Topics

روحانیت کا راز



میں آپ سے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹ اور بیٹھ کر سینکڑوں میل کا دورہ کیا ہے۔ میں جب پہاڑوں میں گیا تو میں نے اونچے اونچے درخت دیکھے۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ درخت اوپر ہی کیوں جاتے ہیں، نیچے کیوں نہیں پھیلتے۔ جب میں نے اس بات پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ آدمی بھی تو اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک آدمی چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے۔ بیٹھ بھی نہیں سکتا، لیٹا ہی رہتا ہے۔ پھر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ بیٹھنا بھی اس بات کی علامت ہے کہ وہ اوپر کو بڑھ رہا ہے۔ پھر وہ جوانی میں آ جاتا ہے۔ دو فٹ کا بچہ پونے چھ فٹ کا ہو جاتا ہے۔

یا الٰہی! ہر چیز اوپر کی طرف کیوں بڑھ رہی ہے۔ اوپر ہی کیوں جا رہی ہے؟ زمین تو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ آپ سے بھی میں درخواست کرتا ہوں کہ یہ مسئلہ حل کریں۔ ہر شئے آدمی، درخت، مکان، پلازہ یہ سب اوپر ہی اوپر کیوں جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟
آپ بھی غور کریں میں بھی تفکر کرتا ہوں۔

پانی کا نیچر یہ ہے کہ وہ نشیب میں بہتا ہے لیکن درخت کے تنے میں وہ اوپر ہی اوپر چلتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ۸۰ فٹ کے ناریل کے درخت پر پیالوں میں جمع ہو کر لٹک جاتا ہے، ہم زمین کھودتے ہیں تو ہمیں وہاں پر کوئی پسٹن پمپ نظر نہیں آتا لیکن پانی چشمہ میں اوپر کی طرف ابل رہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں زمین کھینچ رہی ہے تو زمین کے کھینچنے کا مطلب تو یہ ہے کہ زمین نے جڑپکڑی ہوئی ہیں۔ درخت کی تو جڑیں زمین کے اندر ہیں مگر دس فٹ، بیس فٹ، پچاس فٹ، اسی فٹ کا درخت آسمان سے باتیں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ زمین میں تین چار فٹ تک جڑیں ہوتی ہیں اور درخت کا قد اسی فٹ سے زیادہ ہو جاتا ہے۔

کشش ثقل کا یہ فارمولا کہ زمین اپنی طرف کھینچ رہی ہے اپنی جگہ مسلم۔۔۔۔۔۔لیکن درخت اوپر ہی اوپر کیوں جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔؟
سائنسی علوم کی طالبات، طلباء اور پڑھے لکھے لوگوں سے عاجزی کے ساتھ درخواست ہے کہ اس سوال پر غور کریں۔خود میں نے زیادہ سوچ بچار کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے ذہن میں قرآن پاک کی یہ آیت آئی:


’’چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات ایسی نہیں ہے قرآن نے جس کی وضاحت نہ کی ہو‘‘۔

(سورۃ القمر۔ آیت 53)

قرآن کریم ایک مکمل دستاویز ہے اس کتاب میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ہر بات وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بیان کر دی ہے۔ اس آیت کو پڑھ کر میں نے اس مسئلہ پر غور کیا کہ ہر چیز اوپر ہی اوپر کیوں جا رہی ہے؟۔۔۔۔۔۔

کشش ثقل ہونے کے باوجود جڑیں پچاس فٹ اندر کیوں نہیں جاتیں۔ تین چار فٹ جڑوں پر قائم درخت اسّی فٹ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے میرے ذہن میں ایک اور آیت آئی:

قالو اناللّٰہ وانا الیہ راجعون

(سورۃ البقرہ۔ آیت 156)

ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔۔۔۔۔۔نزول کا ذکر ہے۔ زمین کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے۔۔۔۔۔۔بلندی کا ذکر ہے، آسمان کا ذکر ہے، عرش و کرسی کا ذکر ہے۔
اب آپ یہ غور کریں کہ زمین پر جو چیز بھی نازل ہو گی، بچے کا پیدا ہونا بھی زمین پر نزول ہے، اس کا رخ صعود کی طرف ہے۔ بچہ بڑا ہو رہا ہے۔ آسمان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ درخت بھی بڑا ہو رہا ہے۔

ہر چیز جو نزول کر رہی ہے وہ صعود کر رہی ہے۔ یہ بات بھی روحانی طلباء و طلبات کو معلوم ہے کہ مرنے کے بعد آدمی اعراف میں چلا جاتا ہے۔ اعراف بھی بلند مقام ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کی زندگی نزول و صعود ہے۔ وہ نزول کرتا ہے۔ زمین پر نازل ہوتا ہے اور عالم بالا میں صعود کر جاتا ہے۔ کوئی آدمی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ جو چیز زمین پر نازل ہو گئی وہ ہر حال میں صعود کرتی ہے۔۔۔۔۔۔؟
میرے بچو! میرے شاگردو! میرے دوستو اور بزرگوں! انسان کیا ہے؟

انسان اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے وہ نزول و صعود میں زندگی بسر کر رہا ہے۔

جب ساری زندگی رجوع الٰی اللہ ہے تو ہمارا کام تو بہت آسان ہو گیا ہے۔ صرف ہمیں اتنا سوچنا ہے کہ پیدائش کے بعد ہمارا رخ ہر لمحہ ہر آن اللہ تعالیٰ کی طرف ہو اگر ہم اس بات کو سمجھ لیں، اس بات کو بار بار دہرائیں تو ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔
روحانیت کا ایک اصول ہے۔ اگر روحانیت کا کوئی راز آپ کو معلوم ہو جائے تو اس راز کو جتنا زیادہ آپ دہرائیں گے اسی مناسبت سے آپ کی روحانی صلاحیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو خوش رکھے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو صحت و تندرستی عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک میں، ہمارے شہر میں امن و امان قائم رکھے۔ یہ نہ سمجھیں کہ محض تفریح طبع کے لئے کوئی نئی بات سننے کو مل گئی ہے۔ اپنے اندر گہرائی پیدا کرنے کے لئے اپنے من کو شانت کرنے کے لئے تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ مجھے آپ کو، میری قوم اور ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)




وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!