Topics

دیباچہ

المoاس کتاب میں شک نہیں ہے۔ ہدایت دیتی ہے متقین کو جو مشاہدہ کرتے ہیں غیب۔ اور ان کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوتا ہے اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو مشاہدہ کرتے ہیں جو کچھ اترا تیرے اوپر۔ اور جو کچھ نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آخرت کی زندگی پر ان کا یقین ہوتا ہے یعنی عالمِ ناسوت کے بعد کی زندگی کو دہ دیکھ لیتے ہیں وہ ہدایت پر ہیں اپنے رب کی طرف سے اور وہی ہیں جو مراد کو پہنچے۔
تفکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے اور یقین کی تکمیل مشاہدہ کے بغیر نہیں ہوتی۔ یہ قانون زندگی کے ہر شعبہ میں نافذ العمل ہے۔
ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ جب تک ہم کسی چیز سے واقف نہ ہوں یا اس کے بارے میں علم نہ رکھتے ہوں اسے نہیں دیکھ سکتے۔ ہم جب کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اُسے دیکھ لیتے ہیں۔ ہم درخت کو دیکھتے ہیں تو پتیاں پھول رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ درخت دیکھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اگر ہم درخت کے وجود کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں تو تشریح کرنا ہماری بصارت کے لئے ناممکن ہے۔
ہم جب کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو اس چیز سے خارج ہونے والی روشنیاں آنکھوں کے ذریعہ دماغ تک پہنچتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہمارا علم داخلی ہے۔ اس داخلی علم کے کئی اجزاء ہیں جسے باصرہ یا باصرہ کے علاوہ دیگر حسوں کا نام دیا جاتا ہے اور یہی حسیں مشاہدہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔ مشاہدات فکر سے شروع ہو کر دیکھنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے پر مکمل ہوتے ہیں۔ مشاہدات دراصل انا کی تحریکات ہیں۔’’انا‘‘ کے ہی جسم کو جسمِ مثالی کہا جاتا ہے۔ یہی جسم خواب میں چلتا پھرتا اور سارے کام کرتا ہے۔ یہ مثالی جسم، خاکی جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے اور بغیر خاکی جسم کے بھی حرکت میں رہتا ہے۔ خاکی جسم سے سرزد ہونیوالے اعمال کی ابتداء ذہنی تحریکات سے ہوتی ہے۔ بغیر ذہن کی رہنمائی کے خاکی جسم ہلکی سے ہلکی جنبش نہیں کر سکتا۔ گویا داخلی تحریکات ہی زندگی کی اصل ہیں۔
خاکی دنیا کے ساتھ ایک دوسری دنیا آباد ہے۔ یہ دوسری دنیا مذہب کی زبان میں اعراف یا برزخ کہلاتی ہے۔ اس دنیا میں زندگی بھر انسان کا آنا جانا ہوتا رہتا ہے۔ اس آنے جانے کے بارے میں بہت سی حقیقتیں انسان کی نگاہ سے چھپی ہوئی ہیں جب انسان سو جاتا ہے تو خاکی دنیا ملکوتی دنیا میں منتقل ہو جاتی ہے۔ انسانوں نے اس کا نام خواب رکھا ہے لیکن اس حقیقت پر غور کرنے کی کوششیں نہیں کی کہ خواب بھی زندگی کا ایک جزو ہے۔
بیداری کی طرح نیند میں بھی انسان کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے لیکن وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے واقف نہیں ہوتا۔ صرف ’’خواب‘‘ کی حالت ایسی ہے جس کا اُسے علم ہوتا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم خواب کے علاوہ نیند کی باقی حرکات سے کس طرح مطلع ہوں۔
انسان کی ذات نیند میں جو حرکات کرتی ہے اگر حافظہ کسی طرح اس لائق ہو جائے کہ اس کو یاد رکھ سکے تو ہم باقاعدگی سے اس کا ایک ریکارڈ رکھ سکتے ہیں۔ حافظہ کسی نقش کو اس وقت یاد رکھتا ہے جب وہ گہرا ہو۔
دنیا کا ہر انسان یہ جانتا ہے کہ ہر لمحہ زندگی کی تجدید ہو رہی ہے۔ اس تجدید کے ظاہری مادی وسائل ہوا، پانی اور غذا ہیں۔
لیکن انسانی جسم پر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب ہوا، پانی، غذا اور دوسرے وسائل زندگی کی تجدید نہیں کر سکتے۔ مادی دنیا میں اس ہی حالت کو موت کہتے ہیں۔ اگر مادی وسائل ہی زندگی کا باعث ہوتے تو کسی مردہ جسم کو ان چیزوں کے ذریعے زندہ کرنا ناممکن نہ ہوتا۔ اب یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے کہ زندگی کا سبب ہوا، پانی اور غذا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
قرآن پاک نے اس کی وضاحت کی ہے:
’’پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا۔‘‘ (یٰسین۔۳۶)
اس آیت کی روشنی میں انسان یا کائنات میں موجود کوئی بھی نوع یا کسی بھی نوع کا کوئی فرد زندگی گزارنے کے لئے دو رخوں کا محتاج ہے۔ ایک رخ کو ہم بیداری کا نام دیتے ہیں اور دوسرے رخ کا نام خواب لیا جاتا ہے۔ بیداری اور خواب دونوں رخوں کا تذکرہ قرآن پاک میں لیل و نہار کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ اس عنوان کے تحت آیات میں تفکر کرنے سے یہ واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے کہ حواس ایک ہیں البتہ حواس میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ حواس جب رات کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو خواب بن جاتے ہیں اور حواس جب دن کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو بیداری بن جاتے ہیں۔ بیداری میں زمانیت اور مکانیت ہم پر مسلط ہے۔ اور خواب(روحانی بیداری) ہمیں زمانیت اور مکانیت سے آزاد کر دیتا ہے۔
انسانی زندگی کا نصف لاشعور ہے اور نصف شعور ہے۔ پیدائش کے بعد انسانی عمر کا ایک حصہ غیر شعوری حالت میں گزرتا ہے۔ اگر ہم پوری زندگی میں نیند کا وقفہ شمار کریں تو وہ عمر کی ایک تہائی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر غیر شعوری عمر اور نیند کے وقفے ایک جگہ کئے جائیں تو تمام عمر کا نصف ہوں گے۔ یہ وہ نصف ہے جس کو انسان لاشعور کے زیر اثر بسر کرتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یہ انسان کی سب سے بڑی محرومی ہے کہ اس نے محسوسیت کو میڈیم بنا رکھا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اسے استعمال کرے اور جتنا زیادہ چاہے استعمال کر لے البتہ یہ بہت بڑا ستم ہے کہ وہ اس ہی پر اپنی ذات کو منحصر کر دے۔ ذات جب محسوسیت پر منحصر کر دی جاتی ہے تو ذات بالکل معطل ہو جاتی ہے اور انسان محسوسیت کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتا ہے۔ اب محسوسیت کھلونے کو توڑ دے یا محفوظ رکھے یہ اس کی مرضی ہے۔ فی الواقع غلامی کو ساری دنیا بُرا سمجھتی ہے لیکن تمام نوع انسانی نے محسوسیت کی غلامی کا طوق، فخریہ اپنے گلے میں پہن رکھا ہے۔ خواب اور خیال سے فائدہ نہ اٹھانے کا اصل سبب یہی ہے۔
خواب ورائے محسوسیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے اسے محسوسیت ناپسند کرتی ہے اور جب یہ انسانی زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح بیداری کا عمل دخل ہوتا ہے تو محسوسیت ہر طرح کی رکاوٹ ڈالنے لگتی ہے اور ہر دروازہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے تا کہ ورائے محسوسیت عملی زندگی میں داخل نہ ہو سکے۔‘‘
خواب میں جو کچھ دیکھا جاتا ہے نتائج کے اعتبار سے وہ چیزیں بہت پیچیدہ ہوتی ہیں کبھی بالکل الٹ پلٹ نظر آتی ہیں۔ خواب میں جو نشریات آتی ہیں وہ براہ راست لاشعور سے آتی ہیں۔ خواب کے اجزائے ترکیبی سے وقوف کے لئے اپنی ذات (روح کی تحریکات) سے واقف ہونا ضروری ہے۔ خواب اور بیداری الگ الگ نہیں ہیں۔ اگر انسان کو ’’روح‘‘ کا سراغ مل جائے تو خواب کی زندگی بیداری کی طرح سامنے آ جاتی ہے۔
سائنس کی ترقی میں جو عمل کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ وقت (Time) پر گرفت کس طرح ہو اور وقت کو کس طرح کم سے کم کیا جائے۔ (Time) یا وقت کم کرنے میں رفتار کا عمل دخل ہے۔ رفتار حرکت پر قائم ہے۔ حرکت نہیں ہو گی تو رفتار کا تذکرہ نہیں ہو گا۔ تیز رفتاری کا زیادہ سے زیادہ تعین ٹائم کی نفی کرتا ہے۔
انسانی زندگی میں خواب ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں بلا تخصیص ہر انسان ٹائم کو لیس نیس(Lessness) کر دیتا ہے۔ یعنی خواب میں انسان پلک جھپکتے ہزاروں، لاکھوں میل کا سفر کر لیتا ہے۔ مذہب کے پیروکار آسمانی کتابوں اور آخری کتاب قرآن سے استفادہ کریں تو Timeکی نفی ایک نہایت آسان عمل ثابت ہو گا۔ پیغمبر سلیمان ؑ کا قصہ قرآن کریم نے بڑی خوبصورتی اور وضاحت سے بیان کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ اور سلیمان ؑ نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔ہے کوئی جو بلقیس کا تخت اس دربار میں لے آئے۔
۔۔۔۔۔۔دربار میں موجود ایک جن نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔میں تخت لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں۔
۔۔۔۔۔۔دربار میں موجود ایک آدم زاد نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے میں تخت لے آؤں گا۔
۔۔۔۔۔۔پلک جھپکی۔
۔۔۔۔۔۔تو سلیمان ؑ اور وہاں موجود درباریوں نے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔بلقیس ملکۂ صبا کا تخت دربار میں رکھا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔اس بندے نے یہ بھی کہا کہ ٹائم کی نفی کا یہ علم میں نے کتاب سے سیکھا ہے۔
کوئی انسان اگر خواب کی زندگی سے جو اس کی زندگی کا نصف حصہ ہے۔ واقف ہو جائے تو وقت کی نفی اس کے لئے ایک آسان عمل بن جاتا ہے۔خواب ایک ماورائی صلاحیت ہے جس سے غیب کی دنیا کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔عالمین میں کوئی ایک فرد بھی ’’خیال‘‘ کے دائرہ سے باہر زندگی نہیں گزارتا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ ’’خیال‘‘ کہاں سے آتا ہے۔ اب کوئی بندہ باطنی صلاحیت خواب سے واقف ہو جاتا ہے تو SOURCE OF INFORMATIONکہاں واقع ہے اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔
مرکزی مراقبہ ہال خواجہ شمس الدین عظیمی
سرجانی ٹاؤن، کراچی۔ (خانوادہ سلسلہ عظیمیہ)


خواب اورتعبیر

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔