Topics

لیکچر 20 : الہامی کتابیں

رُوحانیت  کو سمجھنے کے لئے الہامی کتابوں پر یقین ہونا ضروری ہے۔ الہامی کتابیں ہی روحانی علوم کو منکشف کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

یہ کتاب نہیں ہے شک اس میں یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت دیتی ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔

قرآن پاک کے الفاظ کی تشریح میں یہ بات یقینی بن گئی ہے کہ اگر کسی بندے کے اندر شک اور وسوسہ ہے تو یہ کتاب اس بندے کی رہنمائی نہیں کرتی۔ یہ کتاب صرف ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو راست باز اور راست گو ہیں۔ یہی لوگ متقی ہیں۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق متقی لوگوں کی تعریف یہ ہے کہ وہ غیب کے اوپر یقین رکھتے ہیں۔ غیب سے مراد وہ تمام چیزیں وہ تمام دنیائیں اور دنیاؤں میں گروہ در گروہ فرشتے ہیں جو ظاہر آنکھوں سے نظر نہیں آتے۔

قانون یہ ہے کہ غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ جب تک کوئی چیز دیکھ نہ لی جائے۔ اس وقت تک یقین کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یہ قانون صرف غیب کی دنیا میں ہی نافذ نہیں ہے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں بھی یہی قانون نافذ ہے۔ نوعِ انسانی کی زندگی کا ہر شعبہ اس قانون میں بندھا ہوا ہے۔ ان آیات کی روحانی تشریح یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ کتاب ایسے لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو غیب کی دنیا میں اور اللہ کے معاملات کے اوپر شک نہیں کرتے اور وہ غیب کے اوپر اس لئے یقین رکھتے ہیں کہ غیب ان کے مشاہدے میں ہوتا ہے۔ اس بات کو دو لفظوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ قرآن ان لوگوں کو ہدایت بخشتا ہے جو لوگ غیب کی دنیا سے متعارف ہیں یعنی غیب ان کے مشاہدے میں ہے۔

ہزار ہا مفسرین نے اپنی ذہنی کاوشوں سے تفاسیر لکھی ہیں۔ لیکن جب ہم تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ہر تفسیر دوسری تفسیر سے متضاد نظر آتی ہے۔ حقیقت میں تضاد نہیں ہوتا حقیقت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تغیر واقع نہ ہو۔ ہمارا منشاء مفسرین کی نیت پر شک کرنا نہیں ہے انہوں نے مخلصانہ طرزوں میں کوشش کی ہے۔ اس کا صلہ کیا ہے اللہ جانے اور وہ جانیں۔ لیکن لوح محفوظ کے قانون کے مطابق جب تک غیب مشاہدے میں نہ ہو قرآن پاک کی تعلیمات کا صحیح مفہوم واضح نہیں ہوتا۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ

قرآن پاک صرف وہ لوگ سمجھتے ہیں جن کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن پڑھایا ہو یا قرآن کی تشریح خود اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہو۔

یہ بات لوح محفوظ کے قانون کے عین مطابق ہے۔ اس لئے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بے شمار قدسی نفس حضرات نے دیکھا ہے اور ان سے علوم سیکھے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

یہ کتاب نہیں ہے شک اس میں اور یہ کتاب ہدایت دیتی ہے متقی لوگوں کو اور متقی لوگ وہ ہیں جو غیب پر ایمان (یقین) رکھتے ہیں۔ (یقین کی تکمیل مشاہدہ کے بغیر نہیں ہوتی) متقی لوگ وہ ہیں جن کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے اور وہ اللہ کے دیئے  ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں اور وہ لوگ ایمان لائے یعنی مشاہدہ کیا۔ نازل ہوا تیری طرف اور اس پر جو نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آخرت کو یقینی(مشاہداتی) طور پر جانتے ہیں۔ وہی لوگ ہدایت پر ہیں اپنے پروردگار کی طرف سے اور وہی ہیں جو مراد کو پہنچے۔ صلوٰۃ کا ترجمہ ’’اللہ سے ربط قائم کرنا ہے۔‘‘

قائم کرتے ہیں صلوۃ یعنی یکسو ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اور ان کا تعلق اللہ سے قائم ہو جاتا ہے۔

انسانی ذہن کی ساخت

ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کہ زندگی یقین کے اوپر قائم ہے۔ اس یقین کو تصوف میں ’’انا‘‘ کہتے ہیں۔ انا یا ذات انسانی روشنی کا ایک ہیولا ہے اور روشنی کا یہ ہیولا دو سمتوں سے بندھا ہوا ہے۔ ایک طرف اپنی اصل کے ساتھ اور دوسری طرف اپنی نوع کے ساتھ۔ انا کی اصل صفات الٰہیہ ہیں۔

یہی صفات الٰہیہ ہیں جن کے ذریعے کائنات کے تمام افراد ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ہم نے کتاب نظریہ رنگ و نور میں تالاب کی مثال دے کر صفات الٰہیہ کی وضاحت کی ہے کہ

ایک تالاب ہے اس میں آپ ایک چھوٹی سی کنکری پھینک دیں۔ بہت بڑے تالاب میں ایک چھوٹی سی کنکری سے دائرے بنتے ہیں اور یہ دائرے بیچ سے شروع ہو کر تالاب کے چاروں کناروں پر گھوم جاتے ہیں ان دائروں کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔

تالاب میں یہ دائرے کائنات اور کائنات کے تمام افراد ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ تالاب کے اندر بننے والے دائرے جس طرح تالاب کی سطح پر ابھر کر متحرک ہوتے ہیں اسی طرح حرکت پوری کرنے کے بعد دوبارہ مل جاتے ہیں۔ کائنات اور افراد کائنات صفات الٰہیہ کے سمندر پر دائروں کی شکل میں متحرک ہیں اور یہ تمام دائرے دوبارہ صفات الٰہیہ میں جذب ہو جاتے ہیں۔

اسی قانون کو قرآن پاک نے ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ کہہ کر بیان کیا ہے۔ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ یعنی تمام کائنات صفات الٰہیہ کا مظہر ہے کائنات اور کائنات کے افراد اپنی شکل و صورت اعمال و اشغال کے ساتھ ایک معینہ حرکت کے بعد دوبارہ صفات الٰہیہ میں جذب ہو جاتے ہیں۔ ہم نے ابھی تالاب میں لہروں کی مثال دی ہے۔ تالاب میں ہر لہر کسی ایک نوع کی شکل و صورت کا نام ہے۔ اس شکل و صورت کا نام ایک طرف نوع ہے اور دوسری طرف فرد ہے۔ ہر فرد کا احساس دو رخوں سے مرکب ہے۔ یہ احساس دریا کی تہہ سے اپنا سفر شروع کر کے دریا کی سطح تک پہنچاتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جب ہم نے تالاب میں کنکری پھینکی تو تالاب کے اندر بے شمار لہریں دائروں کی شکل میں متحرک ہو گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تالاب کے اندر لہریں شکل وصورت میں موجود تھیں۔

سطح سے ابھرنے کے بعد لہر کی شکل میں ظاہر ہونا فرد کا شعور ہے۔ جب تک لہر پانی کے اندر ہے فرد کا لاشعور ہے۔

جب ہم نے یہ بات تسلیم کر لی کہ تالاب کی سطح پر ابھرنے والی تمام لہریں افراد کائنات ہیں تو یہ بات از خود تصدیق ہو گئی کہ ساری کائنات میں ایک مخفی رشتہ قائم ہے اور وہ مخفی رشتہ تالاب کا پانی ہے۔ تالاب کے پانی میں جب حرکت ہوتی ہے تو تالاب کی سطح پر ابھرنے والے تمام افراد خود کو ایک دوسرے سے متعارف اور مانوس محسوس کرتے ہیں اور ساتھ ہی خود کو الگ الگ بھی محسوس کرتے ہیں۔

جب آدمی آسمان اور ستاروں کو دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ وہ ان سے واقف ہے اس کے ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ آسمان اور ستارے بھی میری طرح اس کائنات کا ایک فرد ہیں۔ بظاہر ان کے ساتھ کوئی رشتہ نظر نہیں آتا لیکن جب انسان ان کو دیکھتا ہے تو اپنے اندر ایک قربت کا احساس محسوس کرتا ہے۔ یہ بات ذہن میں نہیں آتی کہ آسمان اور ستاروں سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہی نسبت اور تعلق تالاب کی تہہ میں ہر نوع کے ہر فرد کو حاصل ہے۔

ایک شخص کو پیاس لگتی ہے اور پانی پینے کے بعد اس کی پیاس بجھ جاتی ہے۔ یہی صورتحال زمین کی ہے۔ یہی حال درختوں کا ہے، پرندوں نباتات و جمادات کے ساتھ بھی یہی عمل جاری ہے۔ جس طرح انسان کو پیاس لگتی ہے اور وہ پانی پی کر سیراب ہو جاتا ہے، اسی طرح چھوٹی سے چھوٹی مخلوق پانی پی کر اپنی تشنگی بجھا لیتی ہے۔

انسان کی زندگی کی طرح تمام جذبات و احساسات ہر نوع کے ہر فرد کے اندر کام کرتے ہیں۔ نسل کشی کے سلسلے پر غور کیا جائے تو کائنات میں درخت حیوانات جمادات نباتات سب اس صفت میں انسان کے ساتھی ہیں۔

صعود سے زوال

کائنات ایک بساط پر قائم ہے۔ کائنات کی بساط پر ہر شئے کا روحانی مظاہرہ ہو رہا ہے۔ جب یہ ہستی صعود سے زوال کرتی ہے تو خدوخال کا لباس زیب تن کر لیتی ہے۔ ہم اس خدوخال کے وجود کو کسی بھی طرح   رُوح سے الگ نہیں کر سکتے۔ وجود کا تعلق جب تک   رُوح سے ہے وجود میں حرکت ہے اور جب   رُوح اس وجود سے تعلق منقطع کر لیتی ہے تو وجود باقی نہیں رہتا۔ جس طرح وجود   رُوح کے ساتھ وابستہ ہے اسی طرح   رُوح یا ساری کائنات اللہ کے ذہن کے ساتھ وابستہ ہے۔

’’ہو جا‘‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی چیز موجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ حکم دے رہے ہیں۔ اللہ کے حکم کی تعمیل میں تمام صورتیں وجود میں آ گئیں۔

پہلا نزول یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص علم کو حکم دیا کہ اس کا مظاہرہ ہو اور کائنات تخلیق ہو گئی۔ لیکن افراد کائنات میں گویائی سماعت اور بصارت نہیں تھی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

’’میں تمہارا رب ہوں‘‘

اور جواب میں کائنات نے اقرار کیا۔

’’جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘

ان آیات سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ کائنات کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت سماعت منتقل ہوئی۔ آواز سننے کے بعد جیسے ہی کائنات اس آواز کی طرف متوجہ ہوئی اسے نگاہ مل گئی۔ اللہ تعالیٰ کی آواز سننے کے بعد اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے بعد کائنات نے اس بات کا اقرار کیا۔ جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔ اور کائنات گونگے، بہرے پن سے باہر آ گئی اور اس کو سماعت بصارت احساس اور قوت گویائی منتقل ہو گئی۔ ’’الست بربکم‘‘ کہنے سے پہلے کائنات میں حواس نہیں تھے۔ ’’کُن‘‘ کے بعد الگ الگ افراد تخلیق نہیں ہوئے بلکہ پوری کائنات کے افراد تخلیق ہوئے۔ چونکہ تمام افراد کی ایک ساتھ تخلیق ہوئی اس لئے تمام افراد کے حواس ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی صفات ایک سمندر ہے جس کی سطح پر کائنات کی تمام صورتیں بن گئیں اور ہر صورت اپنی نوع کے اعمال و اشغال انجام دے کر اسی سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔ کائنات کی اربوں، سنکھوں، زمینوں پر اگر غور کیا جائے تو منکشف ہوتا ہے کہ ہر عمل ہر حرکت ہر احساس کہیں سے آ رہا ہے اور کہیں جا کر گم ہو رہا ہے۔ کائنات مسلسل حرکت کر رہی ہے۔ ایک حرکت کو ہم نزولی حرکت کہتے ہیں، دوسری حرکت کو ہم صعودی حرکت کہتے ہیں۔

نزولی صعودی حرکات ایک مخفی رشتے کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں اور یہی مخفی رشتہ کسی ایک نوع یا نوع میں سے ایک فرد کا احساس یا شعور بن رہا ہے۔

فرد کی جسمانی حرکت خدوخال کے ساتھ واقع ہوتی ہے لیکن جسمانی خدوخال کے ساتھ اس حرکت کو اختیاری حرکت نہیں کہہ سکتے۔ یہ حرکت بہرحال کسی نہ کسی حرکت کے تابع ہے۔

(۱) جسمانی خدوخال کے ساتھ جو حرکت صادر ہوتی ہے وہ شعوری حرکات ہیں جن کو خارجی زندگی کہتے ہیں۔

(۲) مخفی احساس جس کے اوپر جسمانی وجود حرکت کرتا ہے کو داخلی زندگی کہتے ہیں۔

(۳) کائنات ایک ہستی کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کو کائنات کا اجتماعی شعور کہتے ہیں۔

ہم نے تالاب کی مثال دے کر یہ سمجھایا تھا کہ پہلے جب ہم تالاب میں کنکری پھینکتے ہیں تو پورے تالاب میں دائرے بنتے ہیں۔ پہلے ایک دائرہ بنتا ہے پھر لاشمار دائرے بنتے ہوئے کنارے تک آ جاتے ہیں اور کناروں پر آ کر تالاب میں چھپ جاتے ہیں یا تالاب انہیں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ 

۱۔ تالاب وہ بساط ہے جس کے اوپر ساری کائنات قائم ہے۔

۲۔ تالاب میں حرکت وہ امر ہے جس کی وجہ سے حرکت وجود میں آتی ہے۔

۳۔ تالاب میں دائرے کائنات کے اندر نوعیں اور نوعوں کے افراد ہیں۔

۴۔ دائروں کا تالاب کے اندر جذب ہوجانا اپنی اصل کی طرف لوٹ جانا ہے۔

۵۔ تالاب کے دائرے بننا اور ان دائروں میں حرکت پیدا ہونا نزولی حرکت ہے دائروں کا تالاب کے اند رجذب ہو جانا صعودی حرکت ہے۔

’’ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ رہی ہے۔‘‘

جب سالک تالاب کے اندر دائروں کے علم سے واقف ہو جاتا ہے۔ تو وہ جان لیتا ہے کہ کائنات کے جتنے بھی افراد ہیں (سیارے نوعیں کہکشائیں) سب ایک ہی ہستی کے تابع ہیں۔ زمین سوج چاند ستارے جنات فرشتے جمادات سب تالاب کے اندر مخفی دائرے ہیں۔

اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ انسان کائنات کی مختلف صفات سے متعارف ہے اور انسان اپنی کوششوں کے ذریعے ان صفات سے زیادہ سے زیادہ تعارف حاصل کر سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

ہم نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا ہے۔

دو قسمیں یا دو رُخ مل کر ایک وجود بنتا ہے۔

پیاس شئے کا ایک رُخ اور پانی دوسرا رُخ ہے۔ پیاس   رُوح کی شکل وصورت اور پانی جسم کی شکل وصورت ہے۔ یعنی جب ہم پیاس کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں دو رُخ آتے ہیں۔ ایک رُخ   رُوح اور دوسرا رُخ جسم۔

قانون:

اگر دنیا سے پیاس کا احساس فنا ہو جائے تو پانی بھی فنا ہو جائے گا۔ پانی اس لئے موجود ہے کہ پانی کی   رُوح موجود ہے۔   رُوح کی موجودگی سے جسم کا موجود ہونا ثابت ہوتا ہے۔ جسم کی موجودگی سے   رُوح کا موجود ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ روزمرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آدمی مر جاتا ہے، جسمانی اعتبار سے تمام خدوخال موجود ہوتے ہیں لیکن حرکت نہیں ہوتی اور جب تک   رُوح جسم کے ساتھ متصل ہے آدمی گلتا سڑتا نہیں ہے اور نہ ہی جسم بکھر کر فنا ہوتا ہے۔

اگر دنیا میں کہیں وبائی امراض پھوٹ پڑے تو اللہ کے قانون کے مطابق یہ امر یقینی ہے کہ اس کی دوا پہلے سے موجود ہوتی ہے۔

جب ہم گرمی محسوس کرتے ہیں اس وقت احساس کے اندرونی رُخ پر سردی کا احساس ہوتا ہے۔ جب تک اندرونی طور پر سردی کا احساس باقی رہتا ہے، خارجی طور پر گرمی محسوس ہوتی ہے۔

اگر گرمی سردی دونوں رخوں میں سے کوئی ایک رُخ فنا ہو جائے تو ہم نہ گرمی کا تذکرہ کر سکتے ہیں نہ سردی کا تذکرہ کر سکیں گے۔ احساس دو رخوں کا اجتماع ہے۔ جب تک دونوں رُخ موجود نہ ہوں، حرکت نہیں ہوتی۔ ایک رُخ علم شئے اور دوسرا رُخ شئے ہے۔ علم شئے سے مراد نفس یا   رُوح ہے۔   رُوح کے بغیر جسمانی وجود برقرار نہیں رہتا اور جسمانی وجود کے مظاہرے میں   رُوح کا عمل دخل امر لازم ہے۔ مرشد کی نظر کرم سے علم شئے کا سراغ مل جائے یا علم شئے کا علم حاصل ہو جائے تو تصرف کے ذریعے شئے کا مظاہرہ ہو جاتا ہے۔


Topics


شرح لوح وقلم

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)