Topics
میں سمجھتی ہوں کہ اللہ میری دعاؤں
کو سنتا ہے اس لئے میں نے جو بھی مانگا ایک حد میں رہ کر مانگا ہے۔ اللہ وہ ہستی
ہے جس نے کن کہہ کر تمام عالم کو تخلیق کر دیا۔ اللہ ایسا بادشاہ ہے کہ اس دنیا
میں اور اس دنیا کے علاوہ تمام دنیاؤں میں اس کے حکم کے بغیر پتہ نہیں ہلتا۔ میں
سوچتی ہوں کہ میری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں۔ اللہ کے خزانے میں تو کسی چیز کی
کمی نہیں ہے۔ ہر وقت اللہ کا نام جپتی رہتی ہوں۔ میں اللہ کے ذکر کے بغیر ایک پل
بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔
عظیمی صاحب! لوگ آپ کو اللہ کا دوست
کہتے ہیں۔ مجھے وہ راستہ بتایئے کہ اللہ میری بات کا جواب دے۔ میں اس کی بندی ہوں
اس کا در چھوڑ کر آخر کہاں جاؤں؟
جواب: اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر
کرنے سے بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا
واقعہ پڑھیں اور اس کی حکمت پر غور کریں، سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غار
حرا کی سنت پر عمل کریں۔ اللہ مخلوق کی رگ جان سے زیادہ قریب ہے۔ پہلے اپنی جان کے
بارے میں تفکر کریں کہ جان کیا ہے، کہاں ہے، کس طرح اس کا سراغ مل سکتا ہے۔ جب
بندہ خود کو پہچان لیتا ہے تو رب کو پہچان لیتا ہے۔ اللہ کو ازل میں روح دیکھ چکی
ہے۔ اللہ کو مادی آنکھ سے نہیں روح کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور روح کے کانوں سے
اللہ کی آواز سنی جاتی ہے۔ روح کے دل سے اللہ کی تصدیق کی جاتی ہے۔ یوم ازل اللہ
نے جب روحوں کو مخاطب کر کے کہا۔
‘‘میں تمہارا رب ہوں’’ تو روح کے
کانوں نے آواز سنی۔ روح کی آنکھوں نے اللہ کی تجلی کا دیدار کیا۔ دل نے اقرار کیا
اور روحوں نے کہا:
‘‘جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔’’
اپنی روح سے متعارف ہونے کے لئے اپنے
اندر جھانکئے۔ اس روح سے تعارف حاصل کیجئے جس کے بغیر آپ کھانا کھا سکتی ہیں نہ
پانی پی سکتی ہیں اور جس کے بغیر آپ حرکت نہیں کر سکتیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘میں تمہارے اندر ہوں تم مجھے
دیکھتے کیوں نہیں؟’’
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے