع براہ راست دیکھنا ہی صحیح دیکھنا ہے اور بالواسطہ دیکھنا
محض مفروضہ ہے۔
ٹیلی پیتھی کا مفہوم
یہ ہے کہ انسان جدوجہد اور کوشش کرکے براہ راست دیکھنے کی طرز سے قریب ہوجائے۔ جن حدود
میں وہ براۂ راست طرز نظر سے وقوف حاصل کرلیتا ہے۔ اسی مناسبت سے وہ لہریں جو خیال
بنتی ہیں اس کے سامنے آجاتی ہیں۔ ٹیلی پیتھی چونکہ خیالات یا اطلاع کو جاننے کاعلم
ہے اس لئے یہ علم سیکھ کر کوئی آدمی خود بھی الجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے
اور اﷲ کی مخلوق کی خدمت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپریل
۱۹۷۹ء سے عظیمی صاحب کی زیر نگرانی بذریعہ خط و
کتابت ٹیلی پیتھی سیکھئے کا آغاز کیا گیا۔
سلسلہ عظیمیہ کے پلیٹ
فارم سے روحانی علوم کی تعلیمات کے لئے مختلف پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں
مختصر میعاد کے تعلیمی وتربیتی پروگرام بھی شامل ہیں اور طویل المیعاد پروگرام بھی۔
روحانی علوم حاصل کرنے کے خواہش مندوں اور علمی ذہنوں کی تیاری کے لئے اپریل ۱۹۹۳ء میں قلندر شعور اکیڈمی، سرجانی ٹاؤن کی بنیاد
رکھی گئی۔ جس میں سلسلہ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابااولیاء اور عظیمی صاحب کی کتابوں
پر مشتمل ایک نصاب ترتیب دیا گیا۔
اکیڈمی میں اس نصاب
کی تدریس کے لئے چار مختلف درجات تشکیل دیئے گئے ہیں جس میں ہر درجہ یا لیول تقریباً
۴۵تدریسی گھنٹوں پر مشتمل ہے ۔ چونکہ تدریسی
کلاس ہفتہ میں ایک دن منعقد ہوتی ہے لہٰذا ایک لیول ایک سال میں مکمل ہو تا ہے ۔ لاہور
، گوجرانوالہ، حیدر آباد، راولپنڈی، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا
میں بھی قلندر شعور اکیڈمی۔ کراچی کی طرز پر باقاعدہ کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
اکثر ماہرین کا کہنا
ہے کہ انسانی شخصیت کا تقریباً۷۵ فیصد حصہ پہلے چھ سال میں مکمل ہوجاتا ہے۔
ہمارے بولنے کا انداز، زبان پردسترس، لکھنے کا طریقہ، یہاں تک کہ رنگوں کو سمجھنے اور
پسند، یہ سب پہلے چھ سال میں ہوتا ہے۔ تمام زندگی ہم ان نظریات کے تحت گزارتے ہیں جو
پہلے چھ سال میں تخلیق ہوتے ہیں۔
سائنسی بنیادوں پر کام
کرتے ہوئے اب یہ ممکن ہے کہ اگر صحیح طرز پر تعلیم دی جائے تو کسی بھی بچے کو تین گنا
ذہین بنایا جاسکتا ہے۔ان تمام حقائق کے باوجود معاشرے میں تعلیم کو وہ مقام حاصل نہیں
جو ہماری پائیدار ترقی اور روشن مستقبل کی ضمانت دے سکے۔
دیگر اقوام کی نسبت
پاکستان اس میدان میں تقریبا سب سے پیچھے ہے۔ ستمبر ۲۰۰۲ء کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان
شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے دیگر ممالک میں ۱۳۰ ویں نمبر پر ہے۔ ۵۵، اسلامی ممالک میں
یہ تعلیمی لحاظ سے ۴۴ ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ دنیا کے گنجان آباد ممالک
E-9 میں یہ آخری یعنی ۹ویں نمبر پر ہے۔
دسمبر ۱۹۹۳ء میں سرجانی ٹاؤن۔ کراچی میں کم آمدنی والے
طبقے کے بچوں کو جدید تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے لئے خواجہ شمس الدین عظیمی ایجوکیشنل
سوسائٹی کے زیر انتظام عظیمی پبلک اسکول کا قیام عمل میں آیا۔ عظیمی پبلک اسکول میں
طرز تعلیم کو ناصرف سائنسی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے بلکہ اسے ماحول اور معاشرے
کے مطابق بھی ڈھالا گیا ہے۔
مرکزی مراقبہ ہال کراچی
میں عرس حضور قلندر بابا اولیاء کی تقریبات میں ایک اہم تقریب کا اضافہ ۲۸، جنوری ۱۹۹۴ء میں کتاب قلندر شعور اور کتاب پیراسائیکو لوجی پر دوروزہ ورکشاپ کے انعقاد
سے ہوا۔ اس ورکشاپ کے منعقد کئے جانے کا بنیادی مقصد بالخصوص اراکین سلسلہ عظیمیہ اور
بالعموم دیگر شرکاء تک عظیمی صاحب کی تصانیف کے تفصیلی تعارف کے ساتھ ساتھ ان کتب کی
تفہیم حاصل کرنے کے موقع کی فراہمی تھا۔
ورکشاپ کی کامیابی و
پذیرائی سے عظیمی صاحب کی تصانیف و تالیفات کی تفہیم اور سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات پر
غور و فکر کے لئے سالانہ بنیاد پر سالانہ روحانی ورکشاپ کے نام سے اس تقریب کا باقاعدہ
آغاز کیا گیا۔ عظیمی صاحب کی زیر صدارت اب تک منعقد کی جانے والی ورکشاپس کی ترتیب
کچھ اس طرح سے ہے۔
۱۔ کتاب قلندر شعور اور
کتاب پیراسائیکولوجی(دوروزہ) ۱۹۹۴ء
۲۔ کتاب روشنی اور رنگ
۱۹۹۵ء
۳۔ کتاب نظریہ رنگ و
نور ۱۹۹۶ء
۴۔ خدمت خلق اور سلسلہ
عظیمیہ کی تعلیمات ۱۹۹۷ء
۵۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔
جلد اول ۱۹۹۹ء
۶۔ سلسلہ عظیمیہ کے اغراض
و مقاصد اور قواعد و ضوابط ۲۰۰۰ء
۷۔ ابدال حق حضور قلندر
بابا اولیاء ۲۰۰۱ء
۸۔ کتاب محمد رسول اﷲ
۔ جلد دوئم ۲۰۰۲ء
۹۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔
جلد سوئم ۲۰۰۳ء
۱۰۔ کتاب احسان و تصوف
۲۰۰۴ء
۱۱۔ قرآن اور لیزر بیم
۲۰۰۵ء
۱۲۔ ابلیس سے نجات حاصل
کرنے کی تدابیر ۲۰۰۶ء
۱۳۔ کتاب نظریہ رنگ و
نور ۲۰۰۷ء
۱۴۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات
۲۰۰۸ء
۱۵۔ ایمان اور تصوف ۲۰۰۹ء
ملک اور بیرون ملک قائم
مراقبہ ہالز کے نگراں خواتین و حضرات عظیمی صاحب کے منتخب کردہ خصوصی نمائندے ہیں جو
آپ کی ہدایات کو مشعل راہ بناکر بے سکون نوع انسانی کو سکون فراہم کرنے کے لئے شب و
روز مصروف عمل ہیں۔ چونکہ حقیقی اصلاح کی دعوت ہمہ گیر اور معاشرے کے تمام پہلوؤں پر
حاوی ہوتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ دعوت دینے والے کی افتاد طبیعت ، اس کی طرز فکر ، اس
کے اعمال و حرکات ، اس کی زندگی کے شب و روز میں اﷲ کی صفات کا رنگ شامل ہو۔ انہی اوصاف
کو نگراں خواتین و حضرات کے معمولات میں شامل کرنے اور انہیں اپنی خداداد صلاحیتوں
کا ادراک کرانے کے لئے ۱۹۹۴ء میں تربیتی ورکشاپس
برائے نگراں مراقبہ ہالز کا انعقاد شروع کیا گیا۔
کسی پیغام کوموثر انداز
میں پیش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس مقصد کے تحت کام کرنے والے اراکین جدید علوم اور
تحقیق سے واقفیت رکھتے ہوں او راپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے درکا ر بنیادی معلومات
اور مہارت سے بہرہ ور ہوں ۔ خدمت خلق کا پہلا مرحلہ شخصی تعمیر ہے۔لہٰذا اس مقصد کے
حصول کے لئے ۱۹۹۴ء میں تربیتی ورکشاپس
برائے لائبریرین عظیمیہ روحانی لائبریریز کا آغاز کیا گیا۔
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی صاحب نے روحانیت کے بنیادی تصور اور مزاج کو نہ صرف پروان چڑھا یا ہے بلکہ ان
میں اپنے جذبے اور ذاتی تجربات کا اضافہ بھی کیا ہے ۔ آپ کے طریق تربیت میں ایک خاص
بات یہ نظر آتی ہے کہ آپ لوگوں میں تجسس بیدار کرکے علم سیکھنے کی طلب کا احساس بیدار
کرتے ہیں اور اس مقصد کے لئے سب سے پہلے مخاطب کے ذہن میں موجود نظریات کی عمارت کوتوڑ
کر اس بات کا ادراک کراتے ہیں کہ اس معاملے پر نئے سرے سے غورو فکر کیا جائے۔اس طرح
وہ بندہ کو حقیقی زاوےۂ نگاہ سے آشنا کرانے کے ساتھ ساتھ اسے حاصل کرنے کے لئے درکا
ر تفکر کے طریقۂ کار سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر کسی چیز کی
تھیوری معلوم ہوجائے تو اس کا پریکٹیکل آسان ہوجاتا ہے ۔ اسی مقصد کے پیش نظر ۷، نومبر ۱۹۹۶ ء میں مرکزی مراقبہ ہال میں یومیہ اعزازی ڈیوٹی
دینے والے اراکین سلسلہ عظیمیہ کے لئے روزانہ بعد از نماز مغرب سوال و جواب کی نشست
کا آغا ز کیا گیا ۔
روحانی واردات و کیفیات
میں جو کچھ دیکھا جاتا ہے وہ دراصل روحانی طالب علم کی استعداد کا اظہار ہوتا ہے ۔
طالب علم کو خود اپنے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے بلکہ استاد سے رجوع
کرنا ہر حال میں ضروری ہے ۔ ۱۷، اکتوبر ۱۹۹۸ء سے مرکز ی مراقبہ ہال میں ہر اتوار کو سلسلہ
عظیمیہ کے تمام دوستوں کے لئے سہ پہر ۴بجے سے مغرب تک عظیمی
صاحب سے ملاقات کا آغاز کیا گیا تاکہ متوسلین و سالکین اپنی واردات و کیفیات، خواب
کی تعبیر اور دیگر روحانی معلوما ت حاصل کرسکیں۔
سلسلہ عظیمیہ روحانی
طرز فکر کا علم بردار ہے ۔فکری نشست کا آغازجولائی ۱۹۹۹ء میں کیا گیا۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
صاحب نے اپنی تربیت کے ۱۶برس کی تعلیمات کا خلاصہ
فکری نشست کے نصاب کی صورت میں اس طرح مرتب فرمایا ہے کہ روحانی طالبات اور طلباء،
انبیاء کرام کی طرز فکر سے کماحقہ واقف ہوجائیں ۔ ان کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار
ہوں اور انہیں سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات ،تبلیغ وترویج کے اصول، مراقبہ ٹیکنالوجی، روحانی
علاج ، کلرتھراپی ، ماورائی علاج اور ہیلنگ میں مہارت حاصل ہوجائے۔ خدمت خلق کے عملی
شعبوں میں تربیت کے لئے فکری نشست کا نصاب تھیوری اور پریکٹیکل دونوں شعبوں کا احاطہ
کرتا ہے ۔ نصاب سمسٹرسسٹم کی بنیاد پر تین سال کے عرصہ پر محیط ہے ۔ ہر سمسٹر پانچ
ماہ کے عملی تربیتی نصاب اور چھٹے مہینے میں اس نصاب سے متعلق امتحان پر مشتمل ہے
۔ ہر ماہ ایک روزہ نشست کا اہتمام ہوتا ہے جب کہ ہر مہینہ مراقبہ اور دیگر ہدایات پرمشتمل
مشقیں Home Assignments
کے طور پر دی جاتی ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔