Topics
آدمی علم دو طرح سیکھتا ہے۔ اکتسابی طریقہ پر اور روحانی طرزوں پر۔ اکتسابی علوم کی بھی بہت سی قسمیں ہیں اس علم کو سیکھنے کے لئے اس کے مروجہ حروف کی ترتیب اور ان کے گراف سے واقفیت ضروری ہے۔ جیسے جیسے علوم میں اضافہ ہوتا ہے اسی مناسبت سے آدمی کا شعور طاقت ور ہوتا رہتا ہے اور شعوری سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ دنیا میں رائج علوم پر زیادہ سے زیادہ تبصرہ کر سکتا ہے۔ جیسے جیسے شعور کی سکت بڑھتی ہے اس کے اوپر انکشاف ہوتا ہے کہ شعور کے علاوہ بھی کوئی شعور ہے جہاں سے یہ علم منتقل ہو رہا ہے۔ ماہر نفسیات اس کو لاشعور کہتے ہیں۔
شعور سے ہٹ کر ایک شعور ہے ایسا شعور جو عامتہ الناس کے شعور سے ماوراء ہے۔ اس شعور اور لاشعور میں وہ تمام علوم آتے ہیں جن علوم کے اوپر تخلیقی عوامل کام کرتے ہیں۔ تخلیقی عوامل سے مراد ایجادات ہیں۔ یوں سمجھئے کہ آج کا سائنس دان انسان کے اندر موجود دوسرے شعور (لاشعور) سے واقف ہو گیا ہے۔ جب اس نے لاشعور کے اندر رہتے ہوئے کسی شئے کی کُنہ تک پہنچنے کی کوشش کی تو نتیجے میں ایجادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ علمِ حصولیکی ضمن میں تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اب دنیاوی علوم سے ہٹ کر آسمانی علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
تاریخی شواہد ہمیں بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اکتسابی علم نہیں سیکھا کوئی استاد نہیں بنایا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے ذریعہ نوعِ انسانی کو ایسے علوم منتقل ہوئے جن کے ذریعہ انسانی شعور میں ارتقاء ہوا۔ قرآن پاک میں ایک برگزیدہ ہستی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس علم کی نشاندہی کی ہے جس علم کی دوسرے پیغمبروں نے نشاندہی نہیں کی۔
جب ہم شعور کے بعد دوسرا شعور یعنی لاشعور کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر اس (لاشعور) کی گہرائی میں تفکر کرتے ہیں توریڈیو، ٹی وی، ایٹم اور خلائی تسخیر کے فارمولے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ ترقی اور یہ ایجادات دوسرے شعور کی کارفرمائی ہے۔ جس شعور کو سائنس دان لاشعور کہتے ہیں۔ اس ترقی میں اور ایجادات میں ایک بات غور طلب ہے وہ یہ کہ کوئی بھی ایجاد دنیا میں موجود وسائل سے باہر نہیں ہے وسائل ہیں تو ایجادات ہیں وسائل اگر نہیں ہیں تو ایجاد نہیں ہو گی۔ ہر ترقی وسائل کی محتاج ہے۔ چاہے وہ ایٹم بم ہو ، ہوائی جہاز ہو یا کوئی اور ایجاد ہو۔
ہم تیسرے شعور میں غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے انبیاء کی ذات آتی ہے۔ ان سے خرق عادات میں وسائل زیر بحث نہیں آتے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن پاک نے جس طرح متعارف کرایا ہے وہ اندھوں کو آنکھوں والا کردیتے تھے، گنجوں کے سر پر بال آ جاتے تھے اور ہاتھ پھیرنے سے کوڑھ ختم ہو جاتا تھا۔
انبیاء کے بارے میں مراتب کا تعین کیا جاتا ہے کہ فلاں نبی کا مقام فلاں آسمان ہے۔ دراصل یہ تیسرے لاشعور کے مراتب کا تذکرہ ہے۔ آسمانی حدوں میں پہلا آسمان دوسرا آسمان تیسرا آسمان چوتھا آسمان پانچوں آسمان چھٹا آسمان اور ساتواں آسمان کسی فاصلے یا سمت کا تعین نہیں ہے، یہ لاشعوری بیدار صلاحیتوں کا تذکرہ ہے یعنی کسی نبی کے اندر تیسرا لاشعور کس حد تک متحرک ہے۔ اسی مناسبت سے نبیﷺ کے مقام کا تعین ہے۔ آدم ؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا مقام پہلا آسمان ہے۔ کسی نبی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا مقام تیسرا آسمان ہے۔
مختصر یہ کہ کسی نبی کا مقام دراصل لاشعوری مراتب کا تعین ہے۔ جب ہم اجرام سماوی (ستاروں) کو آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں تو ہمارے شعور اور لاشعور کی حدیں متصل ہوتی ہیں۔ مفہوم یہ ہے کہ ہمارا شعور دوسرے لاشعور سے متاثر ہو جاتا ہے۔ آسمانوں پرستاروں کو دیکھنا چاندنی کی ٹھنڈک کو محسوس کرنا سورج کی تپش سے متاثر ہونا اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارے شعور میں اتنی سکت ہے کہ وہ لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے۔ جب شعور لاشعور میں داخل ہو سکتا ہے تو لاشعور کے اندر تمام چیزوں سےفائدہ اٹھا سکتا ہے اور وسائل کی گہرائی میں اتر کر شئے کی کُنہ تک پہنچ سکتا ہے ایٹم کی تلاش میں یہی قانون کارفرما ہے۔
ہم جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ہمیں آسمان پر ستارے نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجرام سماوی کا ہیولا ہمارے لاشعور کو چھو دیتا ہے لیکن سیارہ کیا ہے ستارہ کیا ہے اور ان سیاروں کروں کے تفصیلی اجزاء کیا ہیں۔ ستاروں کے اندرونی و بیرونی آثار و احوال کس طرح واقع ہیں۔ یہ بات شعور سے مخفی ہوتی ہے اور لاشعور پر واضح ہوتی ہے۔
اس فارمولے کے مقابل جب کسی نبی یا ولی کے شعور کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ ولی کے اندر نبی کا شعور منتقل ہو جاتا ہے اور جب کسی ولی کے اندر نبی کا لاشعور منتقل ہو کر اس کے شعور کو اطلاعات فراہم کرتا ہے تو ولی کے حواس اجرام سماوی کے اندرونی و بیرونی احوال کو پوری طرح دیکھتے جانتے سنتے اور چھوتے ہیں۔ اجرام سماوی کے تمام احوال کرہ ارضی کے احوال کی طرح قریب ہو جاتے ہیں۔ جس طرح ایک عام بندہ زمین کے کرہ پر بیٹھ کر کھلی آنکھوں سے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھتا ہے چیزوں کے اندرونی احوال سے واقف ہوتا ہے اسی طرح جب ولی میں انبیاءؑ کا علم(شعور) منتقل ہو جاتا ہے تو وہ زمین پر بیٹھ کر سیاروں اور اجرام کے احوال (وہ بیرونی ہوں یا اندرونی ہوں) اس کی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ جس طرح شعور کی توانائی اور تربیت کے مدارج مختلف ہیں اسی طرح لاشعور کی تربیت و توانائی (لاشعور کی حدود میں داخل ہونے) کی طرزیں مختلف ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ مرتب شعور رکھنے والا انسان کرہ ارضی کے حالات سے زیادہ باخبر ہوتا ہے۔ ان پر بہتر طور سے تبصرہ کر سکتا ہے لیکن ناقص شعور رکھنے والا انسان کرہ ارضی کے مسائل کو جاننے سے قاصر ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ ایک ساٹھ سالہ کسان ہے (جس نے اپنی زندگی ایک محدود رقبے میں گزاری) کی علمی صلاحیتیں کھیتی باڑی سے آگے نہیں بڑھتیں اس کی عمر ساٹھ سال ہے وہ دادا، نانا، چچا، تایا برادری کا بزرگ بھی ہے۔ اس نے شعوری زندگی میں ساٹھ سالہ زندگی کے نشیب و فراز بھی دیکھے ہیں۔ بے شمار تجربات بھی کئے ہیں لیکن چونکہ اس کا علم ایٹم کے بارے میں ناقص ہے اگر اس ساٹھ سالہ بوڑھے کے سامنے ایٹم کی تھیوری کے بارے میں کچھ پوچھا جائے تو وہ کچھ نہیں بتا سکے گا۔ اس کے برعکس پڑھے لکھے آدمی کے سامنے جس نے اکتسابی علوم حاصل کر کے اپنے شعور کو توانا کر لیا ہے اس کے سامنے ایٹم کی تھیوری بیان کی جائے تو اسے ایٹم کی تھیوری سمجھنے میں کوئی دقت اور پریشانی نہیں ہو گی۔
انسان اور خصوصاً روحانی انسان چار شعوروں سے واقفیت رکھتا ہے۔ ایک شعور وہ ہے جس کو ہم خارجی دنیا کہتے ہیں یعنی جس شعور سے ہم خارج کو دیکھتے، خارج کو سمجھتے اور خارجی احساسات سے متاثر ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ ایسا شعور ہے جس سے نوعِ انسانی کا ہر فرد کم و بیش واقف ہے۔ اس کو پہلا شعور کہا جاتا ہے۔ جب ہم دوسرے شعور یعنی لاشعور کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں شعور کو جس جگہ سے اطلاعات فراہم ہوتی ہیں، شعور ان اطلاعات میں معانی پہنا کر Imageبناتا ہے جہاں سے اطلاعات آ رہی ہیں وہ لاشعور ہے۔ اس لاشعور سے عامتہ الناس واقف نہیں ہیں۔ البتہ وہ لوگ جو فکر کرتے ہیں اور تحقیق و تلاش کے میدان میں سرگرداں رہتے ہیں واقف ہو جاتے ہیں۔ لاشعور سے نئے نئے علوم سامنے آتے ہیں۔ اختراعات و ایجادات کا سلسلہ قائم ہوتا ہے۔ یہی شعور ہے جس کے ذریعے سائنسی ترقی ہم تک پہنچی ان دو شعوروں کے علاوہ دو شعور اور ہیں۔
تیسرا شعور اور چوتھا شعور ان لوگوں کے اندر متحرک ہوتا ہے جن حضرت کو ہم نبی یا ولی کے نام سے جانتے ہیں۔
قانون یہ ہے کہ جب کائنات میں پھیلی ہوئی روشنی کے اندر کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو چاروں شعوروں میں ہوتی ہے۔ کائنات میں پھیلی ہوئی یہی روشنی کائنات اور کائنات کے افراد کے درمیان پہچان کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ روشنی کائنات یا افراد کائنات کے درمیان سے نکال دی جائے تو ایک شعوراور تین لاشعور کی حیثیت صفر کے برابر ہو جائے گی اور اگر تینوں لاشعوروں میں تبدیلی واقع ہو جائے تو شعوری خدوخال بھی تبدیل ہو جائیں گے۔
شعور میں تبدیلی یا روشنیوں میں رد و بدل کا تعلق روشنی کے مختلف زاویوں سے ہے۔ روشنی نسمہ ہے۔ نسمہ ایسے تانے بانے کا نام ہے یا ایسی روشنی کی لکیروں کا نام ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست بھی نہیں ہیں اور ایک دوسرے سے فاصلے پر بھی نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ روشن لکیریں اپنے زاویئے بدلتی رہتی ہیں۔
خیال کہاں سے آتا ہے؟
مختلف زاویوں میں نئی نئی مثالوں سے آپ حضرات و خواتین کے گوش گزار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق چار شعوروں (ایک شعور اور تین لاشعوروں) سے کی ہے۔ ہم جب اوپر سے نیچے کی طرف کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہیں تو چوتھے لاشعور سے ہماری مراد شعور اول ہے۔
اسمائے الٰہیہ جب اپنے آپ کو اللہ کی صفت میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ان کے اندر حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کے اندر احکام کا رنگ غالب ہو جاتا ہے۔ احکام کا رنگ غالب ہونا تصوف میں ’’بداعت‘‘ ہے جب بداعت اول شعور سے دوئم شعور میں منتقل ہوتی ہے تو امر الٰہیہ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
کائنات اللہ کی صفات پر قائم ہے۔ صفات اللہ کے احکام کے ذریعے مظہر بنتی ہیں یہ سلسلہ ازل سے قائم ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ صفات کے اندر جب حرکت پیدا ہوتی ہے تو خدوخال اور شکل و صورتیں رونما ہوتی ہیں۔ یہ خدوخال اور صورتیں تین مراحل سے گزر کر مادی شکل و صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ کائنات کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے جس طرح کائنات کو بنایا، کائنات بحیثیت مجموعی ایک جگہ پر قائم ہے۔ کائنات بحیثیت مجموعی اس طرح موجود ہے کہ کائنات میں موجود ہر ذرہ موجود بھی ہے اور ہر ذرہ دوسرے ذرے میں پیوست بھی ہے۔ مثلاً جب ہم کائنات کی اجتماعی حیثیت کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ایک شکل وصورت کے اندر پوری کائنات جلوہ گر ہے۔ نباتات، جمادات، حیوانات، اجرام سماوی سب ایک دوسرے کے اندر گڈ مڈ ہیں۔
کائنات ایک ایسا عالم ہے جہاں ہر نوع دوسری نوع کے اندر نظر آتی ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کائنات ایک علم ہے۔ علم اگر نہیں ہے تو کائنات نہیں ہے۔ علم اللہ کی صفات (اسمائے الٰہیہ) ہیں۔
شعور اول۔ نور مفرد شعور دوم نور مرکب شعور سوئم نسمہ مفرد اور شعور چہارم نسمہ مرکب ہے۔ نور مفرد کی تخلیق ملائے اعلیٰ اور نور مرکب کی تخلیق ملائکہ نسمہ مفرد کی تخلیق جنات اور نسمہ مرکب کی تخلیق عنصری مخلوق۔ عنصری مخلوق میں ہمارے زمین کا کرہ بھی شامل ہے۔
۱۔ شعور اول۔۔۔۔۔۔نور مفرد
۲۔ شعور دوئم۔۔۔۔۔۔نور مرکب
۳۔ شعور سوئم۔۔۔۔۔۔نسمہ مفرد
۴۔ شعور چہارم۔۔۔۔۔۔نسمہ مرکب
۱۔ نور مفرد۔۔۔۔۔۔ملائے اعلیٰ
۲۔ نور مرکب۔۔۔۔۔۔ملائکہ
۳۔ نسمہ مفرد۔۔۔۔۔۔جنات
نسمہ مرکب۔۔۔۔۔۔انسان، حیوان، نباتات، جمادات۔
زندگی خیالات کی رو کا دوسرا نام ہے۔ اگر خیالات کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو تمام تقاضے تمام حواس ختم ہو جائیں گے۔ زمین کی حرکت کوئی کام اور کوئی تقاضا ایسا نہیں ہے جو خیالات کے دائرہ سے باہر ہو۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کام سے متعلق خیال آتا ہے۔ جب تک خیال نہ آئے اور گہرائی پیدا نہ ہو تو کوئی چیز مظہر نہیں بنتی۔ خیال سے پہلے ایک کیفیت ایسی ہوتی ہے جس کا دباؤ ذہن پر پڑتا ہے اور اسی خیالی کیفیت کی بنیاد پر آدمی خیال میں معانی پہناتا ہے۔ لیکن خیال سے پہلے ایک اور کیفیت ہوتی ہے جس کا دباؤ ذہن پر نہیں پڑتا۔ لیکن ذہن کے اوپر ہلکی شبیہہ ضرور بن جاتی ہے۔ خیال کی اس لطیف کیفیت کو ’’وہم‘‘ کہتے ہیں۔ خیال کی یہ لطیف کیفیت جب گہرائی اختیار کرتی ہے تو واہمے سے گزر کر خیال بن جاتی ہے۔
یہ بات سمجھ لی گئی ہے کہ خیال سے زندگی میں تقاضے بنتے ہیں۔ لیکن یہ بات ابھی غور طلب ہے کہ خیال کہاں سے آتا ہے؟
لوح محفوظ پر نقوش، نزول کرنے کے بعد روشنی کی لہروں میں منتقل ہوتے ہیں تو یہ روشنی ذہن سے ٹکرا کر بکھر جاتی ہے۔ لہروں اور لکیروں کا نزول ذہن انسانی پر نہ ٹکرائے تو انسان واہمہ اور خیال سے واقف نہیں ہوتا اور جب تک واہمہ اور خیال سے واقفیت نہ ہو، تقاضے پیدا نہیں ہوتے۔ ہم شب و روز خیالات میں گھرے رہتے ہیں۔ کچھ خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم زندگی سے وابستہ سمجھتے ہیں اور بے شمار خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم اہمیت نہیں دیتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں۔
قانون یہ ہے کہ کوئی بھی خیال ذہن پر وارد ہوتا ہے تواس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس خیال کا تعلق کائنات کے کسی نہ کسی شعبے سے ضرور ہے۔ خیال کا آنا بجائے خود اس کی دلیل ہے کہ خیال کہیں سے آیا۔ یہ خیال ذہن انسانی پر ٹکرایا تو ذہن میں حرکت پیدا ہوئی۔ ایسی حرکت، جس حرکت کے بارے میں ہم کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے۔ لیکن بہرحال ذہن کے پردوں میں حرکت واقع ہوتی ہے۔ چونکہ ہم اس حرکت کو محسوس نہیں کرتے یا حرکت میں معانی نہیں پہنا سکتے، اس لئے ہم اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ لیکن اس حرکت کا تعلق کائنات کے ان تاروں یا لہروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب و تدوین کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہے۔ ہم اس بات سے آشنا ہیں کہ ہوا چلتی رہتی ہے۔ ہوا کی تیزی، کمی، خنکی یا گرمی سے بھی ہم متعارف ہیں۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے ہوا معمول کے برعکس چل کر تیز جھونکوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہ عمل یعنی تیز جھونکوں میں منتقل ہونا چونکہ روٹین کی حرکت کے خلاف ہے، لازماً یہ سوچنا پڑے گا کہ جس نظام میں ہوا بنتی ہے یا جس نظام سے ہوا چل کر زمین میں پھیلتی ہے اس نظام میں تغیر واقع ہوا ہے اسی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی حرکت واقع ہوتی ہے یا کوئی خیال وارد ہوتا ہے تو اس کے معانی یہ ہیں کہ انسان کے لاشعور میں حرکت واقع ہوئی ہے۔ کہاں حرکت واقع ہوئی ہے اس حرکت کا کس نظام سے تعلق ہے یہ انسان کی خود اپنی تلاش پر منحصر ہے۔ آدمی جس قدر گہرائی میں تفکر کرنے کے بعد اپنے لاشعور سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے اسی مناسبت سے اس کی تلاش آسان ہو جاتی ہے۔
عالمین میں کوئی شئے دو رُخ کے بغیر موجود نہیں ہے۔ مرئی اشیامیں ہمیں خدوخال نظر آتے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی ہستی نے اس کو سنبھالا ہوا ہے۔ ایک رُخ غالب دوسرا رُخ مخفی ہے۔ دونوں مل کر زندگی بنتے ہیں اور زندگی ہی احساس ہے۔ احساس یا حس کے بھی دو مراتب ہیں۔ ایک شئے سامنے ہے اور دوسری شئے جو مشاہدہ کرنے والی ہے، مخفی ہے۔ ایک رُخ وہاں ہے جہاں مشاہدہ کرنے والی قوت موجود ہے۔ یہ قوت کسی چیز کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔ دوسرا رُخ وہاں ہے جہاں مشاہدہ کرنے والی قوت کی نگاہ پڑتی ہے۔ جب تک حس کے دونوں رُخ یکجا نہ ہوں اس وقت تک ہم کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔ کوئی موجود ہمارے سامنے ہے لیکن اس موجود کو سنبھالنے والا ہمارے سامنے نہیں ہے۔ مادی چیز (مرئی شئے ) گوشت پوست کی آنکھ سے نظر آتی ہے اور غیر مرئی چیز گوشت پوست کی آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ لیکن روحانی آنکھ اسے دیکھتی ہے۔
جب ہم سیاہ تختے کو دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے تختہ ہے لیکن جب ہم سیاہ رنگ پر تفکر کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ رنگ الگ ہے اور تختہ الگ ہے یعنی ہم رنگ اور تختے کے ملاپ کو تختہ سیاہ کہتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)