Topics
انسان
کی مجموعی زندگی پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ زندگی کی ساری طرزیں
اور زندگی کو رواں دواں کرنے والے سارے تقاضے تمام احساسات و کیفیات اطلاعات پر
قائم ہیں۔ کہیں ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ سردی ہے۔ کہیں ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ گرمی
ہے، بھوک پیاس، تکلیف، خوشی، محبت، نفرت، رحم، ظلم اور زندگی میں کام آنے والے
سارے کے سارے تقاضے اطلاعات کے اوپر قائم ہیں۔
جب
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ زندگی اطلاعات کا مجموعہ ہے تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ
اطلاعات کا منبع کیا ہے؟
دوسری
بات یہ غور طلب ہے کہ اطلاع کس جگہ آ کر ٹھہرتی ہے اور ریسیونگ اسٹیشن جو اطلاعات
قبول کرتا ہے، کہاں واقع ہے؟
تیسری
بات یہ ہے کہ اطلاعات میں معانی پہنانے والی ایجنسی کون سی ہے؟
چوتھی
بات یہ تحقیق طلب ہے کہ اطلاعات کو معانی پہنانے کے بعد مظاہرات کس مشین پر چھپ
رہے ہیں؟
پانچویں
بات یہ ہے کہ اس چھپائی میں جو مادہ کام کر رہا ہے وہ کیا ہے؟
اور
چھٹی بات یہ ہے کہ اطلاعات مختلف مراحل سے گزر کر جب مظہر بن جاتی ہیں تو وہ کہاں
نیست و نابود ہو جاتی ہیں؟
روحانی
علوم کی پہلی کتاب میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گوشت پوست سے مرکب
اور رگوں پٹھوں سے بنا ہوا پتلا اصل انسان نہیں ہے بلکہ گوشت پوست کا جسم اصل
انسان کا لباس ہے۔ جس طرح گوشت پوست کی حفاظت کے لئے ہم اون کا، کھال کا روئی یا
دوسری چیزوں کا لباس پہنتے ہیں۔
اسی
طرح اصل انسان (ہماری روح) گوشت پوست کا لباس بناتا ہے۔ گوشت پوست کا جسم محض ایک
لباس ہے اور جس ہستی کو اللہ کریم نے انسان کہا ہے۔ اسے عرف عام میں روح کا نام
دیا گیا ہے۔ قاعدے اور قانون کے مطابق اگر کوئی بندہ روحانی علوم سیکھنا چاہتا ہے
تو اس کے اندر یہ یقین راسخ ہونا ضروری ہے کہ گوشت پوست کا جسم مفروضہ اور فکشن
ہے۔ جب یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے فکشن ہے، فنا ہونے
والا ہے تو قدری طور پر مفروضہ حواس سے ذہن دور ہونے لگتا ہے اور جب مفروضہ زندگی
سے ذہن پلٹتا ہے تو حقیقت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ حقیقت اور مفروضہ
دونوں چیزیں ایک مرکز پر جمع نہیں ہوتیں۔ مفروضہ حواس اور مفروضہ چیزیں بدلتی رہتی
ہیں، ٹوٹتی اور بکھرتی رہتی ہیں۔ فنا ہوتی رہتی ہیں لیکن حقیقت نہ بدلتی ہے، نہ
ٹوٹتی ہے، نہ بکھرتی ہے اور نہ فنا ہوتی ہے۔ حقیقت جو قائم بالذات ہے، حقیقت جو
اپنے مرکز پر مستقل طور پر رواں دواں ہے۔ اس انسان کی تلاش سے سامنے آتی ہے جس کو
قرآن نے روح کہا ہے۔ مگر روح کے بھی مدارج ہیں۔ لا علمی کی بنا پر روح کو بھی ایک
ایسا ہی آدمی یا انسان سمجھا جاتا ہے جیسے گوشت پوست کا انسان۔ ہم دیکھتے ہیں کہ
روح ایک ایسی حقیقت ہے جو جز لا تجزاء ہے جو اپنی ذات کے ساتھ وابستہ اور پیوست ہے
اور قائم ہے۔ روح کی اپنی ایک صفت ہے۔ وہ یہ کہ روح ہر آن ہر لمحہ متحرک رہتی ہے
اور قائم بالذات رہتے ہوئے طرح طرح کے روپ میں مظہر بنتی رہتی ہے۔ روح کا ایک بڑا
وصف یہ ہے کہ مفروضہ اور فکشن حواس میں کبھی سامنے نہیں آتی البتہ مفروضہ اور فکشن
حواس کو اپنے لئے لباس کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ لیکن چونکہ ہر لمحہ ہر آن متحرک
رہنا اس کا ایک وصف ہے اس لئے وہ کبھی انسانی لباس میں جلوہ گر ہوتی ہے، کبھی بکری
کے لباس میں، کبھی جنات کے لباس میں اور کبھی فرشتوں کے لباس میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
روحانی
سائنسدانوں نے زمین پر تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار نوعوں کی نشاندہی کی ہے اور ہر
نوع روح کا ایک جزو ہے۔ روح کی ایک تعریف یہ ہے کہ ایک طرف نوعی لباس اپنے لئے
منتخب کرتی ہے اور دوسری طرف اس نوع کے افراد کی حیثیت میں مختلف لباس اختراع کرتی
رہتی ہے۔ روح کی اس کارکردگی کو جاننے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ روح کا نوعی لباس
نیگیٹیو ہے اور نوعوں کے افراد اس نیگیٹیو کا Positiveہیں۔
یہ عجیب و غریب نظام ہے کہ روح نوع لباس اور نوع کے افراد کا لباس بناتی رہتی ہے
اور یہ لباس سوت اور اون کے لباسوں کی طرح خستہ ہوتے رہتے ہیں۔ اس کو سمجھنا کوئی
زیادہ مشکل بات نہیں ہے۔
اصل انسان یا روح جب لباس کی ابتدا کرتی ہے تو
لباس ہمیں ایک خوبصورت نرم و نازک اور معصوم صورت بچہ میں نظر آتا ہے۔ اور پھر یہ
لباس ہر آن اور ہر لمحہ بدلتا رہتا ہے۔ ہر آن ایک لباس اترتا ہے اور ایک لباس بنتا
ہے۔ لباس کے اترنے اور بننے میں لباس میں تغیر واقع ہوتا ہے کہیں سیاہی بڑھ جاتی
ہے، کہیں سیاہی گھٹ جاتی ہے، تصویر ایک ہے مشین بھی ایک ہے، چھپائی بھی ایک ہے
لیکن ہر تصویر کے Impressionمیں
کچھ نہ کچھ فرق پڑ جاتا ہے۔
بتدریج
لباس تبدیل ہوتے ہوتے اس حال کو پہنچ جاتا ہے کہ اس میں مزید کوئی سکت باقی نہیں
رہتی۔ اور یہ لباس ختم ہو جاتا ہے، سکت نہ رہنے کو ہم بڑھاپے کے نام سے یاد کرتے
ہیں۔ یہ قانون اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ بات پوری طرح سامنے آ جائے اور ہم سمجھ
لیں کہ روح ہر آن ہر لمحہ متحرک رہتی ہے۔ اور ہر آن اور ہر لمحہ کی حرکت دراصل روح
کا ایک لباس ہے۔ یہی لباس ہمیں مظاہراتی طور پر شکل و صورت میں نظر آتا ہے۔