Topics

روشنی+نور (نور مطلق)

سوال: تاریخ گواہ ہے کہ چار برس کی عمر میں ہمارے پیارے رسول مقبول محمد مصطفیٰﷺ کے پاس دو فرشتے آئے اور ان کا سینہ مبارک چیر کر دل صاف کیا۔ برائے کرام اس واقعہ کی روحانی توجیہہ فرما دیں۔

جواب: مکہ کی زمین جب گرمی کی شدت سے بانجھ بن گئی اور اس کے اوپر لو آگ بن کر برستی رہی۔ اور زمین کی کوکھ سے ریت کے گرم ذرات ابلنے لگے تو قدرت کو زمین کی حالت زار پر رحم آ گیا۔ بچوں کو جھلستی اور تپتی لو کے تھپیڑوں سے بچانے کے لئے قدرت نے ابر کرم کو آواز دی کہ وہ اس مفلوک الحال پژمردہ چہروں کی شادابی کے لئے پھوار ٹپکائے ایسی پھوار جو گداز سے معمور ہو۔ جن کے اندر زندگی کا لہو دوڑتا ہو اور جو پھوار سایہ بن کر سرزمین حجاز کو اپنی آغوش میں لے لیں۔

قدرت کے اس انعام کے لئے سیدہ آمنہ کا انتخاب ہوا۔ سیدہ آمنہ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملی اور سینہ نور سے بھر گیا تو حلیمہ دائیؓ کا نصیب جاگ گیا۔ حلیمہؓ کی تقدیر نے معراج کو چھو لیا۔ لوح و قلم نے ان کے نصیب میں یہ لکھ دیا تھا کہ حلیمہؓ اللہ کے محبوبﷺ کو دودھ پلائیں، اللہ کے ایسے محبوبﷺ کو جن کے لئے اللہ نے یہ ساری کائنات بنائی۔ حلیمہؓ کی چھٹی حس نے حلیمہؓ کے کان میں سرگوشی کی۔ اے حلیمہ! تو نواز دی گئی ہے۔ تیرے مقدر کا ستارہ چاند سورج سے زیادہ روشن ہے۔ اے بنی سعد کی گمنام عورت! تیرا نام تاریخ دنیا میں ثبت ہو گیا ہے۔ تجھے وہ ابدی شہرت ملی گئی ہے کہ قیامت تک یہ دنیا اور اس دنیا سے اس پار دوسری دنیائیں اور عالمین تجھے ابد تک یاد رکھیں گے۔ تیرے نام کے ساتھ عزت و احترام ایک امر حقیقی بن گیا ہے۔ شہر بھر میں، گلی کوچوں میں، امرا کے دروازوں پر دستک نہ دے۔ تو کیوں فکر کرتی ہے کہ میرے ارد گرد قحط سالی ہے کیا ہوا کہ آمنہ کا لال یتیم ہے۔ تو یہ کیوں نہیں دیکھتی کہ تیرے بھاگ جاگ گئے ہیں۔ خالق کائنات کا محبوبﷺ تیرے سینے سے لگا ہوا تیرا دودھ چوس رہا ہے۔ ہائف غیبی نے پکارا۔ اے حلیمہ سن! تجھے اگر کوئی بچہ نہیں ملا تو ملال کیوں کرتی ہے۔ جا اور اطمینان قلب کے ساتھ جا۔ دل کے اندر سے نکلنے والی لہروں کے دوش پر جا اور آمنہ کے لالﷺ کو اپنی گود میں اٹھا لے۔

حلیمہؓ ماں اللہ کے محبوبﷺ کے دادا عبدالمطلب کے پاس گئیں۔ عبدالمطلب کو دیکھا تو ان کے دبدبے سے مرعوب ہو گئیں۔ لوگوں سے پوچھا۔ یہ کون بزرگ ہیں؟ کسی نے بتایا کہ مکے کے سردار عبدالمطلب ہیں۔ خدا ترس آدمی ہیں، شریف اور اعلیٰ نسب ہیں۔
حلیمہ کہتی ہیں۔ میرے دل کو قرار آ گیا۔ اور بچے کے نہ ملنے سے مایوسیوں کا اندھیرا میرے اوپر سے چھٹ گیا۔ میں نے عبدالمطلب کو سلام کیا اور عرض کیا۔

 میں آپ کے بچے کو لینے آئی ہوں۔

پوچھا۔  تمہارا نام کیا ہے؟

بولیں۔  میرا نام حلیمہ سعدیہ ہے۔

ننھے محبوبﷺ کے دادا خوش ہوئے اور کہا۔ ‘‘اچھا نام ہے۔ مجھے حلیمی اور سعادت کی مبارک صفات پسند ہیں۔’’

اور دعا کی۔ ‘‘یا اللہ! خاتون حلیمہ کو محمدﷺ کی سعادت سے سرفراز فرما۔’’

حلیمہ کہتی ہیں۔ ‘‘میں جب سیدہ آمنہ کے حضور حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ سیدہ آمنہ کا چہرہ چودھویں کے چاند کی چاندنی کو شرما رہا تھا۔ پیشانی پر نور اور روشنی کی ایک قندیل تھی جس سے روشنیاں نکل کر ماحول کو منور کر رہی تھیں۔

تعارف ہونے کے بعد مبارک و سعید بچے کی مبارک اور سعید ماں مجھے ایک کمرے میں لے گئیں۔ کمرے میں سکون کا سماں تھا۔

انوار و تجلیات کی بارش برس رہی تھی۔ ہر طرف سکون تھا۔ سفید براق کپڑوں میں لپٹے ہوئے ننھے محبوبﷺ سبز رنگ کے نرم و ملائم بستر پر پہلو کے بل سو رہے تھے۔ لگتا تھا کہ چاند آسمان سے زمین پر اتر آیا ہے۔ خوشبو سے کمرہ مہک رہا تھا۔ باریک ململ کا دوپٹہ چہرے پر سے سرکایا تو دل کی کلی کھل گئی، آنکھوں میں چراغاں ہو گیا۔ رنگ رنگ نکھر گیا۔ لگتا تھا کہ لطیف جسم کو چھونے سے میرا جسم بھی لطیف ہو گیا ہے۔ میں نے خود کو آسمان کی وسعتوں میں محو پرواز محسوس کیا۔ میں نے ننھے محبوبﷺ کے سینے پر مامتا بھرا ہاتھ رکھا۔ ہاتھ رکھتے ہیں اس دریتیمﷺ نے آنکھیں کھول دیں۔ مجھے مسکرا کر دیکھا۔ نظروں میں ایک پیغام تھا اور پیغام یہ تھا۔

اے حلیمہ سعید خاتون! میں اللہ کا محبوب قول کرتا ہوں کہ تو میری ماں ہے۔ میں جھکی، تعظیم اور احترام سے جھکی ،میں نے اپنے بیٹے کا ماتھا چوما اور گود میں اٹھا لیا۔ نرم و نازک اور ملائم بیٹے کو گود میں لیا تو دیکھا کہ پوری کائنات سمٹ کر میری بانہوں میں آ گئی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ اچانک میرا خشک سینہ دودھ سے بھر گیا۔ دودھ نے اتنا جوش مارا کہ دودھ ٹپکنا شروع ہو گیا۔ میرے بیٹے نے پیٹ بھر کر دودھ پیا۔ ان کے رضاعی بھائی نے بھی پہلی مرتبہ شکم سیر ہو کر دودھ پیا۔

مائی حلیمہ جب ننھے محبوبﷺ کو لے کر عازم سفر ہوئیں تو سیدہ آمنہ نے دست دعا دراز کئے اور بولیں:

’’اے خدا! اپنے بچے کو تیری حفاظت میں دیتی ہوں۔ ہر قسم کی مصیبتوں، آفتوں، پریشانیوں، بیماریوں سے اسے محفوظ رکھ۔ اے خدا! میرے اس لخت جگر کو نیکی اور بھلائی کا پھیلانے والا بنا دے۔ اے خدا! میری التجا ہے کہ اس بچے پر اپنا سایہ اس طرح ڈال دے کہ تو رب العالمین ہے اور میرا بچہ عالمین کے لئے رحمت بن جائے۔

دائی حلیمہ کہتی ہیں کہ میں نے ننھے محبوبﷺ کو اپنے شوہر کو دکھایا تو اس نے پھول جیسے مکھڑے پر نظریں گاڑ دیں اور حسن و جمال کی اس مرقع اور مرصع تصویر پر فریفتہ ہو گیا۔ کچھ دیر گم سم رہنے کے بعد کہا تو اتنا کہا۔

‘‘حلیمہ! میں نے اتنا خوبصورت بچہ نہیں دیکھا۔’’ حلیمہ گھر پہنچیں تو گھر میں برکتیں داخل ہو گئیں۔ ابر ِکرم نے خوشی کے آنسو بہا کر اس پوری سرزمین کو سرسبز و شاداب اور گل گلزار بنا دیا۔ وہ دائیاں جنہوں نے مکہ کے دولت مند خاندانوں کے بچوں کو لے کر مال و زر کے خواب دیکھے تھے وہ بھی ابر رحمت کے صدقے میں تشنہ کام نہ رہیں۔ سرسبز و شاداب، خنک اور فرحت بخش ہواؤں سے ساری بستی پر کیف نشہ سے جھوم جھوم اٹھی۔

ننھے محبوبﷺ کی عمر چار برس ہوئی تو اپنے بھائی عبداللہ اور بہن شیما کے ساتھ گھر سے باہر آنے جانے لگے۔ محلے کے قریب ایک جگہ جہاں بھیڑ بکریوں کا باڑہ تھا، دو فرشتے آئے اور ننھے محبوبﷺ کا سینہ مبارک چاک کیا، دل باہر نکالا اور اس میں سے ایک سیاہ رنگ قطرہ خون نکال کر پھینک دیا۔ دل کو دھویا اور دھونے کے بعد سینے کو ہموار کر دیا۔

ننھے محبوبﷺ کا بھائی روتا ہوا مائی حلیمہ کے پاس پہنچا اور کہا۔

‘‘اماں جلدی چلو! بھائی محمدﷺ کو دو آدمی قتل کر رہے ہیں۔’’

دائی حلیمہ ہانپتی کانپتی وہاں پہنچیں تو دیکھا کہ ننھے محبوبﷺ کا رنگ پیلا پڑ گیا ہے۔ حلیمہ اور ان کے شوہر نے محبوبﷺ رب العالمین کو گود میں اٹھا لیا اور رخسار چومے اور پوچھا۔

‘‘پیارے بیٹے! تمہارے اوپر ہم دونوں جاں نثار ہوں۔ بتاؤ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے؟’’

ننھے محبوبﷺ نے فرمایا۔

‘‘دو فرشتے آئے۔ انہوں نے میرا پیٹ چاک کیا۔ کوئی چیز ڈھونڈی اور پیٹ میں دوبارہ برابر کر کے چلے گئے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔’’

نور نبوت کا علم اللہ کے جن بندوں کو عطا ہوا ہے وہ اس کی روحانی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

انسان ستر ہزار پرت کا مجموعہ ہے۔ جب اللہ کے قانون کے مطابق کوئی انسان عالم سماوات سے عالم عنصری میں آ تا ہے تو اس کے اوپر ایک پرت ایسا غالب آ جاتا ہے کہ جس میں سر کشی، بغاوت، عدم تعمیل، کفران نعمت، ناشکری، جلد بازی، شک، بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ یہی وہ ارضی زندگی ہے جس کے بارے میں قرآن پاک کہتا ہے کہ پھر پھینک دیا اسفل سافلین میں۔

انبیاء چونکہ نوع انسان کا جوہر ہوتے ہیں ان کے اوپر اللہ کی خصوصی نعمتیں، عنایتیں اور نوازشیں ہوتی ہیں۔ ان میں ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انبیاء کے دل کو اسفل خامیوں سے پاک کر کے دنیاوی لالچ اور حرص و طمع سے بے نیاز کر دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انبیاء کے قلوب ایمان و ایقان، علم و دانش، عرفان و آگہی اور انوار الٰہیہ سے منور ہو جاتے ہیں۔ ہدایت، معرفت، عظمت، اخلاص، رحمت، علم و حکمت اور نبوت کے لئے ان کے دلوں کو کشادہ اور وسیع کر دیا جاتا ہے۔ بچپن کے اس واقعہ کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دوسری روایت کے مطابق اس طرح بیان فرمایا ہے:

‘‘میں دس برس کا تھا کہ میدان میں دو آدمی (ماورائی مخلوق) میرے سر پر آ کھڑے ہوئے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا۔

‘‘کیا یہ وہی ہیں؟’’

دوسرے نے کہا۔ ‘‘ہاں یہ وہی ہیں۔’’

پھر دونوں نے مجھے پیٹھ کے بل بچھاڑ دیا۔ اور میرے پیٹ کو چیرا۔ ان میں سے ایک تو سونے کے طشت میں پانی لاتا رہا اور دوسرا پیٹ کو دھوتا رہا اور پیٹ میں سے جمے ہوئے خون کے دو کالے قطرے نکال ڈالے۔ پھر پیٹ کو برف کے ٹھنڈے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے کہا۔

‘‘تسکین قلب لاؤ۔’’

پھر وہ لا کر میرے سینے پر چھڑک دی اور وہ دونوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میں ڈر گیا اور اپنی رضاعی ماں حلیمہ کے پاس گیا اور ان سے سارا حال بیان کیا۔ وہ ڈر گئیں اور مجھے دعا دی۔ بولیں۔ ‘‘میں تمہیں خدا کی پناہ میں دیتی ہوں۔’’ پھر وہ مجھے اونٹ پر بٹھا کر میری ماں کے پاس مکہ لے گئیں۔ میری والدہ یہ سارا واقعہ سن کر نہ تو ڈریں اور نہ گھبرائیں۔ انہوں نے فرمایا۔ ‘‘جب یہ میرا بچہ محمدﷺ پیدا ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے بدن میں سے ایک نور نکلا اور اس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔’’

حضرت انسؓ کہتے ہیں:

‘‘حضور اقدسﷺ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور ان کو پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور قلب مبارک کو چیرا اور اس کو نکال کر اس میں سے جما ہوا خون الگ کر دیا پھر دل کو طشت میں رکھ کر آب زمزم سے دھو کر اس جگہ پر رکھ دیا اور شگاف شدہ جگہ کو سِی دیا۔

لڑکے بھاگم بھاگ دائی حلیمہ کے پاس پہنچے اور کہا۔ ‘‘محمدﷺ کو قتل کر دیا گیا’’

(خاکم بدہن)

لوگ آپﷺ کے پاس پہنچے تو چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ دائی حلیمہ کا کلیجہ دھک سے رہ گیا کہ یہ کیا غضب ہوا۔ ان کے شوہر کے اوسان بھی جاتے رہے اور شوہر نے کہا۔

‘‘بیوی! مجھے ڈر ہے کہ بچے پر ایسا ویسا اثر نہ ہو گیا ہو اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم محمدﷺ کو ان کے گھر پہنچا دیں۔’’

دائی حلیمہ ننھے محبوبﷺ کو لے کر مکہ پہنچیں، وہاں بھرے بازار اور لوگوں کے ہجوم میں وہ ننھے محبوبﷺ کو نظروں سے اوجھل کر بیٹھیں۔ کہرام مچ گیا، چاروں طرف دوڑتی پھریں۔ کعبے میں آوازیں دیں۔ چیخی چلائیں، تڑپیں، بے قراری کے عالم میں کونہ کونہ چھان مارا۔

محبوبﷺ نہ ملے تو دنیا آنکھوں میں اندھیر ہو گئی۔ آخر تھک ہار کر ان کے دادا کو خبر دی۔ دادا کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ یہ سب بیٹھے بٹھائے کیا افتاد پڑی۔ پھر انہوں نے ڈھونڈا۔ چاروں طرف آدمی دوڑائے، جب کچھ بس نہ چلا تو کعبے کے پاس جا کر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ بھیگی آنکھوں سے صدا لگائی۔

‘‘اے دو جہانوں کے مالک، میرے اور میرے باپ دادا کے پروردگار! مجھے میرا محمدﷺ دے دے۔ اے خدا! ہم پر اپنا فضل و کرم فرما۔ اے خدا! تو نے ہمارے اوپر انعام و اکرام رحمت و شفقت کی بارش برسائی ہے، مجھ سے میرے محمدﷺ کو جدا نہ کر۔  

اے میرے اللہ! تو نے ہی اس کا نام محمدﷺ رکھا ہے تو نے ہی اس کی تعریف کی ہے۔’’

دادا کی خدا کے حضور آہ و زاری قبول ہوئی اور ننھے محبوبﷺ دادا کو مل گئے۔ دادا جان کی بے قراری کو قرار آ گیا۔ ننھے محبوبﷺ کو گود میں لے کر پیار کیا اور کندھے پر بٹھا کر کعبے میں چاروں طرف گھومتے جاتے اور دعائیں کرتے جاتے۔ پھر انہیں ان کی ماں آمنہ کے پاس بھیج دیا۔ سیدہ آمنہ نے اپنے نور نظرﷺ کو گود میں اٹھا لیا اور گلے لگا کر خوب پیار کیا۔ دائی حلیمہ نے بھی محبت سے سرشار ہو کر ننھے محبوبﷺ کی پیشانی چوم لی۔

نور نبوتﷺ کے زیر اثر روحانی علم مشاہداتی علم ہے۔ اس علم کی روشنی میں انسان کی تخلیق کے بنیادی عناصر نور ور روشنی سے مرکب ہیں۔ دنیا چھ سمتوں پر قائم ہے۔ یہ چھ سمتیں روشنی اور نور کے ہالے میں بند ہیں۔ چھ سمتیں دراصل تین یونٹ ہیں اور ہر یونٹ کے دو رخ ہیں۔ روشنی مرکب، روشنی مفرد، روشنی مطلق، نور مرکب، نور مفرد اور نور مطلق۔ اسفل زندگی روشنی مرکب ہے اور اس کا مخزن پیٹ میں ناف کے مقام اور سینے میں قلب کی جگہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ بندے کے اوپر چونکہ تمام نعمتیں پوری کرنا تھیں اور ان کے اوپر دین کی تکمیل کرنا تھی اس لئے اسی عمر میں جب شعور اسفل زندگی کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے اورا سفل زندگی میں دلچسپی لینا شروع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے بھیجے اور ننھے محبوبﷺ کے اسفل خیالات کے پیٹرن کو خالی کر کے اعلیٰ علیین خیالات سے بھر دیا۔

قرآن کہتا ہے۔

انوار الٰہی کے ذریعے محمدﷺ کا سینہ مبارک اطمینان اور سکون سے بھر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے سچائیوں، نیکیوں اور پاکیزہ خیالات کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے سرور قلب عطا فرمایا۔

 (سورۂ نشراح)

تطہیر قلب و جان اور خاص نگہبانی کے ساتھ ننھے محبوبﷺ کی پرورش اور تربیت ہوتی رہی۔ دنیا کے نشیب و فراز سے وقوف حاصل کر کے ننھا محبوب سچائی، پاکیزگی اور یقین کے پیکر کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔

پاکیزگی اور تقدس کی یہ روشن قندیل محمدﷺ اپنے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرز فکر کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تلاش میں غور و فکر کے لئے غار حرا میں تشریف لے گئے۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اس تربیت یافتہ بندے کے پاس آئے اور کہا۔

‘‘پڑھ! اپنے رب کے حکم سے۔’’

رسول اللہﷺ کے حالات زندگی ہمیں اس بات پر تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ایک نبیﷺ اور نبیوں میں خاتم الانبیاءﷺ اور باعث تخلیق کائناتﷺ کی تربیت کا دور بچپن سے شروع ہوا ہے۔ پانچ برس کی عمر میں روح القدس فرشتے کے ذریعے قلب مبارک کی صفائی اس بات کی نشاندہی ہے کہ حضورﷺ کا ہر امتی اس قانون کا پابند ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں اس قانون کا پابند رہ کر اپنی تطہیر اور پاکیزگی قلب کا اہتمام کرے۔ تا کہ اسفل حواس شعوری زندگی پر غالب نہ آئیں اور بچے کے اندر پیغمبرانہ طرز فکر مستحکم طریقے پر منتقل ہو جائے۔

جب ہم پیغمبرانہ طرز فکر پر غور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سورج زمین سے نور کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔ جب کوئی شخص سورج کو دیکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہر آدمی کے اندر نو کروڑ میل دور دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ خاتم النبیینﷺ نے پانچ برس کی عمر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا۔ پھر غار حرا میں مراقبہ فرمایا اور وہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن لے کر نازل ہوئے۔

قرآن پاک کہتا ہے:

ہم نے قرآن کو لیلتہ القدر میں نازل کیا۔ لیلتہ القدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔ اترتے ہیں اس میں ملائکہ اور روح اپنے رب کے حکم سے۔ یہ رات رہتی ہے طلوع فجر تک۔

روحانی قانون کے مطابق لیلتہ القدر میں حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہو جاتی ہے اور جب حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہو جاتی ہے تو نظروں کے سامنے فرشتے اور جبرائیل علیہ السلام آ جاتے ہیں۔

نبی برحقﷺ کی یہ فضیلت ہے کہ عام انسانی حواس کی رفتار سے حضور نبی مکرمﷺ کی ذہنی صلاحیت ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔

آیئے! دعا کریں کہ ہمارے اندر بھی نبیوں کی طرز فکر پیدا ہو اور ہم بھی اپنے آقاﷺ کے نور نبوت سے سرفراز ہو کر اپنی ذہنی رفتار کو تیز کریں تا کہ امتی ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہمارے نبیﷺ کا ورثہ منتقل ہو جائے۔ آمین یا رب العالمین۔

****

Topics


ذات کاعرفان

خواجہ شمس الدین عظیمی

‘‘انتساب’’

اُس ذات

کے
نام
جو عرفان کے بعد

اللہ کو جانتی‘ پہچانتی

اور
دیکھتی ہے