Topics

رنگ برنگ


یہ مرکزی مراقبہ ہال ہے۔ بدھ کا دن گزر گیا۔ جمعرات کی شب نے شیفون کا سیاہ دوپٹہ اوڑھ لیا ہے۔ ہوا بند ہے۔ سخت حبس میں مچھروں کی یلغار ہے۔ کھلے آسمان پر اُفق سے چاند نمودار ہو رہا ہے۔ چند دوست زمین پر بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔ گفتگو کا محور مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ ہیں۔ بات سے بات نکلتی چلی گئی، گھنٹوں کا وقفہ منٹوں میں گزر گیا۔ اتنے میں چاند نے اپنی چاندنی سے پوری فضاء کو اس طرح منور کر دیا کہ اندھیرے کا احساس ختم ہو گیا۔ میٹھی ٹھنڈی چاندنی میں ذوقِ شاعری نے ہاتھ پیر نکالے۔ چاندنی نے پھولوں کی پنکھڑیوں میں سے چھن چھن کر مخملی سبز لان پر نقش و نگار بنا دیئے۔ آسمان پر ستاروں کی ایک انجمن نے چاند کو خوش آمدید کہا۔ چاند کے ارد گرد ستاروں کے سائے مرکری سفید دھند کی طرح چھا گئے اور اس دھند نے آنکھوں کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ چاندنی نے اس طرح مست و بے خود کر دیا کہ خود فراموشی غالب آ گئی۔ مستی و سرور نے آنکھوں کو بوجھل کر دیا اور وجود ساکت ہو گیا۔اس وقت رات کے دو بجے ہیں۔ خُنک ہوا چل پڑی ہے۔ مراقبہ ہال میں کھلے ہوئے پھولوں میں سے خوشبو نے دماغ معطر کر دیا ہے۔ ٹھنڈی ہوا جسم میں چبھنے لگی تو دوست احباب اٹھ گئے۔ میں نے چادر اوڑھ لی۔

آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں۔ پہلا خیال یہ آیا کہ اللہ کتنا خوبصورت ہے جس نے زمین پر خوبصورتی بکھیر دی ہے۔ جس نے آسمان کو چاند جیسی دلہن اور ستاروں جیسی دلہن کی سہیلیوں سے زینت بخشی ہے۔

اللہ کتنا خوبصورت ہے جس نے زمین بچھا دی ہے اور زمین کو اتنا نرم نہیں بنا دیا کہ مخلوق کے پیر دھنس جائیں نہ اتنا سخت بنایا ہے کہ اس پر نہ چل سکے۔ لمبے، طویل، چھتری کی طرح گول درخت اُگا دیئے۔ درخت کی شاخوں پر پھل لٹکا دیئے۔ حسین و جمیل رنگ رنگ پھول زمین کی ردا پر ٹانک دیئے۔ گھاس کو مخملی فرش بنا دیا۔

اللہ کتنا خوبصورت ہے کہ زمین کی شریانوں میں پانی دوڑایا۔ ایک پانی سے اَربوں کھربوں چیزوں کو وجود بخش دیا۔ پانی کو یہ صلاحیت عطا کر دی کہ جہاں بھی جائے اپنا مظاہرہ شئے کے روپ میں کرے۔۔۔۔۔۔کیلے کے درخت میں قیام کرے تو میٹھی نرم قفلی بن جائے۔۔۔۔۔۔انار کا میزبان بنے تو ہزاروں دانوں میں نا صرف خود کی نفی کر دے بلکہ انگار کا رنگ بھی اپنا لے۔۔۔۔۔۔کھجور کو اپنا مسکن بنائے تو میٹھا ہو جائے۔۔۔۔۔۔املی کو اپنا مستقر ٹھہرائے تو کھٹا ہو جائے۔۔۔۔۔۔کڑواہٹ کی ڈائی میں کڑوا بن جائے۔۔۔۔۔۔زقوم میں ٹھہر جائے تو زہر بن جائے۔۔۔۔۔۔!

اللہ کتنا خوبصورت ہے کہ اس نے گنتی سے زیادہ Diesبنا دی ہیں۔ ہر ڈائی اپنا وجود مقررہ مقداروں کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہے۔ کسی طرح مقدار سے انحراف نہیں کرتی۔ گندم کی ڈائی گندم نکالتی ہے۔ تربوز کی ڈائی میں سے تربوز نمودار ہوتا ہے۔ آدمی کی ڈائی میں سے آدمی برآمد ہوتا ہے۔

اللہ کتنا خوبصورت ہے کہ کوئی ڈائی دوسری ڈائی سے نہ انحراف کرتی ہے اور نہ اپنا تشخص ختم کرتی ہے۔ پانی میں سے مونگا اور موتی پیدا کر دیتا ہے۔ دو دریاؤں کو ایک ساتھ اس طرح چلاتا ہے کہ دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں مگر ملتے نہیں۔ ایک دوسرے کی حد میں داخل نہیں ہوتے۔ کالا پانی، سفید پانی ایک سطح پر بہتا ہے۔ کالے میں سفید اور سفید میں کالے پانی کا ایک قطرہ بھی شامل نہیں ہوتا۔
اللہ کتنا خوبصورت ہے انسان کو، حیوانات کو، حشرات الارض کو باہر دیکھنے کیلئے آنکھ عطا کی۔ آنکھ نہ ہوتی تو ساری دنیا اندھیر ہو جاتی۔ آنکھ ہر جسم کی دوربین ہے جو باہر کے عکس کو دماغ میں منتقل کرتی رہتی ہے۔ آنکھ آنسوؤں سے تَر رہتی ہے۔ اگر گرد و غبار کا کوئی ذرہ آنکھ میں پہنچ جائے تو آنسوؤں سے دھل کر باہر نکل جاتا ہے۔

اللہ کتنا خوبصورت ہے جس نے آنکھ کو جسم کیلئے کیمرہ بنا دیا ہے۔ سامنے ایک لینس(Lense)ہوتا ہے۔ پیچھے ایک اسکرین ہوتی ہے جس پر روشنی کا عکس پڑنے سے تصویر بن جاتی ہے۔

اللہ کتنا خوبصورت ہے کہ اس نے زندگی دی۔ جس کے تمام حصے باقاعدگی اور توازن کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں۔ کوئی عضو، دوسرے عضو کے کام میں خلل نہیں ڈالتا۔۔۔۔۔۔ہر عضو دوسرے کی مدد کرتا ہے۔ جسم کی مشین ترتیب، توازن اور معین حرکت کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ نیند میں بھی بدن کے ضروری کام جاری رہتے ہیں۔ بے ہوشی میں بھی زندگی جسم میں دوڑتی رہتی ہے۔
اللہ کتنا خوبصورت اور عظیم ہے کہ بھوک ہمیں اس وقت لگتی ہے جب غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیاس اس وقت لگتی ہے جب جسم کو سیرابی کی ضرورت ہو ۔ دسترخوان پر کھانوں میں ہم اپنی پسند کے کھانے کھاتے ہیں اور مُضر چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔
اللہ کتنا خوبصورت ہے اس نے ہمیں دماغ دیا۔ جسم کی سلطنت پر حکمران بنایا۔ جو ایک نہایت مدبر، عادل بادشاہ کی طرح اپنی رعایا (اعضاء) کو حکم بھی دیتا ہے اور کنٹرول بھی کرتا ہے۔

دماغ نہ صرف نقل و حمل کے احکامات صادر کرتا ہے بلکہ اس کی ہدایت پر ہر کوئی بولتا، چھوتا اور پکڑتا ہے۔ دُکھ، سُکھ، گرمی، سردی کا احساس کرتا ہے۔ دماغ ہمارے ماضی کا اسٹور ہے، دستاویز ہے۔ مائیکروفلم ہے، جس میں سے ہم جو چاہتے ہیں برآمد کر لیتے ہیں۔ انسان کا دماغ تمام جانداروں میں وزنی اور ترقی یافتہ ہے۔ اسی لئے انسان تمام جانداروں میں عقلی اور علمی اعتبار سے ممتاز ہے۔
اللہ کتنا خوبصورت مہربان اور رحیم ہے کہ اس نے دماغ کے ذیلی کارکنان(اعضاء) کو ہمارے جسم میں کام کرنے کے لئے مستعد کر دیا ہے۔
میڈیکل سائنس کے پیش نظر ایک عضو کی قیمت کی مناسبت سے ہر انسان پر کروڑوں روپے روزانہ خرچ ہو رہے ہیں جبکہ یہ پوری سروس مفت فراہم کی جا رہی ہے۔

اللہ کتنا خوبصورت، ستارالعیوب اور غفارالذنوب ہے کہ اس نے ہر عیب کو چھپا لیا ہے اور ہر غلطی کو معاف کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔پردہ ہٹ جائے گا تو کیا ہو گا؟

ہر آدمی دوسرے آدمی کے سامنے بے پردہ اور ننگا ہو جائے گا۔ ہر شخص دوسرے شخص کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ میں یہ سب سوچتے سوچتے مراقبہ میں چلا گیا۔

دیکھا کہ

ہڈیوں کا پنجرہ ہوں۔ ہڈیوں کے صندوق نما پنجرے میں بہت سارے خانے میں بہت سارے اعضاء ہیں۔ ہر عضو اپنے اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔

میں نے دیکھا کہ میں

ہر خانے میں سے گزر کر دماغ میں اُتر گیا ہوں۔ دماغ میں چھوٹے چھوٹے کھربوں خانے ہیں۔ ہر خانے میں اللہ کی رسی کی  ایک صفت جلوہ گر ہے:
کان میں آواز آئی!

اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق کیا ہے۔ اپنی صورت پر تخلیق کیا ہے کا مطلب یہ سمجھ میں آیا کہ آدمی کے تخلیقی فارمولےEquationدراصل اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔

مجھے شوق ہوا کہ میں اپنی تخلیقی صفات دیکھوں۔ اور یہاں سے وہ صلاحیت اُٹھا لوں جو آسمانوں میں پرواز کراتی ہے۔ میں نے تخلیقی پرواز کی صلاحیت کو چھوا بھی نہیں تھا کہ صلاحیت گویا ہوئی۔

آسمانوں اور زمین پر اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈنے والے دوست اللہ تعالیٰ تو بندے کے اندر ہے۔میں نے کہا یہ اندر ہی تو ہے جس میں اس وقت میں چل پھر رہا ہوں۔ بارہ کھرب خلیوں میں سے ایک خلیہ گویا ہوا۔ اس اندر کے اندر ایک اور اندر ہے جو دراصل تیرا Innerہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ ملے گا۔

مجھے احساس ہوا کہ میں صدیوں پیچھے ماضی میں چلا گیا ہوں۔ ماضی کے ریکارڈ میں دیکھا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ عرش پر گھوم پھر رہے ہیں۔ انہوں نے فرشتوں کو اس حال میں دیکھا کہ ایک گروہ سجدے میں ہے، دوسرا گروہ قیام میں ہے اور تیسرا گروہ رکوع میں ہے۔

حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا:

اے فرشتوں! مجھے اللہ تعالیٰ کی تلاش ہے سنا تھا اللہ تعالیٰ عرش پر رہتے ہیں۔ تم جو سجدہ کر رہے ہو بتاؤ اللہ تعالیٰ کہاں ہیں؟
فرشتوں نے جواب دیا:

’’ہمیں آواز آئی ہے! اس وقت ہم بایزید رحمتہ اللہ علیہ کے دل میں ہیں۔‘‘

میں سراسیمگی کے عالم میں بہت تیزی کے ساتھ دماغ میں سے نکل کر دل میں آ گیا۔ دل کو جو خون کا لوتھڑا ہے۔۔۔۔۔۔دیکھا دل ایک مٹھی بھر گوشت کا لوتھڑا ہے مگر اتنا مستعد اور باہمت ہے کہ ایک منٹ میں ستر بہتر بار سکڑتا پھیلتا ہے اور عمر بھر اپنی ڈیوٹی کرتا ہے۔ جسم کو زندگی(خون) پہنچاتا رہتا ہے۔ زندگی کا ضامن ہے۔ ناپاک ملاوٹ دار سیاہی مائل خون پھیپھڑوں کو منتقل کرتا ہے اور پھیپھڑوں کے ذریعے صاف شدہ خون حاصل کر کے وریدوں شریانوں سے گزارتا رہتا ہے۔ میں نے دل میں وہ سب دیکھا جو میڈیکل سائنس نے ہمیں بتایا ہے مگر جب وہاں اللہ نظر نہیں آیا تو میں اداس ہو گیا۔۔۔۔۔۔ایک دم جھماکہ ہوا دل کے اندر ایک اور دل دیکھا جو گوشت کے لوتھڑے کی طرح تو تھا مگر نور کا بنا ہوا تھا۔ نور کے اس دل میں ایک سیڑھی دیکھی جو اوپر سے نیچے تھی۔ اس سیڑھی میں بائیس خانے دیکھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

میں جلدی جلدی سیڑھی سے نیچے اترتا چلا گیا۔ ہر خانے میں ایک کائنات دیکھی۔ بالآخر اکیسویں خانے سے نیچے اترا تو میرے اوپر نیند غالب آ گئی۔ پتہ نہیں میں بے ہوش ہو گیا یا میرے اوپر سکتہ طاری ہو گیا تھا میں اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔صبح دم جب دروازۂ خاور کھلا۔ شعور بحال ہو گیا۔ آنکھیں کھلیں تو محسوس ہوا میں نشے میں ہوں، پتلیوں پر سرور کے ہزار ہا خوش نما بالے بنتے پھیلتے نظر آئے۔ دماغ میں صوتِ سرمدی گونجی۔

اللہ کتنا خوبصورت ہے!

درخت کا ہر پتا، زمین پر پھول، فضا میں اُڑتے پنچھی، باغوں میں مور پنکھ، کوئل، قمریاں، ہر وہ چیز جو رنگین ہے اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی کا عکس ہے۔

اللہ تعالیٰ اتنے خوبصورت ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود کہتے ہیں:

’’اور بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اُس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں، ان میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں‘‘۔

(سورۃ النحل۔ آیت 13)


وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!