Topics

تخلیقی نظام

اللہ نے بحیثیت خالق کے اپنے بندوں کو ایسا علم عطا کیا ہے کہ بندے کے اندر تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہو گئی ہیں۔ اللہ نے اپنی ذات مبارک کے لئے احسن الخالقین (تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق) کا لفظ بیان فرمایا ہے۔ یعنی اللہ نے تخلیقی اختیارات اپنے علاوہ آدم کو بھی تفویض کر دیئے ہیں۔ تخلیق کرنے والی ہستی اس بات پر قدرت رکھتی ہے کہ وہ اپنی منشا اور مرضی کے مطابق جب چاہے کسی شئے کو وجود میں لے آئے۔ جب اس کا دل چاہے روک دے۔ جب اس کے مزاج کے لئے کوئی بات ناگوار گزرے تو اس چیز کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دے۔ یہی اختیارات اللہ نے آدم کو بھی دیئے ہیں۔ آدم اپنی تخلیق سے نوع انسانی کو فائدہ بھی پہنچا سکتا ہے اور نوع انسانی اس کی تخلیق (ایجادات) سے تباہ و برباد بھی ہو سکتی ہے۔ آج کے دور میں ان باتوں کو سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ ریڈیو ایک ایجاد یا تخلیق ہے۔ ہر ریڈیو کی اپنی ایک طاقت ہے اس کا نام میڈیم ویو، شارٹ ویو ،یا فریکوئنسی ہے، نام کچھ بھی ہو بہرحال وہ طاقت ان پرزوں کے اوپر منحصر ہے جو ریڈیو کے اندر نصب ہیں۔ اس طرح ٹی وی ہے اس کے اندر بھی چینل کام کرتا ہے اور اس کی طاقت کا دارومدار ان مقداروں(لہروں) پر ہے جس کا نام چینل رکھا گیا ہے۔ ایٹم بم کے اندر بھی طاقت کا ایک ذخیرہ ہے۔ ایٹم بم میں موجود یورینیم کے الیکٹران میں کمی یا زیادتی کر دی جائے تو بہت قوی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس توانائی سے پوری پوری آبادیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ دوسرا ہائیڈروجن بم جس کے پھٹنے سے لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں۔ غور و فکر کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایٹم بم بجائے خود ایک طاقت ہے اور اس طاقت کی مقداروں کو کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔

صحت مند آدمی زیادہ کام کرتا ہے۔ زیادہ دوڑ سکتا ہے اور حرکات و سکنات میں چستی اور جوانمردی کا بہتر طریقے پر مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس بیمار، ضعیف و ناتواں آدمی کی چال میں، گفتگو میں، حرکات و سکنات میں نمایاں کمی نظر آتی ہے۔ بات وہی ہے کہ صحت مند اور جواں مرد کے اندر صحت کی معین مقداریں اپنی صحیح حیثیت میں متحرک ہوتی ہیں اور بیمارآدمی کے اندر صحت کی مقداریں کمزور، ٹوٹی ہوئی اور بکھری ہوئی ہوتی ہیں۔

ہمارے سامنے دو آدمی ہیں۔ ایک آدمی ذہین ہے ایک آدمی سیدھا سادہ ہے۔ ذہین آدمی کے اندر عقل و شعور کی مقداریں زیادہ کام کر رہی ہیں۔ سیدھے سادے آدمی کے اندر عقل و شعور کی مقداریں کم کام کر رہی ہیں اس لئے وہ سیدھا سادہ ہے۔ اسی طرح دو آدمی ہمارے سامنے اور ہیں۔ ایک نارمل ہے اور دوسرے آدمی کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ یہ پاگل ہے۔ مخبوط الحواس ہے۔ زندگی کے تقاضے پورے کرنے والی معین مقداریں اور وہ مقداریں جو آدمی کے اندر حواس بناتی ہیں اگر صحیح طریقے پر متحرک ہیں تو ایسا آدمی عقلمند کہلاتا ہے۔ صحیح مقداریں غیر متوازن ہو جائیں تو ایسا آدمی کم عقل ہوتا ہے۔

ہمیں پیاس لگتی ہے یعنی ہمارے اندر تخلیقی نظام اطلاع دیتا ہے کہ اب جسمانی نظام کو پانی کی ضرورت ہے۔ اعتدال پسند آدمی اتنا پانی استعمال کرتا ہے جتنے پانی کی ہمارے جسمانی نظام کو ضرورت ہے۔ غیر اعتدال پسند آدمی اتنا پانی استعمال کرتا ہے کہ پیٹ پھول جاتا ہے۔ اس کی ایک طبعی شکل یہ بنتی ہے کہ پیاس کا احساس جن معین مقداروں پر قائم ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے اور جس وقت آدمی طبعی طور پر غیر متوازن ہو جاتا ہے۔ پیاس کا احساس بھی ایب نارمل ہو جاتا ہے۔ استسقاء کا مریض پانی پینا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ جاتا ہے اور وہ مر جاتا ہے۔ آدمی کو بھوک لگتی ہے، اعتدال میں کھانا کھاتا ہے تو آدمی کی جسمانی زندگی کی نشوونما ہوتی ہے لیکن اگر بھوک کا یہی تقاضا اپنی معین مقداروں پر قائم نہ رہے تو آدمی کھانا کھانے سے بیمار ہو جاتا ہے۔ یا کھانا کھانے سے ضعیف اور ناتواں ہو جاتا ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ آدمی میں جو حرکت ہے ، زندگی میں جتنے رخ ہیں اورزندگی جن خدوخال پر رواں دواں ہے وہ دنیاوی زندگی ہو یا اس دنیا کی زندگی ہو جسے غیب کی دنیا کہا جاتا ہے۔ مقداروں پر قائم ہے۔ جب تک مقداریں قائم ہیں زندگی، زندگی ہے اور جب ان مقداروں میں رد و بدل ہوتا ہے یا زیادتی ہوتی ہے یا کمی ہوتی ہے حرکت میں فرق آ جاتا ہے تو زندگی میں ایسا شگاف پڑ جاتا ہے کہ بظاہر آدمی زندہ نظر آتا ہے لیکن باطن میں وہ آدمی کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ زندوں میں اس کو شمار کیا جاتا ہے اور نہ اس کا شمار مردوں میں ہوتا ہے۔

تسخیر کائنات کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں تخلیق کے وہ فارمولے معلوم ہوں جن کے اوپر یہ تخلیق قائم اور متحرک ہے باحواس وبا شعور ہے۔

قانون:

زندگی کا ہر تقاضا معین مقداروں سے مرکب ہے اور یہ معین مقداریں ہی تقاضے تخلیق کرتی ہیں۔ زندگی کا کوئی تقاضا فارمولوں کے بغیر قائم نہیں ہے۔

اللہ کریم نے ہماری تخلیق فارمولوں سے کی ہے اور انہی فارمولوں کو ہم دانستہ یا نادانستہ متحرک کر لیتے ہیں تو نئی نئی ایجادات اور تخلیقات وجود میں آ جاتی ہیں۔

چونکہ آدمی بجائے خود ایک فارمولا ہے۔ اس لئے فارمولے کے اندر وہ تخلیقی عناصر جنہوں نے فارمولے کو زندگی بخشی ہے متحرک ہیں۔ آدمی چونکہ ایک تخلیقی فارمولا ہے اور اسے تخلیقی فارمولوں کا علم بھی دیا گیا ہے۔ اس لئے وہ ان فارمولوں کا علم سیکھ لیتا ہے جن فارمولوں سے فرشتوں کی تخلیق ہوتی ہے اور جن فارمولوں سے جنت بنائی گئی ہے اور جن مقداروں (فارمولوں) پر سات آسمان قائم ہیں۔ نور اعلیٰ نور جن فارمولوں سے عرش وجود میں آیا ہے وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر تجسس، تلاش اور تفکر ختم ہو گیا ہے۔ مسلمان دعویٰ یہ کرتا ہے کہ میں اللہ کا نائب ہوں۔ جب کہ چیونٹی سے زیادہ عقل و تفکر استعمال نہیں کرتا۔ اللہ کریم کا قانون جاری و ساری ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کریم نے فرمایا کہ یہ کتاب ان لوگوں کے اوپر ہدایت کے دروازے کھولتی ہے جو تفکر کرتے ہیں۔ تحقیق و تلاش کرتے ہیں۔ ریسرچ کرتے ہیں۔ گہرائی میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ اللہ کی ذات واحد ہے، ذی احتیاج نہیں ہے۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی اس کا کوئی خاندان ہے۔ جو تلاش کرتا ہے پا لیتا ہے اور جو کفران کرتا ہے وہ محروم رہ جاتا ہے۔ 


پیراسائیکالوجی

خواجہ شمس الدين عظيمي