Topics

نیلم کی انگوٹھی

مجھے اپنے بابا جی قبلہؒ پر اتنا ناز تھا کہ شاید کسی کو ہو۔ جتنا یہ غلام ہمراز تھا، شاید کوئی نہ ہو ۔ لطف و عنایت کی بارش جتنی اس عاجز و مسکین پر فرماتے تھے، وہ خیال و تصور اور اظہار و بیان سے بالا ہے۔ ایک روز میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں انگوٹھی پہننا چاہتا ہوں۔ فرمایا ‘‘ بالکل ٹھیک ہے۔ آپ انگوٹھی میں نیلم پہنیں۔’‘

بازار میں جب نیلم کی قیمت معلوم کی تو وہ میری استطاعت سے باہر نکلی۔ روہانسا منہ بناکر عرض کیا۔ ‘‘حضور! نیلم تو بہت مہنگا پتھر ہے۔"حضور بابا جیؒ خاموش ہوگئے۔ دوسرے دن صبح آٹھ اور نو کے درمیان میں فیرئیر روڈ پر جارہا تھا کہ نالے کے قریب کھڑے ہوئے ایک فقیر نے مجھے آواز دی۔ میں سمجھا کہ کوئی سوالی ہے۔ اسے ایک آنہ دے دیا جائے۔ جب میں قریب پہنچا تو اس سے پہلے کہ میں اسے خیرات دوں اس نے میرے ہاتھ پر ایک انگوٹھی رکھ دی۔ انگوٹھی میں نیلم جڑا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا۔ ‘‘ یہ انگوٹھی کتنے کی ہے؟"

اس بندہ خدا نے کہا"قیمت پوچھ کر کیا کروگے؟ تم اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔"

اللہ معاف کرے، میں سمجھا کوئی فراڈ ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ بھائی قیمت کے بغیر انگوٹھی نہیں لوں گا۔ اس نے یہ سن کر جواب دیا کہ نہیں مانتے تو سوا پانچ روپے دے دو ۔ کیونکہ میں بازار سے نیلم کی قیمت معلوم کرچکا تھا اس لئے میرے اس خیال کو مزید تقویت پہنچی کہ یہ آدمی کوئی ایسا ویسا ہے۔ میں نے کہا۔ "بھائی مجھے یہ انگوٹھی نہیں چاہیئے۔"

میرا یہ کہنا تھا کہ فقیر کو جلال آگیا۔ نہایت درشت لہجے میں بولا۔ ‘‘ تو شک کرتا ہے۔ لے انگوٹھی اور چلا جا۔ اپنے بڑوں کو لے جا کر دکھا۔ کل میں اسی وقت یہاں پھر ملوں گا۔ ‘‘کام وغیرہ تو میں سب بھول گیا۔ انگوٹھی لے کر حضور بابا جیؒ کے پاس آیا اور ان کی خدمت بابرکت میں ساری روئیداد سنائی۔ بابا جی قبلہؒ نے میری اس گستاخی کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا اور فرمایا۔ "یہ سچا نیلم ہے۔"

اب تو میرے اوپر بڑی وحشت طاری ہوئی اور میں اس سوچ میں غرق ہوگیا کہ وہ فقیر کون ہے جس نے اتنی قیمتی انگوٹھی مجھے تحفے میں دے دی۔ 

بابا جیؒ نے مجھ سے فرمایا۔ " کل صبح بہت سویرے اسی جگہ جاکر ان بزرگ کا انتظار کرنا اور کوشش کرنا کہ وہ تمہارے ساتھ ناشتہ کرلیں اور ساتھ ہی عقیدت و احترام سے خمیدہ ہوکر ان کو سوا پانچ روپے نذر کردینا۔"

قصہ مختصر میں فقیر کے بتائے ہوئے وقت سے کافی پہلے وہاں جاکر ان کا انتظار کرنے لگا۔ وہ ہنستے ہوئے نمودار ہوئے اور فرمایا "خوب ڈانٹ پڑی ہے، خوب ڈانٹ پڑی ہے۔"

میں نے معافی چاہی اور سوا پانچ روپے ان کو نذر کئے۔ بہت خوش ہوکر یہ نذر سرپر رکھی اور مجھے ڈھیروں دعائیں دیں۔ میں نے عرض کیا "میں نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا ہے۔ آپ کے ساتھ ناشتہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔"

بولے۔ "اللہ تمہیں خوش رکھے ۔ یہ چار آنے لو اور میری طرف سے ناشتہ کرلو۔ "تاریخ ، ماہ و سال یاد رکھنے میں میرا حافظہ کمزور ہے۔ اس وقت حلوہ پوری ایک آنے کی ملتی تھی۔ 


Topics


تذکرہ قلندربابااولیاء

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔


ا نتساب

اُس نوجوان نسل کے نام 

جو

ابدالِ حق، قلندر بابا  اَولیَاء ؒ  کی 

‘‘ نسبت فیضان ‘‘

سے نوعِ ا نسانی  کو سکون و راحت سے آشنا کرکے

 اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے

 ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر

انسان  اپنا  ازلی  شرف حاصل کر کے جنت 

میں داخل ہوجائے گا۔



دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا

کیا کہیے کہ ہے کیا یہ  ہماری   دنیا

مٹی  کا  کھلونا ہے   ہماری تخلیق

مٹی  کا کھلونا  ہے یہ ساری   دنیا


اک لفظ تھا اک لفظ سے  افسانہ ہوا

اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا

گردوں نے ہزار عکس  ڈالے ہیں عظیمٓ

میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا