Topics
حضرت خوا جہ شمس الدین
عظیمی فرماتے ہیں کہ حضور قلندر بابا اولیاء نے مجھ سے بیعت کے حوالے سے یہ شرائط منظور
کرائیں
۱۔ آپ کسی کے اندر نہیں
جھانکیں گے
۲۔ اسلحہ نہیں رکھیں
گے
۳۔ جاگیر دار نہیں بنیں
گے
۴۔ سود نہیں لیں گے
۵۔ کسی کو نقصان نہیں
پہنچائیں گے
اس کے بعدفرمایا،آپ
کو پوری تعلیم حاصل کرنا ہے ،قانون یاد کرنا ہے اور فرشتوں کی زبان سیکھنا ہے، چھوٹی
چھوٹی باتیں بھی یاد رکھنی ہیں اور ہر بات میں خواہ اس کی آپ کے نزدیک کچھ بھی اہمیت
نہ ہوتفکر کرناہے۔
ان شرائط کو قبول کرنے
کے بعد میری تربیت کا آغاز ہوا۔ تربیت کا محوریہ تھا کہ انسان جو بھی کرے، جو بھی کہے
اللہ کے لئے ہو ۔ جو عمل کرے اس میں اللہ کی مرضی شامل ہو، اس میں اپنی ذات کا عمل
دخل نہ ہو۔ صدیوں پرانے شعور نے اس بات کو برداشت نہیں کیا۔ صدیوں پرانی روایا ت نے
بغاوت کردی ۔شعور اور پیرو مرشد میں ذہنی جنگ شروع ہوگئی۔ شعور کی مزاحمت بہت بڑھ گئی
تو اس سے اتنی زیادہ تکلیف ہوئی کہ احساس تکلیف نہ رہا۔
پیر و مرشدنے ایک دن
اپنے سامنے بٹھاکرفرمایا،زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں اور وہ دو طریقے یہ ہیں کہ انسان
کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ دوسروں سے اپنی بات منوا سکے۔ انسان کے اندر اتنی صلاحیت
ہو کہ وہ دوسروں کو اپنا ہم ذہن بناسکے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ صدیوں پرانی
روایات کو سینے سے لگاتے ہوئے ان روایات کا تحفظ کرسکے۔ ان روایات کے جاری و ساری رکھنے
کے لئے ساری دنیا سے مقابلہ کرسکے۔ اس طریقے کو دنیا والے خود مختار زندگی کہتے ہیں
یعنی جو آپ چاہتے ہیں وہ دوسروں سے منوالیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی نفی کردیں
یعنی خود مختار زندگی کوداغ مفارقت دے دیں ۔
یادر کھئے ! انسان کی
ساخت اور تخلیق کاقانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے وہ
فطرت خود مختار نہیں ہے ۔ انسان کی ساخت ہی اس بنیاد پرکی گئی ہے کہ یہ پابند ہوکر
زندگی گزارے لہٰذا ضروری ہے کہ خود مختار زندگی سے آپ کنارہ کش ہوجائیں اور اپنے آپ
کو اللہ کے سپرد کردیں ۔ آپ کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ آپ کسی کو اپنا بنالیں ۔
آپ کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ آپ دوسرے کے بن جائیں۔ بات اتنی گہری تھی
اور ہے کہ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔ بہت غور و فکر کرنے کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ
سے دعا کی ، اللہ تعالی! مجھے خود مختار زندگی سے نجات عطا فرمادے اور پابند زندگی
عطا کردے ۔میرے ذہن میں آیا کہ جب استاد نے ہی سب کچھ بنانا ہے تو چھوٹے بچہ کی طرح
خود کو استاد کے سپرد کردینا چاہئے اور تہیہ کرلیا کہ مجھے اب خود مختار زندگی نہیں
گزارنی ۔ جو کچھ کہا جائے گا اس پر عمل کروں گا۔ بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، تعمیل
ہوگی ۔
جب میں نے دروبست اپنے
آپ کو شیخ کے سپر د کردیا تو تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران میرے سامنے ایسی ایسی
باتیں آئیں کہ جن باتو ں کو شعور نے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ ناصرف یہ کہ انکار
کردیا بلکہ شعور کے اوپر ایسی ضرب پڑی کہ انسان اس تکلیف کا ادراک تو کرسکتا ہے لیکن
الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ۔ کئی مرتبہ یہ بھی ہوا کہ شیخ نے ایک بات آسمان کی فرمائی
اور شعور نے اسے زمینی حواس میں سمجھنا چاہا اور شعور ی مزاحمت کے نتیجہ میں میرے کندھوں
پر بے پناہ وزن پڑجاتا تھا اور بسا او قا ت اس وزن کا احساس ٹنوں کے حسا ب سے ہوتا
تھا، جیسے کئی من وزنی سلیں کندھوں پر رکھی ہوں۔ اس بوجھ سے میں کھڑے کھڑے بیٹھ جاتا
اور باوجود ہمت اور کوشش کے کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔میں اس بیزاری، اذیت اور تکلیف کا
تذکرہ کسی سے اس لئے نہیں کرتا تھا کہ کوئی ہمراز ہی نہیں تھا اور شیخ سے اس کا تذکرہ
اس وجہ سے ممکن نہیں تھا کہ ان کی منشاء سے تو سب کچھ ہورہا تھا۔
اذیت ، تکلیف اور آلام
کا یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہا اور شعور تکلیف کے احساس کا خوگر ہوتا گیا۔ کبھی
کھانے کی تکلیف ، کبھی پینے کی پریشانی، کبھی نیند نہ آنے کا مسئلہ ، کبھی منفی خیالات
کا دباؤ، کبھی شیطانی وسوسوں کا زور، کبھی رحمن کا غلبہ، کبھی شیطان کا غلبہ ۔انہی
کیفیات سے مغلوب ہوکر میں نے ایک دفعہ حضور قلندر بابا اولیاء سے عرض کیا ، حضور !
آپ کے ہوتے ہوئے بھی میرے لئے اتنی مشکلات ہیں اور معاشی حالات بھی کسی طورٹھیک نہیں
ہورہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا،حضرت اویس قرنی نے اسی طرح کا تربیتی پروگرام
بنایا ہے ۔
۱۶سال تک یہ سلسلہ قائم
رہا۔ ۱۶ سال شعور و لاشعور کی محاذ آرائی کے بعد اللہ
تعالیٰ کے فضل وکرم اور سیدنا حضور علیہ الصلواۃ والسلام کی خصوصی توجہ اور نسبت سے
شعوری مزاحمت سے نجات ملی۔ ذہن کی یہ افتاد بنی کہ جو کچھ کہا جاتا تھا بس وہی سب کچھ
تھا اور جو نہیں کہا جاتا تھا وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ طبیعت میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ
یہاں کچھ نہیں ہے ۔ جو بھی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔
تربیت کا آغاز ہواتو
میری عمر کم و بیش ۲۶برس تھی ۔ روحانی ورثہ
منتقل کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پرمیرے لئے ایسا تربیتی پروگرام مرتب کیا گیا جس
کے تحت ذہن جلد از جلد اس سطح پر آجائے جہاں چالیس سال کی عمر میں ہوتا ہے ۔ روحانی
اعتبار سے سکت بڑھانے کے ساتھ ساتھ جسمانی مضبوطی کو بھی مد نظر رکھا گیا۔ خون میں
روشنیوں کو قبول کرنے کی خاصیت خاصی کم تھی۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ کھانے میں کوئی
ایسی چیز استعمال کروں جو خون کو اس قابل بنائے کہ وہ روشنیوں کو قبول کرنے میں معاون
ثابت ہو۔ حضور قلندر بابااولیاء نے اس مقصد کے لئے خصوصی غذائیں تجویز فرمائیں۔
جب میں حضور قلندر بابا
اولیاء کے زیر تربیت آیا تومیرا ذہن کاروباری تھا۔ جب بھی کسی آدمی سے ملتا، اس کی
ذات سے کوئی نہ کوئی توقع قائم کرلیتا تھا۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے سب سے پہلے اس
طرز فکر پر ضرب لگائی۔ جس آدمی سے بھی جو توقع وابستہ کی وہ پوری نہیں ہوئی ۔ یہ عمل
اتنی بار دہرایا گیا کہ دوستوں کی طرف سے مایوسی طاری ہوگئی۔
ذہن میں بالآخر یہ بات
آئی کہ کوئی دوست اسی وقت کام آسکتا ہے جب اللہ چاہے۔ ایک دفعہ عید کا چاند دیکھنے
کے بعد بچوں کی عیدی کے سلسلہ میں فکر لاحق ہوئی اور میں اپنے دوست کے پاس کچھ رقم
ادھار لینے کے لئے گیا۔ دوست نے کہا، روپے تو میرے پاس موجود ہیں لیکن کسی کی امانت
ہیں۔ طبیعت نے اس بات کو گوارہ نہ کیا کہ دوست سے امانت میں خیانت کرائی جائے۔چلتے
چلتے بازارپہنچ گیا ۔
وہاں ایک دوست ملے جو
بہت اچھی طرح پیش آئے اور انہوں نے پیشکش کی کہ آپ کو عید کے سلسلے میں کچھ روپے پیسے
کی ضرورت ہو تو مجھ سے لے لیں۔ میرے پاس کافی رقم ہے ۔ نامعلوم طریقے پر میں نے ان
کی اس پیش کش کوقبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا میں نے کسی زمانے میںآپ سے کچھ روپے ادھار
لئے تھے،میں وہ رقم ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے میری جیب میں ساٹھ روپے ڈال دےئے۔
میں گھر آیا اور ان روپوں سے عید کی تمام ضروریات پوری ہوگئیں۔
ایک روز میں عصر اور
مغرب کے درمیان حضور قلندر بابا اولیاء کی تصنیف ’’ لوح و قلم ‘‘ کے صفحات لکھ رہا
تھا کہ لاہور سے کچھ مہمان آگئے۔ اس وقت گھر میں کھانے پینے کا انتظام نہیں تھا بلکہ
لباس بھی مختصر ہوکر ایک لنگی اور ایک بنیان تک محدود ہوچکا تھا۔ میرے ذہن میں یہ بات
آئی کہ پڑوس میں سے پانچ روپے ادھار مانگ کر ان سے کھانے کا انتظام کیا جائے۔ پھرخیال
آیا کہ اگر پانچ روپے دینے سے انکا رکردیا تو بڑی شرمندگی ہوگی۔ پھر خیال آیا کہ جھونپڑی
والے ہوٹل سے کھانا ادھار لے لیا جائے ۔ طبیعت نے اس بات کو بھی پسند نہیں کیا۔
میں یہ سوچ کر خاموش
ہوگیا کہ اللہ چاہے گا تو کھانے کا انتظام بھی ہوجائے گا اور کمرے سے باہر آنے کے لئے
جیسے ہی میں نے دروازے سے قدم باہر نکالا، چھت میں سے پانچ روپے کا ایک نوٹ گرا۔ نوٹ
اس قدر نیا اور صاف شفاف تھا کہ اس کے زمین پر گرنے کی آواز آئی۔میں نے جب فرش پر ایک
نیا نوٹ پڑا ہوا دیکھا تو یکایک ذہن میں آواز گونجی، یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ میں نے
وہ نوٹ اٹھالیااور اس سے کھانے پینے کا انتظام ہوگیا۔
اس کے بعد دوسرا تربیتی
پروگرام شروع ہوا جس میں اڑتالیس گھنٹے تک یہ کیفیت قائم رہی کہ مجھے ایک بہت بڑے کمرے
میں بند کردیا گیا۔ کمرے میں بہت ساری الماریاں تھیں، جن میں سونے کی اینٹیں رکھی ہوئی
تھیں۔ ذہن روٹی کھانے کی طرف مائل ہوتا تو کانوں میں ماورائی آواز گونجتی ، سونا کھاؤ۔
پانی پینے کی خواہش پیدا ہوئی تو آواز آئی، سونے سے پیا س بجھاؤ۔جب اس کیفیت سے باہر
آیا تو دس روپے کے نوٹ سے بھی گندگی کا احساس ہوتا تھا۔
قرآن پاک کے ارشادات
اور دین کی تعلیمات میں ذکر کو بہت بڑا مقام حاصل ہے۔قرآن و حدیث میں تواتر کے ساتھ
ذکر کرنے کی تلقین موجود ہے۔صلوٰۃ کو بھی ذکر کہا گیا ہے۔صلوٰۃ کا مقصد یہ بتایا گیا
ہے کہ اسے ذکر الٰہی کے لئے قائم کیا جائے۔ذکر کے لغوی معنی یاد کرنے کے ہیں۔تذکرہ
کرنے کو بھی ذکر کہتے ہیں۔اس لئے کہ تذکرہ کرنا کسی کو یاد کرنے کا اظہار ہے۔
آدمی جب کسی کا نام
لیتا ہے ،اس کی صفت بیان کرتا ہے تو یہ عمل اس کا ذہنی تعلق مذکور کے ساتھ قائم کرتا
ہے۔یاد کرنا اور زبان سے تذکرہ کرنا ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔عام زندگی میں اس کی مثالیں
مل سکتی ہیں۔اگر ایک شخص کسی سے قلبی لگاؤ رکھتا ہے تو اس کا اظہار ا س طرح ہوتا ہے
کہ وہ نہ صرف زبان سے تذکرہ کرتا ہے بلکہ دل پر بھی اسی کا خیال غالب رہتا ہے۔
دین کی تعلیمات کا مدار
اللہ کی ذات ہے اور دین کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کا قلبی رشتہ اللہ کی ذات اقدس سے قائم
ہوجائے اور یہ رشتہ اتنا مستحکم ہوجائے کہ قلب اللہ کی تجلی کا دیدار کرلے۔چنانچہ اس
بات کے لئے تمام اعمال و افعال چاہے وہ جسمانی ہوں یا فکری ، اللہ کی ذات سے منسلک
کیا گیا ہے تاکہ شعوری اور غیر شعوری طور پر اللہ کا خیال ذہن کا احاطہ کرلے۔اس کیفیت
کو حاصل کرنے میں ذکر کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ذکر کا مقصد یہی ہے کہ بار بار اللہ کے
نام کو دہرانے سے ذہن پر اللہ کا نام نقش ہوجائے۔
ذکر کا پہلا مرتبہ یہ
ہے کہ اللہ کے کسی اسم یا صفت کو زبان سے بار بار دہرایا جائے۔جب تک کوئی شخص اس عمل
میں مشغول رہتا ہے اس کا ذہن بھی کم و بیش اسی خیال پر قائم رہتا ہے۔اگرچہ وقتی طور
پر ذہن ذکر سے ہٹ بھی جاتا ہے لیکن ذکر کی میکانکی حرکت غیر شعوری ارادے کو ذکر سے
ہٹنے نہیں دیتی ہے۔اس مرتبہ کو اہل روحانیت نے ذکر لسانی کہا ہے۔یعنی اللہ کے کسی اسم
کو زبان سے دہراتے ہوئے خیال کو ذکر پر قائم رکھنا۔کسی اسم کو مسلسل دہرانے سے ایک
ہی خیال ذہن پر نقش ہوجاتا ہے۔شعوری ارتکاز بڑھنے لگتا ہے اور ذہن کو ایک خیال پر قائم
رہنے کی مشق ہوجاتی ہے۔جب ایسا ہوتا ہے تو ذاکر زبان سے الفاظ ادا کرنے میں بار محسوس
کرتا ہے اور عالم خیال میں الفاظ ادا کرنے اسے سرور حاصل ہوتا ہے ۔
اس کیفیت میں ذاکر،
ذکر لسانی سے ہٹ کر ذکر خفی کرنے لگتا ہے۔اس درجے کو ذکر قلبی کہا جاتا ہے پھر ایک
موقع ایسا آتا ہے کہ ذاکر خفی طور پر اسم کو دہرانے میں بھی ثقل محسوس کرتا ہے بلکہ
اسم کا خیال اس پر غالب آجاتا ہے اور عالم تصور میں پوری وجدانی کیفیت کے ساتھ اسم
کے خیال میں ڈوب جاتا ہے۔اس کیفیت کو ذکر روحی کہتے ہیں ۔
ذکر روحی کا دوسرا نام
مراقبہ ہے۔مزید وضاحت کے لئے ایک بار پھر اجمالاََ ذکر کو بیان کیا جاتا ہے ،اگر ایک
شخص اسم قدیر کا ذکر کرتا ہے تو پہلے مرحلے میں زبان سے اسم قدیر کو پڑھتا ہے۔دوسرے
درجے میں اسم قدیر کو عالم خیال میں خفی طور پر ادا کرتا ہے لیکن زبان سے لفظ ادا نہیں
کرتا ۔تیسرے مرتبے میں اسے ذہنی طور پر بھی اسم کو دہرانے کی حاجت محسوس نہیں ہوتی
بلکہ اسم قدیر بصورت خیال و تصور اس کے ذہن پر محیط ہوجاتا ہے۔ذکر کا یہ مرتبہ یا طریقہ
جس میں کوئی شخص اسم کے معانی کا تصور قائم رکھتا ہے مراقبہ کہلاتا ہے۔ذکر کے تمام
طریقوں کا مقصد ذاکر کے اندر اتنی صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ اس کی توجہ کسی اسم کے اندر
جذب ہوجائے۔
پہلے پہل ذاکر مراقبہ
میں خیال کو قائم کرتا ہے لیکن مسلسل توجہ سے یہ خیال اس کے تمام ذہنی و جسمانی افعال
کے ساتھ اس کے شعور پر غالب آجاتا ہے ۔وہ اللہ کے ساتھ مسلسل ربط حاصل کرلیتا ہے اور
کوئی وقت ایسانہیں گزرتا جب مراقبہ کی کیفیت اس پر طاری نہ ہو۔جب مراقبہ کی یہ کیفیت
شعور کا حصہ بن جاتی ہے تو ذاکر کی روح عالم ملکوت کی طرف صعود کرتی ہے اور وہ کشف
و الہام سے سرفراز ہوتا ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے مجھے ہمہ وقت خصوصاََ مراقبہ
سے قبل ’’یا حی یاقیوم ‘‘ کے ورد کی تاکید فرمائی ۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے مجھے نصیحت فرمائی، خواجہ صاحب ! مراقبہ میں ناغہ نہ کیا کریں، ہمارے پاس وقت نہیں
ہوتا ۔ ایک منٹ کے تصرف کے لئے بعض اوقات چھ چھ مہینے انتظار کرناپڑتا ہے لیکن جب ہمیں
یہ ایک منٹ ملتا ہے اور ہم سالک کی طر ف متوجہ ہوتے ہیں تو سالک سورہا ہوتاہے یا کھیل
کود میں مشغول ہوتا ہے ۔چھ مہینے کے بعد اسے جو دولت نصیب ہونے والی تھی اس نے وقت
کی پابندی سے اسباق اور مراقبہ نہ کرکے اس نعمت کو ضائع کردیا۔ اب نہ جانے کب تصرف
کاوقت آئے۔
مجھے اس بات کا بہت
شوق تھا کہ جو کام حضور قلندر بابا اولیاء کرتے ہیں، میں بھی کروں ۔ حضور قلندر بابا
اولیاء جیسا لباس پہنتے ہیں، میں بھی پہنوں ۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے اس انداز میں
ٹوپی پہنی ہے تو میں بھی اسی طرح پہنوں ۔ اس شوق کو دیکھتے ہوئے ایک روز حضو ر قلندر
بابااولیاء نے فرمایا،گروجو کہے ، وہ کرو،گرو جو کرتا ہے ، اس کی نقل نہ کرو ،گر وجو
کہے ، گرو کے ذہن سے سمجھو،اپنا ذہن استعمال نہ کرو۔ کبھی بھی شیخ کی نقل نہ کرنا۔
تمہیں نہیں پتا وہ کہاں ہے ۔ تم یہاں دیکھ رہے ہو اور وہ کہاں سے یہاں کیا کررہا ہے
۔ اس کے بارے میں تمہیں کچھ علم نہیں ہے ،تمہا را کام ہے تعمیل حکم، جو وہ کہہ دے وہ
کرو۔
روحانیت میں تعمیل حکم
بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ تعمیل حکم کے ذریعے مراد اپنے شاگرد کو بندگی کے آداب سکھاتا
ہے کیونکہ روحانیت کے علوم بندگی کے دائرے میں ہی سیکھے جاسکتے ہیں۔
بندگی کے راستے سے ہٹ
کر بندے کو نہ ہی اللہ ملتا ہے ، نہ اپنی ذات کا سراغ۔ مرید کے لئے ذہن کی مرکزیت کو
زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لئے مرشد کے حکم پر دل و جان سے عمل کرنا ضروری ہے
۔ جیسے جیسے مرید حکم کی تعمیل کرتا جاتاہے اس کے اوپر مرشد کا ارادہ غالب آجاتا ہے۔
یہاں تک کہ اس کے ذہن کی مرکزیت مرشد کے ارادے کی حرکت بن جاتی ہے ۔ پھر ایک وقت یہ
ہوگا کہ مرشد کے ذہن میں کوئی خیال آیا اور گزر گیااور یہی خیال مرشد کے ذہن سے منتقل
ہوکر مرید کے ذہن میں آگیا اور مرید نے اس کو عملی جامہ پہنادیا۔
حضور قلندر بابا اولیاء
سے ایک دفعہ کسی صاحب نے کہا کہ خواجہ صاحب نے فلاں بات کہی ہے۔حضور قلندر بابا اولیاء
نے فرمایا ، خواجہ صاحب یہ بات نہیں کہہ سکتے ۔ اس کی وجہ دریافت کرنے پر حضور قلندر
بابا اولیاء نے ارشاد فرمایا۔میں نے اپنے اندر دیکھا اور سوال کیا کہ میں ایسی بات
کہہ سکتا ہوں ۔ تو میر ے اندر سے آواز آئی ، نہیں میں ایسی بات نہیں کہہ سکتا ۔ اب
جب میں ایسی بات نہیں کہہ سکتا تو خواجہ صاحب کیسے کہہ سکتے ہیں ۔
ماورائی علوم سیکھنے
کے لئے مضبوط اور طاقت وردماغ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اعصاب میں لچک پیدا کرنے ، دماغ کو
متحرک رکھنے اور قوت کارکردگی بڑھانے کے لئے سانس کی مشقیں بے حد مفید اور کارآمد ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاء کے زیر نگرانی جب میری سانس کی مشقوں کی شروعات ہوئی تو کچھ
عرصہ میں مراقبہ کے بعدمجھ پر یہ کیفیت طاری رہنا شروع ہوگئی کہ سربھاری اور دماغ کھویا
کھویا سا رہتا ۔
کھانا پینا تقریباً
ختم ہوگیا اور نقاہت کی وجہ سے مسلسل تین روز تک بستر پر لیٹا رہا لیکن میں نے سانس
کی مشق میں ناغہ نہیں کیا۔ تین روز بعد میں نے غنودگی میں دیکھا کہ میرا سر بیچ میں
سے کھل گیا ہے اور اس کے اندر سے رقیق مادہ نکل رہا ہے ۔ سر کے اندر روشنیاں بھی نظر
آئیں۔ تین ہفتے بعد خواب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگلے تین ماہ سخت کرب
کی حالت میں بسر ہوئے ، اس دوران طبیعت کئی مرتبہ خود کشی کی طرف مائل ہوئی۔ نیند میں
اتنا خلل واقع ہوگیا کہ ہر وقت آنکھیں بند رہتیں۔ سونا چاہتا لیکن نیند نہیں آتی تھی
۔ کبھی کبھی جی اس قدر ہلکا ہوجاتا گویا جسم کا وجود ہی نہیں ہے ۔ غصہ میں اضافہ ہوگیا
اور ہر شخص کی طرف سے بد گمانی ہوگئی ۔ مجھے محسوس ہوا کہ ظاہری جسم محض خول اور غلاف
کی حیثیت رکھتا ہے ۔ حقیقی وجود سے گوشت پوست کے جسم کا فاصلہ نوانچ ہے ۔
مجھے سگریٹ نوشی کی
عادت تھی ۔ جب جسم میں لطافت قائم ہونا شروع ہوئی تو سگریٹ کاکش لینے پر میری رگوں
میں سنسنی دوڑجاتی ۔ایک روزمیر ے بڑے صاحبزادے ،حضور قلندر بابا اولیاء سے ملنے کے
لئے گئے ۔حضور قلندر بابا اولیانے ان سے فرمایا ، خوا جہ صاحب سے کہنا کہ سگریٹ چھوڑ
دیں۔جب وقار یوسف گھر آئے تو دیکھا کہ میں سگریٹ پی رہا ہوں۔اسی دوران وقار یوسف نے
مجھے حضور قلندر بابا اولیاء کا پیغام سنایا ۔میں نے یہ سنتے ہی تعمیل حکم میں سگریٹ
نوشی ترک کردی۔
ایک جوگی صاحب صبح پانچ
بجے تشریف لائے ۔ فرمایا ، آج میں تمہیں اپنے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر لے جاؤں گا۔میں
کمرے سے نکل کر برآمد ے میں ان کے پاس آیا ۔
جوگی صاحب نے فرمایا،آنکھیں
بند کرکے میرے کرتے کا دامن پکڑ لو اور ساتھ ساتھ چلے آؤ۔ چندلمحے بعد جوگی صاحب نے
فرمایا، آنکھیں کھول دو۔میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو پہاڑ کی تلہٹی (وادی )
میں کھڑا پایا۔ شدید سردی کے احساس سے دانت بجنے لگے ۔ جو گی صاحب نے سر پر ہاتھ پھیرا
تومجھے سکون محسوس ہوا۔ فرمایا،یہ آسام کی سب سے اونچی پہاڑی ہے،یہی میری جائے قیام
ہے ۔میں نے دیکھا کہ ایک گنبد نما جھونپڑی بنی ہوئی ہے ۔ جس کی چھت ، درخت کے پتوں
اور تنے کی ہے ۔ جھونپڑی کے سامنے مکئی کا کھیت ہے ۔ جوگی صاحب نے دو بھٹے توڑے ، آگ
جلا کر سینکے۔ فرمایا ، کھاؤ !یہ فقیر کا تحفہ ہے ۔ بھٹے کھانے کے دوران جوگی صاحب
جھونپڑی کے اندر سے بانسری اٹھالائے اور فرمایا ،تم بھٹے کھاؤ میں تماشہ دکھاتا ہوں
۔
جوگی صاحب نے بانسری
بجانا شروع کردی ۔ بانسری کی آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی چلی گئی ۔ بانسری کی آواز
میں ایسی کشش تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے مختلف جانور گروہ در گروہ آنا شروع ہوگئے ۔ ہیبت
کی وجہ سے میرے ہاتھ سے بھٹا گرگیا اور عجیب عالم مد ہوشی میں اس منظر کو دیکھنے لگا
۔ نہیں کہا جاسکتا بانسری کب تک بجائی گئی ، لیکن جونہی بانسری کا نغمہ بند ہوا یہ
سب جانور جس طرح آئے تھے اسی طرح چلے گئے ۔ جوگی صاحب نے فرمایا،تم نے دیکھا ! مگر
یاد رکھو یہ سب بھان متی کا تماشہ ہے ۔ روحانیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
کائنا ت کی تخلیق کے
ہر جزو میں معین مقدار یں کام کررہی ہیں ۔ ان مقداروں کا اہم کام یہ ہے کہ جب یہ آپس
میں ردوبدل ہوتی ہیں یا ان کا آپس میں ایک دوسرے کے اندر انجذاب ہوتا ہے تو یہ مختلف
رنگ اختیار کرلیتی ہیں۔
یہ رنگ ہی دراصل کسی
نوع کے خدوخال بن جاتے ہیں ۔ قلندر شعو ربتا تا ہے کہ جب ایک آدمی اپنے اندر دور کرنے
والے نسمہ (کرنٹ ) سے واقف ہوجاتا ہے تو وہ کائناتی تخلیقی فارمولوں کے تحت اپنے اندر
ہر قسم کی غیر مرئی صلاحیتوں کو اپنے ارادے اور اختیار سے متحرک کرسکتا ہے ۔
جب میرے مشاہدے میں
یہ بات آگئی تو سانس کی مشق کے دوران ایک روز خیال آیا کہ جب زندگی کا دارومدار سانس
کے اوپر ہے اور زمین پر موجود ہر چیز روشنیوں کے تانے بانے میں بند ہے تو پھر کیا ضرورت
ہے کہ آدمی آٹا گوندھے ، روٹی پکائے اور کھانا کھانے کا تکلف کرے۔ نسمہ کا تجربہ خواب
میں تو ہوتا ہی ہے ،بیداری میں تجربہ کرنا چاہئے کہ اگر میں بیداری میں رہتے ہوئے مادی
غذا استعمال نہ کروں تو نسمہ کی کھائی ہوئی غذا میری بھوک رفع کردے گی۔
یہ خیال ہر روز سور
ج طلوع ہونے کے وقت گہرا ہوتا چلا گیا۔ ایک روز جب میں سورج طلوع ہونے سے پہلے مشرق
کی طرف منہ کرکے سانس کی مشق کررہا تھا تو دماغ میں ایک دریچہ کھلا اور اس دریچہ میں
یہ خیال وارد ہوا کہ فضا میں سے وہ روشنیاں اور وہ عناصر جن سے چنے تخلیق ہوتے ہیں
میرے اندر داخل ہورہے ہیں ۔
نسمہ کی آنکھ سے دیکھا
کہ سامنے بہت عمدہ قسم کے چنے رکھے ہوئے ہیں اورنسمہ ان چنوں کو کھارہا ہے ۔ دوسرے
دن سیب کھانے کی خواہش پیدا ہوئی ۔ پھر دماغ میں ایک دریچہ کھلا اور فضامیں پھیلی ہوئی
وہ روشنیاں جو سیب بناتی ہیں ایک جگہ مجتمع ہوکر سیب بن گئیں اور میں نے سیب کھالیا۔
خوردونوش کا یہ سلسلہ متواتر سترہ دنوں تک قائم رہا۔ ان سترہ دنوں میں کھانے پینے کی
جس چیز کی طرف ذہن متوجہ ہوجا تا یا جسمانی اعتبار سے میرے اندر انرجی ذخیرہ کرنے کا
تقاضہ پیدا ہوتا تھا،
میں سانس کی مشق کے
ذریعے اس انرجی کو اپنے اندر منتقل کرلیتا تھا۔ فضائے بسیط میں پھیلی ہوئی ان روشنیوں
کے کھانے پینے کے عمل سے میرے اندر قلندر شعور کی آنکھ اس قدر طاقت ور ہوگئی کہ پتھر
اور اینٹ کی دیوار یں باریک کاغذ کی طرح نظرآتی تھیں ۔دور پرے کی آوازیں سنائی دیتی
تھیں ۔ عجائبات کی ایک دنیا روشن ہوگئی تھی۔کھانا پینا تقریباً ختم کردیا جس کا جسم
پربہت زیادہ اثر پڑا۔ جسم کا گوشت ختم ہوگیا اور دبلا پن بہت زیادہ ہوگیا۔
ایک دن حضور قلندر بابا
اولیاء نے مجھ سے فرمایا ،یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ یہ عمل بند کردیں۔تعمیل حکم میں میں
نے فوراً اس عمل کو ترک کردیا لیکن تجربات نے مجھ پر یہ ثابت کردیا کہ گوشت پوست کے
جسم کے بغیر بھی انسا ن وہ سب کا م کرسکتا ہے جو بظاہر گوشت پوست کے جسم کے ساتھ کرتا
ہے ۔
دورانِ تربیت حضور قلندر
بابا اولیاء نے مجھے سترہ دنوں کا روزہ رکھوایا ۔ اس دوران چینی کے بغیر چائے یا کافی
کے علاوہ اور کچھ لینے کی اجازت نہ تھی ۔ ان دنوں میں دیواریں پتلے کاغذ کی مانند نظرآتی
تھیں۔ چھت بھی ایسے ہی نظرآتی جیسے کاغذ کی بنی ہوئی ہو اور باہر کے عکس ان پر پڑے
ہوئے ہوں ۔ گھر کے درو دیوا راور ارد گر د کے ماحول سے ایسے نظر آتا تھا جیسے ابھی
ابھی کسی نئی جگہ آگیاہوں، جہاں چند روزہ قیام ہے ۔ ذہن شہری زندگی سے فرار چاہتاتھا
۔ شہری زندگی میں خلوص کے فقدان کی وجہ سے بے چینی اوربھی بڑھ جاتی ۔ کوئی بندہ سامنے
آتا تو اس کے خیالات اور اس کی شخصیت واضح طور پر سامنے آجاتی ۔
جب روزہ مکمل ہوگیا
توآنتیں خشک ہوچکی تھیں ۔ پہلے روغن بادام ، گرم دودھ میں ڈال کر دیا گیا۔ پھر دودھ
کے ساتھ نرم غذائیں دی جانے لگیں اور اس طرح رفتہ رفتہ ٹھوس غذا شروع ہوگئی۔
۱۹۵۷ء میں جب حضور قلندر
بابا اولیاء1-D-1/7ناظم آبادمیں مقیم تھے ۔ اس دوران عموماََ ہر روز شام
کے بعد عقیدت مند اور احباب حاضر خدمت ہوکر حضور قلندر بابا اولیاء کے ارشادات اور
تعلیمات سے مستفیض ہوتے تھے جس میں عالم روحانیت کے اسرار و رموز بھی بیان ہوتے اور
حاضرین کے مسائل اور مشکلات کا حل بھی پیش کیا جاتا ۔ انہی نشستوں میں حضور قلندر بابا
اولیاء موجودہ دور کے لوگوں کی ،خاص طور پر مسلمانوں کی زبوں حالی،مرکز گریزی اور فکری
انتشار پرپنے احساسات کا اظہار فرماتے۔
آپ فرما یا کرتے تھے
کہ چودہ سو سال گزرے جانے کے بعد بھی روحانی شعبہ حیات میں ماورائی علوم کے سمجھنے
اور اس پر دسترس حاصل کرنے کی غرض سے سلسلہ وار اسباق و ہدایات ایک جامع شکل میں پیش
نہ کئے جاسکے۔اس کا نتیجہ ہے کہ روحانیت کے متلاشی افراد کے لئے کوئی ایسی کتاب موجود
نہیں ہے جس میں تخلیق و تکوین ، کائنات کے اسرار و رموز اور مقامات کی عام فہم زبان
میں نشاندہی کی گئی ہواور جس کے توسط سے اہل عقیدت صحیح روحانی اور ماورائی علوم سے
آگاہی حاصل کریں ۔ان ہی احساسات و جذبات کے تحت حضور قلندر بابا اولیاء نے اہل بصیرت
اور حقیقت کے متلاشی افراد کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ایک جامع اور قابل عمل علوم
کو کتابی شکل میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
مجوزہ کتاب کو ضبط تحریر
میں لانے کے لئے طے پایا کہ روزانہ شب کے آخر میں ڈیڑھ دو گھنٹے کے ارشادات بطور املا
تحریر کرائیں گے۔جب پروگرام طے پا گیا تو ٹھیک ساڑھے تین بجے شب حضور قلندر بابا اولیاء
اور میں، دیگر محو خواب افراد خانہ سے علیحدہ ہوکر ایک کمرہ میں بیٹھ جاتے۔ دوران املا
نویسی حضور قلندر بابا اولیاء جو نکتہ بھی بیان فرماتے اس کی تشریح و وضاحت مثالوں
اور نقشوں کے ذریعے کرتے جاتے تھے۔
کبھی کبھی مصروفیت یا
دن بھر کے کام کاج کے سبب نیند کا غلبہ ہوجاتا اورمیری وقت مقررہ پر آنکھ نہ کھلتی
یا بعض اوقات دوران تحریر نیند آجاتی تو حضور قلندر بابا اولیاء آہستگی کے ساتھ ہوشیار
کردیتے تھے لیکن کسی حالت میں بھی اس پروگرام میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہ ہوا اور
نہ تاخیر کو روا رکھا گیا ۔ کم و بیش دوسال پر پھیلی ہوئی اس نشست میں موسم کی گرمی
و سردی بھی آڑے نہ آئی۔اس طرح کائنات کی تخلیق و تکوین کے اسرار و رموز پر مشتمل یہ
معرکۃ الاراء تصنیف وجود میں آگئی۔بلاشبہ کتاب ’’ لوح و قلم‘‘ روحانی دنیا کے علوم
و کوائف پر مشتمل پہلی مربوط و مسبوط تصنیف ہے۔
میں جب ان روح پرور
لمحوں کو یاد کرتا ہوں تو مجھ پر کیف و سرور کی لہر چھاجاتی ہے۔تقریباََ دو سال تک
پھیلے ہوئے طویل لمحات اتنی تیزی سے گزر گئے کہ گویا ایک ہی نشست تھی جو پلک جھپکتے
برخاست ہوگئی۔
اس کتاب کی ابتداء میں
حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا کہ
’’میں یہ کتاب پیغمبر
اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ حکم حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی ذات سے بطریق اویسیہ ملا ہے۔‘‘
ایک روزمجھے خیال آیا
کہ میں اپنے پیرو مرشد سے جتنی محبت کرتا ہوں۔ میرا کوئی پیربھائی شاید اتنی محبت نہیں
کرتا ۔ دماغ میں یہ خیال بار بار آتا رہا تو ایک دن حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا
خواجہ صاحب ! یہاں بیٹھ
جائیں ،
فرمایا ،آپ نے لوہاد
یکھا ہے
میں نے عرض کیا،جی دیکھا
ہے
پھر فرمایا ،مقنا طیس
بھی دیکھا ہے
عرض کیا ،حضور !مقنا
طیس بھی دیکھا ہے
پوچھا ،کبھی یہ بھی
دیکھا ہے کہ لوہے نے مقنا طیس کو کھینچ لیا ہو
عرض کیا،حضور ! یہ تو
نہیں دیکھا
فرمایا، پھر مرید اپنے
مراد سے محبت کیسے کرسکتا ہے ۔۔۔
مرید لوہا ہے اور مراد
مقنا طیس ۔مرید اپنے مراد سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ لوہا مقناطیس کو نہیں کھینچ
سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مراد، مرید سے محبت کرتا ہے ۔ اس محبت کا عکس جب مرید کی ذات
میں داخل ہوجا تاہے تو مرید یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں اپنے مراد سے محبت کرتا ہوں
۔
روحانی زندگی مسلسل
امتحان ہے ۔ ایسا امتحان جس کا نتیجہ بھی سامنے نہیں آتا اور یہ بھی احساس نہیں ہوتا
کہ ہم امتحان گاہ میں ہیں۔۔۔ اندھا کھاتہ ہے ۔ اس کھاتے کی مراد کے سواء کسی کو ہوا
بھی نہیں لگتی۔
مجھے یہ اعزاز حاصل
ہے کہ حضور قلندر بابا اولیاء کے نام جتنے خطوط آتے تھے، میں انہیں پڑھ کر سناتا تھا۔
حضور قلندر بابا اولیاء ان خطوط کے جوابات بھی مجھ سے تحریر فرماتے تھے۔بعض خطوط میں
لوگ اپنی روحانی واردات و کیفیات تحریر کرتے تھے۔خطوط پڑھنے کے بعد میرے اندر ایک قسم
کا احساس محرومی پیدا ہوگیا کہ میں ہر وقت شیخ کی خدمت میں حاضر باش رہتا ہوں جب کہ
ان میں سے کوئی ہفتہ میں ایک دفعہ آگیا، کوئی مہینے میں ایک دفعہ آجاتا ہے اور پھر
بھی آسمانوں میں اڑر ہے ہیں۔ کوئی جنت میں پہنچ گیا، کسی کی روحوں سے ملاقات ہورہی
ہے۔خطوط پڑھتے پڑھتے ، جواب لکھتے لکھتے خیال آیا کہ میں اس لائق نہیں کہ مجھے روحانیت
مل سکے ۔
میں سہون شریف چلاگیا
اور تہیہ کرلیا کہ جب تک مراقبہ نہیں کھلے گا میں سہون شریف نہیں چھوڑوں گا۔ وہاں دو
، تین دن رہا ، اس دوران شب بیداری میں قرآن پاک کی تلا و ت کے ساتھ ساتھ نفلیں بھی
ادا کیں۔ جو بھی طریقہ ہوسکتا تھا کیا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا ۔ میرے ساتھ میرا بیٹا
وقاریوسف بھی تھا، اس نے گھر چلنے کی ضد شروع کردی ۔
مزار شریف کے باہر تہجد
کے بعد بیٹھا ہوا تھاکہ دیکھا حضرت لعل شہباز قلندر روحانی طور پرتشریف لائے اور فرمایا،کیوں
اپنا راستہ خراب کرتا ہے ۔ کوئی کچھ نہیں دے سکتا ہے اگر ہم بھی کچھ دینا چاہیں گے
تو پیرو مرشد کو بیچ میں لائے بغیر نہیں دیں گے۔ واپس جاؤ، وقت ضائع نہ کرو۔میں سہون
شریف سے واپس آگیا،میری حالت پر حضور قلندر بابا اولیاء کور حم آیا۔آپ نے فرمایا،خواجہ
صاحب ! بیٹھیں آج کچھ فیصلہ کرنا ہے ۔میں گھبرا گیا کہ پتا نہیں کیا بات ہوگئی ہے۔
عرض کیاحضور! فیصلہ
تو آپ ہی نے کرنا ہے ۔ فرمایا ،نہیں! فیصلہ آپ ہی نے کرنا ہے ۔ آپ یہ بتائیں کہ میرا
اور آپ کا رشتہ ہے۔ اس رشتہ سے میں آپ کا کیا لگتا ہوں۔ عرض کیا ،حضور ! ہے تو بڑی
گستاخی کی بات ۔ منہ چھوٹا ہے ، بات بڑی ہے ۔میں سمجھتا ہوں آپ میرے محبوب ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے مسکرا کر فرمایا، لیجئے یہ تو مسئلہ ہی حل ہوگیا۔ آپ یہ بتائیں اگر کسی کو محبوب
کی قربت حاصل ہو اور اس قربت میں اسے کسی اور چیز کا خیال آجائے توکیا یہ محبوب کی
توہین نہیں ہے۔ اس لئے کہ محبوب کی قربت کے بعد اگر کوئی خیال آتا ہے تو دراصل محبوب
وہ ہے جس کا خیال آرہا ہے ۔ آپ جنت دیکھنا چاہتے ہیں، آسمانوں میں پرواز کرنا چاہتے
ہیں تو آپ کا محبوب میں کس طرح ہوا۔ آپ کا محبوب جنت ہے ، پروازہے ، کشف و کرامات ہے
۔
میں لرز گیا، آنکھیں
بھیگ گئیں اور دل کی دنیا ماتم کدہ بن گئی ۔ تھکے قدموں سے اٹھا اور حضور قلندر بابا
اولیاء کے پیروں پر سر رکھ کر رونے لگا اور عرض کیا، حضور ! میں سمجھ گیا ہوں ۔ صدر
الصدور حضور قلندر بابا اولیاء نے ایک آہ بھری اورمجھے اپنے سینہ سے لگالیا ۔ دل میں
ایک احساس تشکر بیدا ر ہوا کہ لوگ جس کی وجہ سے آسمانوں میں اڑ رہے ہیں ، وہ تو میرے
پاس ہیں اور مجھے ان کی قربت میسر ہے۔
میں حضور قلندر بابا
اولیاء کے ہمراہ پان والے کی دکان پر کھڑا تھا ،دیکھا کہ دکان میں ایک تصویر لگی ہوئی
تھی وہ تصویر کیلنڈر میں سے نکل کر حضور قلندر بابا اولیاء کے ساتھ چل پڑی۔ تصویران
سے گفتگو کرنے کے بعد واپس پلٹ گئی ۔
میں نے خوف اور حیرانگی
کے عالم میں آگے بڑھ کر حضور قلندر بابا اولیاء سے عرض کیا کہ حضور! یہ کیا معاملہ
ہے۔حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا تصویر نے اس پان والے کی شکایت کی ہے اور کہا
ہے اس سے پان نہ خریدا کریں کیونکہ یہ پان کے کتھے میں خون ملاتا ہے ۔
ایک روز مغرب کی نماز
کے بعد میں حضور قلندر بابا اولیاء کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ میرے دماغ میں جھماکا ہوا
او ر اندر کی آنکھ کھل گئی ،دیکھا کہ حضور قلندر بابا اولیاء کے اندر گھڑی کے فنرکی
طرح بے شماردائرے ہیں اور آپ کے دماغ میں سے آنکھیں خیرہ کرنے والی روشنی کی لہریں
نکل رہی ہیں اور ان دائروں کو حرکت دے رہی ہیں۔ ہردائرے سے تار بندھا ہوا ہے اور ہرتا
ر کے ساتھ ایک مخلوق متحرک ہے۔ہر دائرے میں عالم اور کئی دائروں میں عالمین بھی نظر
آئے ۔میں نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ اوپر سے فلیش لائٹ کی طرح لہریں آرہی ہیں۔ چار نورانی
آبشاریں حضور قلندر بابا اولیاء کے اندر اس طرح جذب ہوگئیں جیسے گلاس کے اندر ڈراپر
سے قطرے ڈالے جاتے ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیاء سے اس امر کی تشریح چاہی کہ میں نے
یہ کیا دیکھا۔ انہوں مسکراتے ہوئے فرمایا
خواجہ صاحب ! ایک کھرب
نظام شمسی میں تیرہ کھرب Planets
ہیں اوریہ تیرہ کھرب Planets نور کی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں۔ صاحب تکوین بندہ
جب تکوینی کام کرتا ہے تو اس کی یہی صور ت ہوتی ہے جو آپ نے دیکھی ہے ۔ حیرانگی کے
دریا میں غرق میں نے عرض کیا عالمین میں تو فرشتے بھی ہیں ۔
فرمایا،صاحب تکوین رو
ٹین کے کام میں ۲۵ سے ۳۵ فرشتوں کی بیک وقت آواز سن کران کو احکامات دیتاہے۔ میں نے سوال کیا ،حضور
! اتنے بڑے کائناتی سسٹم میں آپ کس طرح کام کرتے ہیں ۔فرمایا،آپ یہ سمجھیں کائناتی
سسٹم میں بھی فائل ورک ہوتا ہے ۔ اور کائناتی نظام کے لئے ممثل کی کار کردگی ایک گھنٹہ
میں ایک کروڑ فائل ہے ۔ ایک گھنٹہ میں ایک کروڑ فائل پڑھ کر اور دستخط کرکے پھینک دیتا
ہے ۔
دوران تربیت حضور قلندر
بابا اولیاء نے میری کڑی نگرانی فرمائی ہے ۔ میری تربیت ، لاشعوری طور پرفرمائی ہے
۔ دوران تربیت میرے ایک دوست نے اصرار کیا کہ میرے اوپر توجہ کی جائے اگر مجھے کوئی
دماغی نقصان پہنچے گا تو اس کی کوئی ذمہ داری آپ کے اوپر نہیں ہوگی ۔ میں نے ان سے
وعدہ کرلیا ۔ صبح فجر کی اذان کے وقت جب ان کی طرف متوجہ ہوا تو فوراً حضور قلندر بابا
اولیاء کا ہاتھ سامنے آگیا ۔ انہوں نے تیز آواز میں تنبیہ کی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا
،ان کے بیوی بچوں کی نگہد اشت تم کروگے۔ مو لوی صاحب کا دماغ الٹ گیا تو ان کے بیوی
بچوں کا کیا بنے گا۔ یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہے کہ آدمی جاوبے جا اپنی طاقت کا مظاہرہ
کرے ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ کسی شخص کی تربیت کرکے اس قابل بنادیا جائے کہ وہ اس طاقت
کا متحمل ہوسکے ۔
اسی طرح ایک اور موقع
پرمیرے ایک بہت عزیز دوست نے اصرار کرکے اس بات پر مجبور کردیا کہ انہیں سٹہ کا نمبر
بتا دوں ۔ رات کو اسباق سے فارغ ہونے کے بعد استخارے کی وہ دعا پڑھی جس سے بیداری میں
حالات منکشف ہوجاتے ہیں ۔ دیکھا کہ ایک پردہ ہے جیسے سینما کی اسکرین ہوتی ہے اور اس
پر نمبر لکھے ہوئے ہیں ۔
ابھی نمبروں کو اچھی
طرح ذہن نشین نہیں کرپایاتھا کہ میرے اور پردے کے درمیان حضور قلندر بابا اولیاء کا
ہاتھ آگیا ۔ نہایت جلال میں فرمایا، کیا کرتا ہے۔اس کے ساتھ ہی نظروں کے سامنے سے پردہ
غائب ہوگیا۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے دوران تربیت طرز فکرکو درست سمت پر راسخ کرنے کے لئے مختلف حالات وواقعات کے ذریعے
میری رہنمائی فرمائی ہے۔میں اوائل ۱۹۷۲ء میں ایک اخبار میں
کالم لکھا کرتا تھاجس کی دو سو روپے تنخواہ ملتی تھی۔میں نے جنرل منیجر صاحب سے کہا
کہ میری تنخواہ بڑھائیں ، یہ بہت کم ہے۔ جنرل منیجر صاحب نے اس بات پر کوئی خاص توجہ
نہیں دی ۔ایک روز ادارے کے ڈائریکٹرحضرات کی میٹنگ میں بغیر اجازت چلا گیا اور میٹنگ
میں کہا کہ اگر کالم لکھوانا ہے تو میری تنخواہ بڑھائیں ، دو سو روپے میں گزارہ نہیں
ہوتا۔اس پرجنرل منیجر نے کہا میں آپ کا کالم بند کردوں گا۔ میں نے کہا میں آپ کی کرسی
چھین لوں گا ۔خیال یہ تھا کہ حضور قلندر بابا اولیاء سے سارا معاملہ عرض کروں گا اوروہ
ایسا کردیں گے۔ میں دفتر سے سیدھا حضور قلندر بابا اولیا ء کی رہائش گاہ حیدر ی پہنچا
۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے فرمایا،کیا بات ہے ،بیٹھیں۔ابھی میں کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ انہوں نے فرمایا،خواجہ
صاحب ! بات یہ ہے کہ آپ نے جو حرکت کی ہے بہت غلط ہے ۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ میں
نے صفائی پیش کی کہ جنرل منیجر صاحب نے یو ں کہاتھا ۔ فرمایا،دیکھنے کی بات یہ ہے کہ
جو کچھ یہاں زمین پر ہورہا ہے یا کائنا ت میں ہورہا ہے یہ سب اللہ کے حکم سے ہورہا
ہے یا کسی بندے کے حکم سے ہورہا ہے۔
میں نے عرض کیا ،اللہ
کے حکم سے ہورہا ہے ۔فرمایا،اللہ نے آپ کو جنرل منیجر کی کرسی پر کیوں نہیں بٹھادیا۔آپ
کو کالم نویس کیوں بنایا۔ اگر آپ میں صلاحیت ہوتی تو جنرل منیجر ہوتے ۔ آ پ کون ہوتے
ہیں غصہ کرنے والے ۔ یہ کون سا طریقہ ہے، ٹھیک ہے اگر کام نہیں ہوسکتا تو چھوڑدیں
۔ یہ با ت ذہن نشین کرنے کی ہے کہ آپ کالم نویس کیوں ہیں اور وہ جنرل منیجر کیوں ہے
۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے شدید خفگی کا اظہار فرمایا۔ میں نے سوچا بات ہی الٹی ہوگئی،واقعی میری غلطی تھی
کیونکہ جب اللہ ہی سب کچھ کررہا ہے تو میں جنرل منیجر کیوں نہیں ہوں۔ مجھے اللہ نے
جنرل منیجر کے ماتحت کیوں کیا۔ شرمندگی کی وجہ سے دو دن تک دفتر نہیں گیا۔ دو دن کے
بعد جب دفتر گیا تو جنرل منیجر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں شرم کی وجہ سے آنکھ نہیں
ملاسکا۔انہوں نے کہا، جو کچھ اس روز آپ نے کہا آپ کی غلطی تھی لیکن بعد میں میں نے
محسو س کیا کہ غلطی میری بھی تھی۔ میں میٹنگ میں کہہ دیتا کہ ان کے کیس پر نظر ثانی
کریں ۔ اگر وہ پیسے بڑھاتے تو تنخواہ بڑھ جاتی ، نہ بڑھاتے تو نہ بڑھتی، میرا کیا حرج
تھا۔ بھائی! میں آپ سے معذرت خواہ ہوں ۔
میں نے عرض کیا ، میں
اپنے پیرو مرشد کے پاس گیا تھا۔ مجھے بہت ڈانٹ پڑی ہے۔ میں بہت شرمندہ ہوں ، آپ مجھے
معاف کردیں ۔ جنرل منیجر صاحب نے مجھے ناشتہ کی دعوت دی ، ناشتہ کے بعد انہوں نے کہا
کہ میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔
جس دن یہ واقعہ ہوا
رات کو مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے پھر سوچا کہ میں نے غلطی نہیں کی ، غلطی
خواجہ صاحب کی ہے ، اسی ادھیڑ بن میں سو گیا۔ رات کو ڈھائی بجے کے قریب کروٹ بدلی تو
ہاتھ سن ہوگیا۔
میں نے سوچا کہ دب گیا
ہوگامیں نے بیوی کو آواز دی۔ میرا ہاتھ فالج زدہ ہوچکا تھا۔میں یہ سوچ کر رونے لگا
کہ بچوں کا کیابنے گا۔ روتے روتے مجھے خیال آیاکہ خواجہ صاحب کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
بیوی سے کہا نفل پڑھ کر دعا استغفا ر کرو۔ اس عمل کو دہرانے کے بعد بیوی نے ہاتھ کی
سکائی کی تو ہاتھ ٹھیک ہوا ۔
ایک روز ایک صاحب سے
تلخ کلامی ہوگئی ۔ حضور قلندر بابا اولیاء سے شکایت کی آپ نے فرما یا ،ٹھیک ہے ۔ آپ
یہاں بیٹھیں ،اس نے آپ کو برا کہا۔ جس وقت اس نے آپ کو برا کہا اس وقت آپ کا وزن کتنا
تھا۔ میں نے عرض کیا،ایک من بیس سیر تھا۔فرمایا،برا کہنے کے بعد وزن تلوایا تھا، کیا
ایک سیر کم ہوگیا۔ عرض کیا،جی نہیں ۔ فرمانے لگے ، خواہ مخواہ ہی تھک رہے ہو اگر وزن
کم ہوگیا ہے تو پھر نوٹس لیتے ہیں کہ اسے پکڑ کر لاؤ۔ اس نے برا کہا ہمارے خواجہ صاحب
کو۔ جس کی وجہ سے ایک سیر وزن کم ہوگیا وہ برا کہہ کر بھول بھی گیا، اب آپ کے اندر
جتنی دیر تک انتقامی جذبہ عود کرتا رہے گا آپ کا وزن کم ہو تا رہے گا۔ وزن گالی سے
نہیں گھٹتا وزن انتقام کے جذبے سے گھٹتا ہے۔ تکلیف بھی ہوئی اور وزن بھی گھٹا اور وہ
آرام سے سو رہا ہے ۔
کوئی اچھا کہے یا بر
ا کہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ عبوری چیزیں ہیں، انہیں کبھی خاطرمیں نہیں لانا
چاہئے ۔ بس اپنی طرف سے جس کے ساتھ جو بھلائی کرسکتے ہوکرو اگر بھلائی نہیں کرسکتے
ہوتو کوئی حرج نہیں،کوئی مجبور تو نہیں کررہا ۔ آپ کوئی خدا نہیں ہیں ، یہ خدا کے ہاتھ
کی بات ہے وہ ایسے آدمی کو جو فٹ پاتھ پر پڑا ہے چاہے تو اسے محل دے دے ۔
ایسا ہوتا رہتا ہے
مجھے کبوتر پالنے کا
شوق تھا۔ ایک مرتبہ ایک فاختہ آکر کبوتر وں کے ساتھ دانہ چگنے لگی ۔ ایک کبوتر کے ساتھ
اس کا جوڑا مل گیا۔ اس کے انڈو ں سے جو دو بچے نکلے وہ اپنی خوب صورتی میں یکتا اور
منفرد تھے۔ پروں کا رنگ گہرا سیاہ اور باقی جسم سفید تھا۔ ان کے اندر اس قدر کشش تھی
کہ جو دیکھتا تعریف کئے بغیر نہ رہتا ۔ شامت اعمال ، ایک روز صبح سویرے بلی نے ان میں
سے ایک کبوتر کو پکڑا اور چھت پر لے گئی ۔ میں نے جب بلی کے منہ میں یہ کبوتر دیکھا
تو اس کے پیچھے دوڑا ۔ اوپر پہنچ کر دیکھا کہ بلی نے کبوترکو ماردیا ہے۔ غصہ تو بہت
آیا مگر پھر یہ سوچا کہ کبوترتو اب مر ہی چکا ہے، بلی کو ہی پیٹ بھرنے دیا جائے اور
جب یہ کبوتر کھاچکے گی تو اسے سزادوں گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نیچے چلا آیا لیکن اس
بات کا مجھ کوشدید صدمہ تھا ۔حضور قلندر بابا اولیاء پہلی منزل 1-D-1/7کے کمرے میں تخت پر
تشریف فرماتھے۔ میں نے احتجا جاً عرض کیا ،بلی نے میرا کبوتر ماردیا ہے۔ حضور قلندر
بابا اولیاء نے فرمایا ،ایاں ہوتا رہتاہے ۔ میں نے عرض کیا ،آپ کے ہوتے ہوئے بلی میرا
کبوتر لے جائے ۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی، یہ کہنے کے بعد دلبرداشتہ باورچی خانے
میں جاکر بیٹھ گیا۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے آواز دی میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ آواز دی ، وہ بھی سنی ان سنی کردی ۔
یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب بھائی محسن صاحب بھی1-D-1/7 میں مقیم تھے۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے بھائی محسن
کو آواز دی اورمیرے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ خواجہ صاحب کو کبوترمرنے
کا بہت صدمہ ہے اور وہ باورچی خانے میں بیٹھے رورہے ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاء
ان کی اس بات سے متاثر ہوئے اور فرمایا، خواجہصاحب کو بلاؤ اور ان سے کہو کہ ان کا
کبوتر آگیاہے۔ بھائی محسن صاحب صحن میں آئے تو دیکھا کہ وہ کبوتر موجود تھا۔ بھائی
محسن نے مجھے بتایا کہ کبوتر آگیا ہے۔میں سمجھا کہ یہ بات میری دلجوئی کے لئے کہہ رہے
ہیں لیکن جب انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ آپ باہر جاکر دیکھیں تو سہی تو میں بے یقینی
کے عالم میں اٹھ کر صحن میں آیا ۔ دیکھا کبوتر موجود تھا۔ کبوتر کو دیکھتے ہی دوبارہ
دوڑتے ہوئے چھت پر گیا اور تخت کے نیچے دیکھا تو وہاں خون کے دھبے اور کچھ پر پڑے ہوئے
تھے ۔ یہ دیکھ کر شدید ندامت اور شرمندگی ہوئی۔ میں نے نیچے آکر حضور قلندر بابا اولیاء
کے پیر پکڑ لئے اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی اور شام ہونے سے پہلے پہلے سارے کبوتر
تقیسم کردےئے ۔
میرے ایک پیر بھائی
نے تھائی لینڈ سے حضور قلندر بابا اولیاء کی تشریف آوری کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھیجا۔
مجھے اچھا نہیں لگا کہ حضور قلندر بابا اولیاء میرے پاس سے چلے جائیں گے ۔ میں نہیں
چاہتا تھا کہ پیرو مرشد سے چند روز کے لئے بھی دور ہوجاؤں ۔مجھ پر بہت زیادہ رقت طاری
ہوگئی ۔ اس جذبہ کے تحت میں نے اپنے پیر بھائی کو سخت سست کہہ دیا۔ خواب میں دیکھا
دربار عالی مقام میں حاضری ہوئی ہے ۔سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ و السلام نے پوچھا(پیر بھائی
کا نام لے کر ) کیسا آدمی ہے ۔ عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! وہ اچھے آدمی
ہیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا،اچھا آدمی ، برا کیسے ہوسکتا ہے ۔جب آپ
نے ایک دفعہ رائے قا ئم کر لی اور تسلیم کر لیا کہ فلاں آدمی اچھا ہے تو اسے برا کہنا
یا برا سمجھنا کیا معنی رکھتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے اس ہۂت کذائی میں کہ میں زمین پر تھا اورمرشدکریم بذات خود تکوین کے تخت شاہی پر
براجمان تھے، فرمایادوستی کی تعریف بیان کرو۔ میں نے عرض کیا ،دوستی ایثار ہے۔ کسی
کو کچھ دینے کے لئے ، کچھ بنانے کے لئے ، سنوارنے کے لئے اپنا بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔
فرمایا ،بات صحیح ہے لیکن عام فہم نہیں ہے۔
میں نے عرض کیا ،آپ
کا فرمان حق ہے ۔ میری ذہنی سکت ، سوجھ بوجھ آپ کے سامنے ہے ۔ میرے پیارے ، دل میں
مکین ، آنکھوں کی روشنی ، میرے پاک مرشد ، بندہ سراپا عجز و نیاز ہے۔ ارشاد فرمائیں
کہ میرا دامن مراد بھر جائے اور مجھے محرومی کا احساس نہ رہے ۔ فرما یا ،دوستی کا تقاضہ
ہے کہ آدمی دوست کی طرز فکر میں خود کو نیست کردے ۔ اگر تم کسی نمازی سے دوستی کرنا
چاہتے ہو تو نمازی بن جاؤ۔ شرابی کی دوستی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے ساتھ مے نوشی
کی جائے۔ وسیع دستر خوان سخی کی دوستی ہے۔
پھر فرمایا ،خواجہ صاحب
! اللہ سے دوستی کرنی ہے ۔میں نے عرض کیا ،جی ہاں ۔ فرمایا ،ایسی دوستی کرنی ہے کہ
اللہ میاں پیار کریں ۔ عرض کیا ، بالکل ، ایسی ہی دوستی کرنی ہے۔ یہ جواب سن کر انہوں
نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب ! بتاےئے اللہ کیا کرتا ہے ۔ میری سمجھ میں اس کا جواب نہیں
آیا ۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے فرمایا ،خواجہ صاحب ! اللہ یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتاہے ۔ اگر
آپ کو اللہ سے تعلق قائم کرنا ہے اور اس سے پکی دوستی کرنی ہے تو آپ بھی یہی کیجئے
یعنی بے غرض ہوکراللہ کی مخلوق کی خدمت کیجئے ۔
حضور قلندر با با اولیاء
نے ایک روز عظیمی صاحب کی تر بیت کے حوالے سے فرمایا کہ اگر مجھے حضور محمدرسول اللہ
صل اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ ہوتا کہ آپ کو خواجہ صاحب کو تیار کر نا ہے تو میں اپنے
آ پ کو ظاہر نہ کر تا اور دنیا کو میرے روحانی علوم کے بارے میں ہوا بھی نہ لگتی ۔
یہ محبت اور تعلق کی
ہی بات ہے کہ حضور قلندر با با اولیاء نے آ پ کو یہ عزاز بخشا کہ شب وروز سولہ سال
آ پ کے یاں 1-D-1/7میں قیام پذیر رہے۔ آپ کی تربیت فرمائی، اصلاح فرمائی
، لکھایا پڑھایا اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے گئے۔ ان سولہ سالوں میں حضور قلندر
بابا اولیاء گھر کے بڑے تھے، سر پرست تھے۔اس دوران آپ کا معمول تھا کہ ہفتہ کی شام
اپنی رہائش گاہ واقع حیدری تشریف لے جاتے۔ اتوار کی شام کو مظفر صاحب (سابق سیلز ڈائریکٹر
بروک بانڈ کمپنی) کے گھر ایک علمی نشست ہوتی اور وہاں سے آپ1-D-1/7تشریف لے آتے۔
ایک دفعہ زوجہ محترمہ
حضور قلندر بابا اولیاء نے آپ سے عرض کیا ، آ پ اپنے گھر میں کیوں نہیں رہتے۔حضور قلندر
با با اولیاء نے فرمایا ، فقیر کو جہاں کا حکم ہوتا ہے فقیر وہاں رہتا ہے۔
ایک صاحب نے حضور قلندر
بابا اولیاء سے عرض کیا، خواجہ صاحب کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں ۔آپ نے فرمایا،خواجہ
صاحب کو میں نے سل میں رکھ کر سرمہ بنادیا ہے یااسے پھونک مار کر اڑا دو یا اسے آنکھ
میں ڈال لو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔