Topics
سوال: آپ اپنی تحریروں میں زور دیتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اپنی زندگی میں
اس طرح شامل کرے کہ کسی بھی چیز سے اسی کا رشتہ اللہ تعالیٰ کے توسط سے قائم ہو۔
جنسی جذبہ ایسا جذبہ ہے کہ جب انسان اس جذبہ میں ہوتا ہے تو اس کو اس وقت کسی
دوسری چیز کا خیال نہیں آتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس جذبہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی
ذات کو شامل کر لیا جائے اور کس طرح؟
جواب: ہر ذی روح اپنے مادی جسم کی فنا کے بعد کسی نہ کسی شکل میں بقا کا خواہش مند
ہوتا ہے۔ یہ جذبہ ادنیٰ سے ادنیٰ ذی حیات کی زندگی میں بھی موجود ہوتا ہے۔ درخت،
جڑی بوٹیاں، چرند، پرند، حیوانات، کیڑے مکوڑے اور انسان سب ہی اس جذبے کے حامل
ہیں۔ اور بقائے نسل کا انحصار بہت حد تک ذی روح کی کوششوں پر منحصر ہے۔ عام حالتوں
میں ہر پھل کی گٹھلی اگر اپنی حالت پر چھوڑ دی جائے تو ضرور ایک بڑا پھل دار درخت
بن جائے گا۔ اگر اسے جلا دیا جائے یا اسے نشوونما دینے والی طاقتوں سے محروم کر
دیا جائے تو وہ مرجھا کر مٹی میں مل جائے گی۔ اس طرح زندگی جسم کے فنا ہونے کے بعد
بھی نسل شکل میں قائم رہتی ہے۔
زندگی کے ارتقاء پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا انحصار بڑی حد تک اسی اصول کو معلوم
کرنا ہے اور حیات و دوام اس لئے چاہتی ہے کہ خود اس کی ہستی میں خالق حقیقی موجود
ہے جو دائم و قائم ہے اور ایک مشترکہ جز و خالق و مخلوق میں ایک رشتے کی حقیقت سے
موجود ہے۔
مادہ کے ازلی اور ابدی ہونے کے بارے
میں تو فلسفیوں نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن درحقیقت بالکل مادی اشیاء میں بھی نسلی
اور جنسی بقا کا جذبہ پایا جاتا ہے اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ
السلام سے ان کی نسل کی بقا کا وعدہ کیا تھا۔
رسول اکرمﷺ سے قرآن مجید نے جو وعدہ
فرمایا تھا کہ ‘‘تحقیق تیرا دشمن بے نسل رہے گا۔’’ تو اس کی وجہ یہی تھی کہ حضورﷺ
کی تعلیم اور زندگی کا مقصد خداوند عالم کے مقاصد کے مطابق تھا۔ وہ لوگ جن کا رشتہ
اپنے خالق کے مقاصد کے سامنے ہمیشہ دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں تو ان کی فنا لازمی
ہے۔ ان کی نسلیں منقطع ہو جاتی ہیں۔ قرآن پاک میں جو مختلف قوموں کی بربادی کا ذکر
کیا گیا ہے اس کی وجہ بھی ان قوموں کے اپنے انبیاء اور ناصحین کی مخالفت قرار دیا
ہے۔
اس سے ظاہر ہے کہ جنسی کشش اس کا علم
اس کا مقصد یعنی بقائے نسل مکمل طور پر روحانی قانون پر منحصر ہے جو مخلوق کے اندر
خالق کی طرف توجہ کرنے اور اپنی خواہشات کو فنا کر دینے میں پوشیدہ ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جنسی جذبہ
ایک حیوانی جذبہ ہے اور اس کی کشش غیر شعوری جذبے کے متعلق بقائے نسل کے سوا کچھ
نہیں۔ اگر اسے ٹھیک بھی مان لیا جائے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ
نسلی بقا کا جذبہ انسانوں میں صرف حیوان ہونے کی حیثیت سے غیر شعوری طور پر پایا
جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ جذبہ انسانوں میں عام طور پر
بالکل غیر شعوری طریقے سے موجود ہے۔
ماہرین علم غیر شعوری مثلاً فرائڈ
وغیرہ اسے تسلیم کرتے ہیں کہ ہر ایک آدمی اپنے بچپن کے غیر شعوری تاثرات کے زیر
اثر اپنی ماں جیسے اوصاف کی عورت کو اپنی بیوی بنانے کی خواہش رکھتا ہے اور ہر
عورت اپنے باپ سے مشابہ مرد کو اپنا شوہر بنانے کی خواہش مند ہوتی ہے اس میں تھوڑی
بہت صداقت ضرور ہے لیکن مکمل طور پر اسے درست نہیں کہا جا سکتا۔ اس انتخاب کی وجہ
روحانی قوت ہے۔ جو خالق حقیقی ہر مخلوق شئے کی تخلیق کے وقت اپنے جزو کی حیثیت سے
اس کی روح میں رکھ دیتے ہیں۔
جنسی کشش میں ایسے اخلاق کی یگانگت کا بھی اثر پڑتا ہے جو روحانی طور پر ایک دوسرے
سے زیادہ مشابہ ہوتے ہیں۔ قرآن پاک نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ نیک بیویاں نیک
مردوں کے لئے ہیں۔ اس اصول کی دوسرے انداز سے دیکھئے تو یہی ثابت ہو گا کہ جنسی
کشش جسے کبھی عشق کبھی محبت کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ درحقیقت اس کشش کی ایک قسم
ہے جو سب مخلوق اشیاء میں پائی جاتی ہے خواہ یہ کشش باہمی سیاروں میں ہو یا زمین
یا چاند یا سورج میں درحقیقت اس ذات خداوندی کی تخلیق کی ایک بنیادی صفت ہے جس بنا
پر ہر شئے اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا کرتی ہے۔
رسول اکرمﷺ نے جو روحانی حقیقتوں کے
بہترین سمجھنے والے تھے عورت کے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اس کے ساتھ ہی صلوٰۃ
کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا تو اس میں بھی یہی راز مضمر تھا کہ جنسی کشش روحانی
جذبہ ہے جو خالق کی دی ہوئی قوت تخلیق کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔
یگانگت یا وحدت کے لئے ایک مرکز کی
ضرورت ہوتی ہے۔ جس قدر نفس ایک مرکزی مقصد کے حصول کے لئے وحدت کے ساتھ عمل کرے گا
اسی قدر روحانی ترقی زیادہ ہو گی۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جس قدر نفس کا
زیادہ اثر خواہشات، جذبات اور عملیات پر ہو گا اسی طرح شخص اپنے افعال زندگی کو
بہت طریقے سے ادا کر سکے گا۔ ازدواجی تعلقات کو بھی اگر ایک جسمانی اور حیوانی فعل
تصور کر لیا جائے تو بھی اس کے ادا کرنے کا بہترین طریقہ نفس کو اس طرح سدھارتا ہے
کہ وہ اپنی خواہشات پر پورا قابو پا لے اور ان کی ادائیگی میں اس طرح عمل کرے کہ
اس قدرتی فعل سے جسم کو نفع ہی نفع حاصل ہو۔
نسلی بقا ہر نفس کی خواہش ہے خواہ وہ حیوانات کی طرح بالکل غیر شعوری
ہو یا انسانوں کی طرح سے شعوری درجہ اختیار کر لے۔
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے