Topics

پیش لفظ

حضرت عزیر علیہ السلام ایک مرتبہ کسی ویران بستی سے گزر رہے تھے کہ  بستی کی تباہ حالی اور بربادی دیکھ کر آپ کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ اس تباہ حال بستی کو کس طرح دوبارہ آباد کریں گے۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے گدھے کو ایک درخت سے باندھا، کھانا سرہانے رکھا اور درخت کے سائے میں سو گئے۔ حضرت عزیر علیہ السلام سو سال تک سوتے رہے۔ حکم ربی سے آپ دوبارہ زندہ ہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ سے پوچھا:

’’اے عزیر! کتنی دیر تک سوتے رہے؟‘‘

حضر ت عزیر علیہ السلام نے عرض کیا:

’’ایک دن یا اُس سے کچھ کم‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’نہیں تم سو سال تک مردہ پڑے رہے اور اپنے گدھے اور کھانے کو دیکھو۔‘‘

کھانا ویسا ہی تازہ تھا جیسے رکھا تھا لیکن گدھا مر چکا تھا۔ اس کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کے سامنے گدھے کو دوبارہ زندہ کر دیا۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہیں:

’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے فرمایا:

’’میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے پہنچنے سے پہلے اس کا تختِ شاہی دربار میں آ جائے‘‘(سورۃ النمل۔ آیت ۳۸)

عفریت نے کہا جو قوم جنات میں سے تھا:

’’اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں میں یہ تخت لا سکتا ہوں۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت ۳۹)

جن کا دعویٰ سُن کر ایک انسان نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا:

’’اس سے پہلے کہ آپ ؑ کی پلک جھپکے تخت دربار میں موجود ہو گا۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت ۴۰)

حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا تو ملکہ سبا کا تخت دربار میں موجود تھا۔ حالانکہ یمن سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً پندرہ سو میل ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات میں وقت (Time & Space) کے فارمولے بیان کئے ہیں۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے:

لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتُ ط

ترجمہ: ’’وقت میں میرا اور اللہ کا ساتھ ہے۔‘‘

غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہماری دنیا ٹوٹنے بکھرنے کے لئے ہے۔ ہر آدمی ٹوٹ رہا ہے، بکھر رہا ہے اور اس کا وجود مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو رہا ہے۔ مگر اسے کچھ پتہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ بچپن بکھرا جوانی آئی، جوانی بکھری بڑھاپا آیا۔ بڑھاپا بکھرا آدمی نابود ہو گیا۔

’’جو جا کر نہ آئی وہ جوانی دیکھی جو آکے نہ گیا وہ بڑھاپا دیکھا‘‘کہ مصداق آدمی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ ہم جب زندگی کے آثار و احوال کا محاسبہ کرتے ہیں تو ہمارے اوپر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ زندگی دراصل وقت ہے ہم پوری زندگی وقت میں ہی تو گزارتے ہیں۔ بڑے بوڑھوں کا ارشاد ہے کہ’’وقت کی قدر کرو، گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا‘‘ جو وقت ہم کارآمد گزارتے ہیں وہ ہماری زندگی کا حاصل ہے اور جو وقت ہم ضائع کر رہے ہیں وہ ہماری زندگی میں لاحاصل عمل ہے۔

وقت کے بارے میں انسان کو علم ہو جائے تو اس کے اوپر علم کے ایسے دروازے کھل جاتے ہیں جن میں سے وہ کسی ایک دروازے میں داخل ہو کر یہ معلوم کر لیتا ہے کہ انسان آتا کہاں سے ہے اورکہاں چلا جاتا ہے۔

کیوں آتا ہے اور نہ چاہنے کے باوجود چلا کیوں جاتا ہے۔ وقت کا علم رکھنے والا اپنی تخلیق کے راز سے واقف ہو جاتا ہے۔ جب کوئی بندہ تخلیق راز سے واقف ہو جاتا ہے تو وہ اپنا عرفان حاصل کر لیتا ہے عرفان ہی انسان کو خالق کائنات سے قریب کرتا ہے۔
’’وقت‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو  ماہانہ روحانی ڈائجسٹ میں ’’صدائے جرس‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں جنہیں آپ تک پہنچنے میں تقریباً 4سال کا وقت لگا۔ مضامین کو جزوی تبدیلی کے ساتھ کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔
کتاب کا ہر مضمون پڑھ کر قارئین کو (انشاء اللہ) ایسا محسوس ہو گا جیسے وہ ان کے
INNERکی عکاسی ہے۔ اس کتاب کی ہر تحریر دراصل ایک پکار ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ’’وقت‘‘ کا ہر لفظ آپ کو اللہ تعالیٰ سے قریب کر دے۔

 

آمین یا رب العالمین

دعا گو             

خواجہ شمس الدین عظیمی



وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!