Topics

لیکچر 16 : آدم کا شرف

انسان کی دنیا طول و عرض میں روشنیوں کے تاروں یا روشنیوں کی لہروں سے بنی ہوئی ہے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات انہی تاروں کے اوپر قائم ہیں۔ بہت زیادہ فکر طلب یہ بات ہے کہ ان لہروں کی طوالت جس طرح معین ہے اسی طرح ہر تار کی صفات بھی معین اور مخصوص ہیں اور ہر مخصوص صفت کسی نہ کسی ساخت کو اور کسی نہ کسی نقش کو ظاہر کرتی ہے۔

علیٰ ہذالقیاس کائنات میں جتنی چیزیں موجود ہیں، جتنے رنگ و روپ ہیں، جتنی صلاحیتیں ہیں، جتنی نوعیں ہیں اور ہر نوع کے جتنے افراد ہیں۔ ہر ایک کے لئے ایک مخصوص طول حرکت موجود ہے۔ انہی حرکات کی مخصوص آمیزش کا نتیجہ کسی نوع کے افراد کی شکل وصورت ہے۔

تانے بانے کی اسکرین پر جو تصویر روشنیوں سے بنی ہوئی ہے اس کا ایک رُخ خود تصویر ہے اور دوسرا رُخ روشنی کے تار ہیں۔

عالم ارواح میں کائنات کی موجودگی اس طرح ہے کہ وہاں احساس کی درجہ بندی نہیں ہے۔ عالم ارواح میں موجود کائنات کے تمام اجزاء عالم تخیل میں ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ وہ کیوں ہیں، کہاں ہیں، کس لئے ہیں اور ان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے اس سکوت کو توڑنے کے لئے افراد کائنات کو عالم تحیر سے عالم تعارف میں داخل کرنے کے لئے اپنی آواز سے سماعت عطا کی۔ جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی سماعت منتقل ہوئی تو ابعاد کا پہلا درجہ تخلیق پا گیا۔ یعنی فرد کے اندر سماعت کا پہلا نقش مرتب ہوا۔ سماعت کے بعد ساتھ ہی ساتھ اسے یہ حس حاصل ہوئی کہ کوئی آواز دے رہا ہے۔ جیسے ہی آواز کی طرف ذہن منتقل ہوا دوسرا ابعاد یا دوسرا Dimensionتخلیق میں آ گیا۔ یہ دوسرا Dimensionیا ابعاد نگاہ ہے۔ بصارت کے ساتھ تعارف کی حس تخلیق ہوئی۔ جاننے اور سمجھنے کا Dimensionجیسے ہی وجود میں آیا تو قوت گویائی کا مظاہرہ ہوا۔ قوت گویائی کے حاصل ہوتے ہی کسی چیز کو رد کرنے یا قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔

جب دو رُخ ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں اور ان دونوں کو کئی دوسرے رُخ مل کر ایک مجموعی حیثیت دے دیتے ہیں تو اس اجتماع کو ’’وجود شئے‘‘ کہتے ہیں۔ وجود شئے میں متصل ہونے کے ساتھ ساتھ رخوں کا الگ الگ تعین ہے۔ یہ تعین ہی زماں اور مکاں ہے۔ یعنی وجود اشیاء کا درمیانی فصل زماں و مکاں ہے۔ عالم ارواح میں زماں و مکاں نہیں ہوتے۔ وہاں شئے کا وجود امر کی شکل و صورت میں موجود ہے۔

حرکت میں ایک رُخ ہمیشہ غالب رہتا ہے اور دوسرا رُخ مغلوب رہتا ہے۔ جو رُخ غالب رہتا ہے اس کو شخص اکبر اور جو رُخ مغلوب رہتا ہے اسے شخص اصغر کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جہاں تذکرہ کیا ہے کہ ہم نے آدم کو علم الاسماء عطا کیا۔ اس سے منشاء یہ ہے کہ آدم کو روئے زمین کے اوپر جتنی بھی موجودات ہیں ان کے خواص کا علم دے دیا گیا ہے۔ خواص سے مراد یہ ہے کہ کن چیزوں میں اللہ کے کون سے اسماء صلاحیت بن کر مظاہرہ کر رہے ہیں۔

علم الاسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چیزوں کے عنوانات ان کی خاصیتوں اور چیزوں کی ماہیتوں کا علم آدم کو سکھا دیا۔ چیزوں کی خاصیتوں اور ماہیتوں کا علم ہی وہ علم ہے جو انسان کے شرف کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کی بنیاد پر انسان کو شخص اکبر کا درجہ حاصل ہے۔ چیزوں کی ماہیت خاصیتوں اور اسماء کے علم کا حامل بندہ اللہ تعالیٰ کی نیابت کے فرائض انجام دیتا ہے۔ افراد کائنات میں نوعِ ملاء اعلیٰ ہوں نوعِ ملائکہ ہوں، نوعِ جنہ ہوں، نوعِ نباتات ہوں، نوعِ جمادات ہوں، سب پر آدم کو فضیلت حاصل ہے۔ اگر آدم کو علم الاسماء حاصل نہیں ہے تو وہ اشرف المخلوقات نہیں ہے۔

اسمائے الٰہیہ

الہامی کتابیں اور آسمانی صحائف کا مطالعہ کرنے کے بعد بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا طرز کلام اور طرز انتخاب اس طرح ہے کہ وہ ایک بات کو مختلف زاویوں اور مختلف پیراؤں میں بیان کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں تفکر کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ قرآن میں ایک ہی بات کو بار بار دوہرایا گیا ہے اور یہ دوہرانا تکرار Repetationہے۔ حالانکہ یہ تکرار نہیں ہے بلکہ انسانی شعور کی سکت کے مطابق کسی بات کو مختلف زاویوں سے بیان کیا گیا ہے۔ کسی بات کو مختلف زاویوں میں بیان کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ بات ذہن نشین ہو جاتی ہے اور انسانی عقل و شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی عوامل میں مختلف زاویوں سے مختلف پیراؤں سے اور مختلف مثالوں کے ذریعے  غورکرے۔

اللہ تعالیٰ جب اپنی ربوبیت اور خالقیت کا تذکرہ فرماتے ہیں تو زمین پر پھیلی ہوئی موجودات کی مثال دیتے ہیں کبھی زمین سے باہر آسمان، کرسی اور عرش کی مثال دیتے ہیں۔ کبھی بادلوں سے بارش برسنے کی مثال دیتے ہیں، کبھی بارش کس طرح برستی ہے اس کی مثال دیتے ہیں۔ ہواؤں کی مثال دے کر انسانی شعور کو اپنی تخلیق کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ سورہ رحمان میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات و اکرامات کا تذکرہ کیا ہے تو کئی  بار ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا طرز تخاطب ہے اور اللہ تعالیٰ کی ایسی سنت ہے جس میں تغیر اور تعطل نہیں ہوتا۔

جتنے بھی پیغمبران علیہم السلام تشریف لائے۔ سب نے یہ بات ضرور ارشاد فرمائی ہے کہ ہم کوئی نئی بات نہیں کہہ رہے ہیں۔ باعث تخلیق کائنات سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی ارشاد فرمایا ہے۔ جب ہم پیغمبروں کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو باوجودیہ کہ بات ایک ہی ہے لیکن ہر پیغمبر نے قوم کے مزاج، شعور اور عقلی تقاضوں کے تحت اپنی بات کو مختلف مثالوں میں بیان فرمایا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ کا اور کائنات کے تخلیقی رشتوں کا تذکرہ فرمایا تو فرمایا۔ (God said light, and there was light) خدا نے کہا، روشنی اور روشنی کا مظاہرہ ہو گیا۔ اسی بات کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔

اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔

قرآن پاک میں جب جب دولت پرستی اور حرص و ہوس اور ذخیرہ اندوزی کا تذکرہ ہوا تو قرآن پاک کے الفاظ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات اس طرح بیان فرمائی کہ وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں ان کے لئے درد ناک عذاب کی بشارت ہے۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

اپنے حواریوں سے کہو کہ کوئی آدمی تم سے آ کر یہ کہے کہ سوئی کے سوراخ میں سے اونٹ گزر گیا تو یہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بندہ تم سے یہ کہے کہ سرمایہ دار جنت میں داخل ہو گیا تو یہ نہیں ہو سکتا۔ بات ایک ہے لیکن زاویے الگ ہیں۔ ظاہر ہے جو بندہ عذاب میں گرفتار ہوتا ہے اس پر آسمانی دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

علیٰ ہذالقیاس جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں ان کے اندر جب تفکر اور تدبر کیا جاتا ہے تو سب ایک ہی بات کا پرچار کرتی ہیں لیکن بیان کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔

خالق اور بندے کا ایک مخصوص رشتہ ہے اور خالق نے یہ کائنات اس لئے تخلیق کی ہے کہ وہ پہچانا جائے۔ خالق نے مخلوق کو محبت کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور س محبت کی وجہ سے کائنات کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لئے وسائل فراہم کئے ہیں اور ان وسائل میں ایسی تدابیر ایسی تدوین اور ایسا تسلسل قائم کیا ہے کہ کسی آن اور کسی لمحے یہ تدبیر و تدوین تعطل کا شکار نہیں ہوتیں۔ اس بڑے نظام کو سمجھنے کے لئے اللہ نے ایسے بندے مبعوث کئے ہیں جن بندوں کو خود یہ علم سکھا کر اللہ نے نیابت اور خلافت کے اختیارات عطا کئے ہیں۔ زندگی کی حرکات و سکنات قائم رکھنے کے لئے وسائل کی پیدائش، وسائل کی فراہمی اور وسائل کی تقسیم کے انتظام کو رُوحانیت  میں تکوین کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو جن خدوخال پر اور اپنی جن صفات پر تخلیق کیا ہے ان کو سمجھنے کے لئے انتظامی امور میں داخل ہونا اور انتظامی امور میں داخل ہونے کے لئے تکوینی امور کا جاننا ضروری ہے۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق تکوینی علوم اللہ تعالیٰ نے صرف آدم کو سکھائے اور جہاں اپنی نیابت اور خلافت کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں بھی پوری کائنات میں صرف آدم کو منتخب کیا ہے۔


Topics


شرح لوح وقلم

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)