Topics

پر سکون زندگی


یہ دنیا لاکھوں پریشانیوں، دکھوں اور مصیبتوں کی دنیا ہے۔۔۔۔۔۔جس کو ٹٹولیے وہ اندر سے ٹوٹا ہوا ہے، بکھرا ہوا ہے، سیماب بنا ہوا ہے، کسی کل چین نہیں، کروٹ کروٹ بیزار، پاش پاش دل، پر نم آنکھ اور ٹپکتے آنسو، پر شکیب پیشانی، بسورتا چہرہ، داغ داغ تن، ایمان سے خالی من۔۔۔۔۔۔انسان ایک ایسی اذیت میں مبتلا ہے کہ وہ اذیت سے نکلتا ہے اور نہ ہی اذیت کو قبول کرتا ہے۔

کوئی خوش نہیں، کسی کو سکون نہیں، افراتفری کے عالم میں ہر شخص اپنی آگ میں جل رہا ہے۔ اور دوسروں کو بھی جلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایک چہرے پہ ہزار چہرے بنائے انسان خود فریبی کے ایک ایسے جال میں گرفتار ہو گیا ہے کہ نہ کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور نہ چلنے کیلئے کوئی راستہ۔۔۔۔۔۔! تعصب کے دہکتے ہوئے کوئلہ پر انسان تڑپ رہا ہے۔ منافرت نے اس کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے، مسکراہٹ، ابلیسیت میں اور اخلاص فریب میں تبدیل ہو گیا ہے۔

بزرگ کہتے آئے ہیں کہ دنیا کانٹوں بھرا راستہ بھی ہے اور پھولوں کی سیج بھی ہے۔ یہ اپنا اپنا انتخاب ہے۔۔۔۔۔۔کوئی کانٹوں بھری زندگی کو گلے لگا لیتا ہے اور کوئی خوشیوں بھری زندگی میں مگن رہتا ہے۔

ہر آدمی چاہے تو پرسکون اور پر مسرت زندگی اپنا سکتا ہے۔ اس کا فارمولا یہ ہے کہ:

جو چیز حاصل ہے اس کو شکر کے ساتھ استعمال کیا جائے اور جو چیز حاصل نہیں ہے اس کے حصول کیلئے تدبیر کی جائے۔شکر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال کیا جائے اور صبر یہ ہے کہ بندہ راضی بہ رضا رہے اور جب بندے نعمتوں کا کفران کرتے ہیں اور صبر سے خود کو آراستہ نہیں کرتے تو ان کے دلوں میں دنیا کی محبت جاگزیں ہو جاتی ہے یہ دنیا عارضی اور فانی ہے۔۔۔۔۔۔خدا نہیں چاہتا کہ عارضی اور فنا ہو جانیوالی دنیا کو مقصد زندگی قرار دے دیا جائے۔ خدا چاہتا ہے کہ انسان سکون کے گہوارے میں ابدی زندگی تلاش کرے اور دنیا کے تمام ساز و سامان اور وسائل کو راستے کا گرد و غبار سمجھے۔

اگر تم سعادت مند ہو تو شر سے بچتے رہو کہ اللہ تعالیٰ شر سے بچنے والوں پر ہمیشہ رحم کرتا ہے۔ رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو اور بے جا دولت خرچ نہ کرو کہ دولت اڑانے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں اور تم جانتے ہو کہ شیطان اللہ تعالیٰ کا باغی ہے۔
اگر تم تہی دست ہو اور کچھ نہیں دے سکتے لیکن خدا سے رحمت کی امید ضرور رکھتے ہو تو ان لوگوں کو نرمی سے ٹال دو۔ تم نہ کنجوس بنو اور نہ اتنے فضول خرچ کہ کل نادم ہونا پڑے اور لوگ تمہیں طعنے دیں۔

وعدوں کو پورا کرو کہ وعدوں کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ جب ناپو پورا ناپو، پورے اور صحیح ترازو سے تولو۔ یہ خیر ہے اس کا نتیجہ اچھا ہو گا۔ کسی ایسی خبر کے پیچھے مت چل پڑا کرو کہ جس کے بارے میں تم کو یقینی علم نہ ہو۔ اس لئے کہ کان، آنکھ اور دل! سب کے بارے میں جواب طلب کیا جائے گا۔ زمین پر اکڑ کر مت چلو کہ تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑوں کے برابر ہو سکتے ہو۔ یہ وہ حرکات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔

اللہ تعالیٰ سخی ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود چاہتے ہیں کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کے دسترخوان سے خوش ہو کر کھائے پئے۔ ہر بیج ہر گٹھلی کے اندر ازل تا ابد اپنی نوع اپنے خاندان کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب ہے اور یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاند، سورج، ستارے، زمین انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ چونکہ کائنات ایک کنبہ ہے اس لئے سورج کو جب ہم دیکھتے ہیں وہ ہمیں اجنبی نہیں لگتا اور سورج بھی ہمیں اپنے کنبے کا فرد سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اور ہوش و حواس عطا کئے ہیں۔ انسان کو آنکھیں، کان اور زبان عطا کی ہے۔ جس سے انسان دیکھتا ہے، سنتا ہے اور بول سکتا ہے۔ دل عطا کیا ہے تا کہ وہ محسوس کر سکے۔ آدمی دنیوی کاروبار میں تو مالک کی خوشامد کرتا ہے جہاں سے اسے محنت و مزدوری کے بعد معاوضہ ملتا ہے لیکن جس اللہ تعالیٰ نے انسان کو ترتیب و تسلسل کے ساتھ تمام وسائل مفت عطا کئے ہیں اس کا زبانی کلامی شکریہ بھی ادا نہیں کرتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو یاد کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو فراہم کی ہیں اور جن کی بنیاد پر انسان زندہ ہے اور آرام و آسائش سے زندگی بسر کر رہا ہے تو انسان کا ذہن ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔




وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!