Topics
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی صاحب کو حکم دیا گیا ہے کہ جس طرح بھی ہو ’’توحید‘‘ کو ہر مذہب وملت میں روشناس
کرانے کی عملی جدجہد کریں۔اس عملی جدوجہد میں امراض کا علاج اور مسائل کا حل بھی شامل
ہے ۔
حکم کی تعمیل میں آپ
اوائل ۱۹۶۹ء سے ہی حضور قلندر
بابااولیاء کی زیر سرپرستی علاج معالجہ کے شعبہ سے منسلک ہیں جس میں مریضوں کو دم کرنا
آپ کی ذمہ داری تھی(یاد رہے کہ حضور قلندر بابااولیاء نے آپ کو امراض سلب کرنے کا تین
سال کا کورس کروایا ہے)۔ آپ بیٹھ کرمریضوں کے امراض سلب کرکے زمین میں جذب کرتے تھے۔
بعض اوقات آپ کے ہاتھ متورم ہوجاتے اور رات کو ہاتھوں پر مالش کرنا پڑتی تھی۔ مریضوں
کا اتنا ہجوم ہوجاتا تھا کہ گھر کے سامنے سڑک پر ٹینٹ لگا نا پڑتا تھا۔
۱۹۶۹ء سے تادم تحریر خدمت
خلق کی اس روایت کو قائم رکھا گیا ہے۔ مرکزی مراقبہ ہال میں ہفتہ میں دو روز خواتین
و مرد حضرات کے علاج معالجہ کا پروگرام ہوتا ہے۔ جس دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق
سالانہ۴۰۰،۱۴ مسائل کا حل پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ
حضرت عظیمی صاحب سے مسائل کے حل کے لئے ملاقات کرنے والے خواتین و حضرات کے مسائل کے
حل کی تعداد اس سے کئی گنا ہے۔ ملک اور بیرون ملک قائم تمام مراقبہ ہالز میں مرکزی
مراقبہ ہال کی پیروی میں مفت علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔
عظیمی صاحب نے امراض
کے علاج کے لئے مختلف طریقہ ہائے علاج استعمال فرمائے ہیں۔ جن کی ترتیب کچھ اس طرح
ہے۔
انسان نے اب تک رنگ
کی تقریباً ساٹھ قسمیں معلوم کی ہیں ان میں بہت تیزنگاہ والے ہی امتیازکرسکتے ہیں۔جس
چیزکو اس کی نگاہ محسوس کرتی ہے ،اس کو رنگ ، روشنی، جواہرات اور آخرمیں کم وبیش پانی
سے تعبیر کرتاہے۔اس بات سے قطع نظرکہ آسمانی رنگ کیا ہے،کس طرح بناہے۔ آیاوہ صرف خیالی
ہے یا کوئی حقیقت ہے۔ بہر کیف انسان کی نگاہ اسے محسوس کرتی ہے اور اسے جونام دیتی
ہے وہ آسمانی ہے۔
حدنگاہ سے زمین کی طرف
آئیے تو آپ کونیلے رنگ کی لاتعداد رنگین شعاعیں ملیں گی،یہاں اس لفظ رنگ کو’’قسم‘‘کہا
جاسکتاہے۔ دراصل قسم ہی وہ چیز ہے جو ہماری نگاہوں میں رنگ کہلاتی ہے۔ یعنی رنگ کی
قسمیں،صرف رنگ نہیں بلکہ رنگ کے ساتھ فضامیں اور بہت سی چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ
اس میں تبدیلی پیداکردیتی ہیں،اسی چیزکو’’قسم‘‘کے نام سے بیان کرنا ہمارا منشاء ہے۔
رنگ کاجومنظرہمیں نظر
آتاہے اس میں روشنی ،آکسیجن ،نائٹروجن اور قدرے دیگر گیسیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ان گیسوں
کے علاوہ کچھ سائے بھی ہوتے ہیں جو ہلکے ہوتے ہیں یا دبیز،کچھ اور بھی اجزاء اسی طرح
آسمانی رنگ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ان ہی اجزاء کو ہم مختلف قسمیں کہتے ہیں یا مختلف
رنگوں کانام دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ ان میں ہلکے اور دبیزسایوں
کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔
جس فضاسے ہمیں رنگ کا
فرق نظر آتاہے اس فضامیں نگاہ اور حد نگاہ کے درمیان، باوجود مطلع صاف ہونے کے بہت
کچھ موجود ہوتاہے۔ اول ہم ان روشنیوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو خاص طور پر آسمانی رنگ پر
اثر انداز ہوتی ہیں۔
روشنیوں کا سرچشمہ کیا
ہے اس کا بالکل صحیح علم انسان کو نہیں ہے۔ قوس قزح کا جو فاصلہ بیان کیا جاتا ہے وہ
زمین سے تقریباً نو کروڑ میل ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو رنگ ہمیں اتنے قریب نظر
آتے ہیں وہ نو کروڑ میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ اب یہ سمجھنا مشکل کام ہے کہ سورج کے
اور زمین کے درمیان علاوہ کرنوں کے اور کیا کیا چیزیں موجود ہیں جو فضا میں تحلیل ہوتی
رہتی ہیں۔
جو کرنیں سورج سے ہم
تک منتقل ہوتی رہتی ہیں ان کا چھوٹے سے چھوٹا جز و فوٹان کہلاتا ہے اور اس فوٹان کا
ایک وصف یہ ہے کہ اس میں اسپیس نہیں ہوتا۔ اسپیس سے مراد ’’ابعاد‘‘ ہیں یعنی اس میں
لمبائی چوڑائی موٹائی نہیں ہے۔ اس لئے جب یہ کرنوں کی شکل میں پھیلتے ہیں تو نہ ایک
دوسرے سے ٹکراتے ہیں، نہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں۔ باالفاظ دیگر یہ جگہ نہیں روکتے،
اس وقت تک جب تک کہ دوسرے رنگ سے نہ ٹکرائیں۔
یہاں رنگ کو پھر سمجھئے!
فضا میں جس قدر عناصر موجود ہیں ان میں سے کسی عنصر سے فوٹان کا ٹکراؤ ہی اسے اسپیس
دیتا ہے۔ دراصل یہ فضا کیا ہے، رنگوں کی تقسیم ہے۔ رنگوں کی تقسیم جس طرح ہوتی ہے وہ
اکیلے فوٹان کی رو سے نہیں ہوتی بلکہ ان حلقوں سے ہوتی ہے جو فوٹانوں سے بنتے ہیں۔
جب فوٹانوں کا ان حلقوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو اسپیس یا رنگ وغیرہ کئی چیزیں بن جاتی
ہیں۔
ہمارے کہکشانی نظام
میں بہت سے سورج ہیں ، وہ کہیں نہ کہیں سے روشنی لاتے ہیں ۔ ان کا درمیانی فاصلہ کم
سے کم پانچ نوری سال تبایا جاتا ہے۔ جہاں ان کی روشنیاں آپس میں ٹکراتی ہیں وہ روشنیاں
چونکہ قسموں پر مشتمل ہیں اس لئے حلقے بنادیتی ہیں جیسے ہماری زمین یااورسیارے ۔
اس کا مطلب یہ ہواکہ
سورج سے یا کسی اور اسٹار سے جن کی تعداد ہمارے کہکشانی نظام میں دو کھرب بتائی جاتی
ہے۔ ان کی روشنیاں سنکھوں کی تعداد پر مشتمل ہیں اور جہاں ا ن کا ٹکراؤ ہوتاہے وہیں
ایک حلقہ بن جاتاہے جسے سیارہ کہتے ہیں ۔اب فوٹان میں اسپیس پیدا ہوجاتا ہے اور اسپیس
کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے کو الیکٹران کہتے ہیں۔ جہاں فوٹان اور الیکٹران دونوں ٹکراتے
ہیں وہیں سے نگاہ رنگ دیکھناشروع کردیتی ہے۔
چارپیروں سے چلنے والے
جانور اوراڑنے واے پرندے آسمانی رنگ کو تمام جسم میں یکساں قبول کرتے ہیں۔اسی وجہ سے
عام طور پران میں جبلت کام کرتی ہے ،فکر کام نہیں کرتی یازیادہ سے زیادہ انہیں سکھایاجاتاہے
لیکن وہ بھی فکر کے دائرے میں نہیں آتا۔ جن چیزوں کی انہیں اپنی زندگی میں ضرورت پڑتی
ہے صرف ان چیزوں کو قبول کرتے ہیں، ان میں زیادہ غیر ضروری چیزوں سے یہ واسطہ نہیں
رکھتے۔ جن چیزوں کی انہیں ضرورت ہوتی ہے ان کاتعلق زیادہ ترآسمانی رنگ کی لہروں سے
ہوتاہے۔
آدمی سب سے پہلے آسمانی
رنگ کا مخلوط یعنی بہت سے ملے ہوئے رنگوں کو اپنے بالوں اور سر میں قبول کرتا ہے اور
اس رنگ کا مخلوط پیوست ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جتنے خیالات، کیفیات اور محسوسات وغیرہ
اس رنگ کے مخلوط سے اس کے دماغ کو متاثرکرتے ہیں وہ اتنا ہی متاثر ہوتا ہے۔دماغ میں
کھربوں خانے ہوتے ہیں اور ان میں سے برقی رو گزرتی رہتی ہے۔ اسی برقی رو کے ذریعے خیالات،
شعور اور تحت الشعور سے گزرتے رہتے ہیں اور اس سے بہت زیادہ لاشعور میں۔دماغ میں مخلوط
آسمانی رنگ آنے سے اور پیوست ہونے سے خیالات، کیفیات، محسوسات وغیرہ برابر بدلتے رہتے
ہیں۔
اس کی نوعیت یہ ہوتی
ہے کہ اس رنگ کے سائے ہلکے بھاری یعنی طرح طرح کے اپنا اثر کم و بیش پیدا کرتے ہیں
اور فوراً اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ دوسرے سائے ان کی جگہ لے سکیں۔ بہت سے سائے
جنہوں نے جگہ چھوڑ دی ہے محسوسات بن جاتے ہیں اس لئے کہ وہ گہرے ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ
بہت سے خیالات کی صورتیں منتشر ہوجاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ انسان ان خیالات کو ملانا سیکھ
لیتا ہے ان میں سے جن خیالات کو بالکل کاٹ دیتا ہے وہ حذف ہوجاتے ہیں اور جو جذب کرلیتا
ہے وہ عمل بن جاتے ہیں۔ یہ سائے اسی طرح کام کرتے رہتے ہیں۔ انہی سایوں کے ذریعہ انسان
رنج و راحت حاصل کرتا ہے۔ کبھی وہ رنجیدہ اور بہت رنجیدہ ہوجاتا ہے، کبھی وہ خوش اور
بہت خوش ہوجاتا ہے۔
یہ سائے جس قدر جسم
سے خارج ہوسکتے ہیں ہوجاتے ہیں لیکن جتنے جسم کے اندر پیوست ہوجاتے ہیں وہ اعصابی نظام
بن جاتے ہیں۔آدمی دو پیر سے چلتا ہے اس لئے سب سے پہلے ان سایوں کا اثر اس کا دماغ
قبول کرتا ہے۔ دماغ کی چند حرکات معین ہیں جن سے وہ اعصابی نظام میں کام لیتا ہے۔ سر
کا پچھلا حصہ یعنی ام الدماغ اور حرام مغز اس اعصابی نظام میں خاص کام کرتا ہے۔ رنج
و خوشی دونوں سے اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ رنج و خوشی دراصل بجلی کی ایک رو ہے جو
دماغ سے داخل ہوکر تمام اعصاب میں سماجاتی ہے۔
ان لہروں کا وزن، تجزیہ،
فضا، ہر جگہ بالکل یکساں نہیں ہوتا بلکہ جگہ جگہ تقسیم ہوتا ہے اور اس تقسیم کار میں
وہ لہروں کے کچھ سائے زیادہ جذب کرتا ہے اور کچھ سائے کم۔ انسان کے دماغ میں لا شمار
خلئے بھی کام کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان لاشمار خلیوں میں سائے کی لہریں جو
فضا سے بنتی ہیں وہ اپنے اثرات کو برقرار رکھیں۔
کبھی ان کے اثرات بہت
کم رہ جاتے ہیں، کبھی ان کے اثرات بالکل نہیں رہتے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تمام خلئے
جو دماغ سے تعلق رکھتے ہیں کسی وقت خالی نہیں رہتے۔ کبھی ان کا رخ ہوا کی طرف زیادہ
ہوتا ہے کبھی پانی ، کبھی غذا اور کبھی تنہا روشنی کی طرف۔ اسی روشنی سے رنگ اور رنگوں
کی ملاوٹی شکلیں بنتی ہیں اور خرچ ہوتی رہتی ہیں۔آسمانی رنگ فی الحقیقت کوئی رنگ نہیں
بلکہ وہ ان کرنوں کا مجموعہ ہے جو ستاروں سے آتی ہیں۔ کہیں بھی ان ستاروں کا فاصلہ
پانچ نوری سالوں سے کم نہیں (ایک کرن ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ
کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس طرح نوری سال کا حساب لگایا جاسکتا ہے)۔ہر ستارہ کی روشنی
سفر کرتی ہے اور سفر کرنے کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی ہے۔ ان میں ایک کرن کا کیا
نام رکھا جائے یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔نہ انسان کرن کے رنگ کو آنکھوں میں جذب
کرسکتا ہے۔
یہ کرنیں مل جل کے جو
رنگ بناتی ہیں وہ تاریک ہوتا ہے اور اس تاریکی کو نگاہ آسمانی محسوس کرتی ہے۔ انسان
کے سر میں اس کی فضا سرایت کرجاتی ہے نتیجے میں وہ لاتعداد خلئے جو انسان کے سر میں
موجود ہیں اس فضا سے معمور ہوجاتے ہیں اور یہاں تک معمور ہوتے ہیں کہ ان خلیوں میں
مخصوص کیفیات کے علاوہ کوئی کیفیت سما نہیں سکتی۔ یا توہر خلئے کی ایک کیفیت ہوتی ہے
یا کئی خلیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے اور ان کی وجہ سے ایک دوسرے کی کیفیات شامل ہوجاتی
ہیں لیکن یہ اس طرح کی شمولیت نہیں ہوتی کہ بالکل مدغم ہوجائے بلکہ اپنے اپنے اثرات
لے کر خلط ملط ہوجاتی ہے ۔اس طرح دماغ کے لاتعداد خلئے ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتے
ہیں اور یہاں تک پیوست ہوتے ہیں کہ ہم کسی خلئے کا عمل، رد عمل ایک دوسرے سے الگ نہیں
کرسکتے بلکہ وہ مل جل کر وہم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ
انسان تو ہماتی جانور ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ خلیوں کی یہ فضا تو ہمات کہلاسکتی ہے
یا خیالات یا محسوسات یہ تو ہماتی فضا دماغی ریشوں میں سرایت کرجاتی ہے، ایسے ریشے
جو باریک ترین ہیں۔خون کی گردش رفتار ان میں تیز تر ہوتی ہے، اسی گردش رفتار کا نام
انسان ہے۔ خون کی نوعیت اب تک جو کچھ سمجھی گئی ہے فی الواقع اس سے کافی حد تک مختلف
ہے۔
آسمانی فضا سے جو تاثرات
دماغ کے اوپر مرتب ہوتے ہیں وہ ایک بہاؤ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور حقیقت میں ان
کو تو ہمات یا خیالات کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ جب آسمانی رنگ کی فضا خون
کی روبن جاتی ہے تو اس کے اندر وہ حلقے کام کرتے ہیں جو دوسرے ستاروں سے آئے ہیں وہ
حلقے چھوٹے سے چھوٹے ہوتے ہیں، اس قدر چھوٹے کہ دوربین بھی انہیں نہیں دیکھ سکتی لیکن
ان کے تاثرات عمل کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ انسان کے اعصاب میں وہی حرکات بنتے ہیں
اور انہیں کی زیادتی یا کمی اعصابی نظام میں خلل پیدا کرتی ہے۔رنگوں کا فرق بھی یہیں
سے شروع ہوتا ہے۔
ہلکا آسمانی رنگ بہت
ہی کمزور قسم کا وہم پیدا کرتا ہے۔ یہ وہم دماغی فضا میں تحلیل ہوجاتا ہے اس طرح کہ
ایک ایک خلئے میں درجنوں آسمانی رنگ کے پر تو ہوتے ہیں یہ پر تو الگ الگ تاثرات رکھتے
ہیں۔ وہم کی پہلی روخاص کر بہت ہی کمزور ہوتی ہے۔ جب یہ رو دو یا دو سے زیادہ چھ تک
ہوجاتی ہیں اس وقت ذہن اپنے اندر وہم کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ وہم اتنا طاقتور ہوتا
ہے کہ اگر جنبش نہ کرے اور ایک جگہ مرکوز ہوجائے تو آدمی نہایت تندرست رہتا ہے اسے
کوئی اعصابی کمزوری نہیں ہوتی بلکہ اس کے اعصاب صحیح سمت میں کام کرتے ہیں۔ اس روکا
اندازہ بہت ہی شاذ ہوتا ہے۔
اگر یہ رو کسی ایک ذرہ
پر یا کسی ایک سمت میں یا کسی ایک رخ پر مرکوز ہوجائے اور تھوڑی دیر بھی مرکوز رہے
تو دور دراز تک اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ انسان کو اس رو کے ذریعہ متاثر کیا جاسکتا
ہے۔ سب سے پہلا اثر اس کا دماغی اعصاب پر ہوتا ہے، یہاں تک کہ دماغ کے لاکھوں خلئے
اس کی چوٹ سے فنا ہوجاتے ہیں۔ اب دماغی خلئے جو باقی رہتے ہیں وہ ام الدماغ کے ذریعہ
اسپائنل کورڈ (Spinal Cord) میں اپنا تصرف لے جاتے ہیں۔یہی وہ تصرف ہے جو باریک ترین ریشوں میں
تقسیم ہوتا ہے۔
اس تصرف کے پھیلنے سے
جو حواس بنتے ہیں، ان میں سب سے پہلی حس نگاہ کی ہے۔ آنکھ کی پتلی پر جب کوئی عکس پڑتا
ہے تو وہ اعصاب کے باریک ترین ریشوں میں ایک سنسناہٹ پیدا کردیتا ہے۔ یہ ایک مستقل
برقی رو ہوتی ہے اگر اس کا رخ صحیح ہے تو آدمی بالکل صحت مند ہے، اگر اس کا رخ صحیح
نہیں ہے تو دماغ کی فضا کا رنگ گہرا ہوجاتا ہے اور گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک
کہ دماغ میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اور اعصاب اس رنگ کے پریشر کو برداشت نہیں کرسکتے۔
آخر میں یہ رنگ اتنا گہرا ہوجاتا ہے کہ اس میں تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں مثلاً آسمانی
رنگ سے نیلا رنگ بن جاتا ہے۔ درمیان میں جو مرحلے پڑتے ہیں وہ بے اثر نہیں ہیں۔ سب
سے پہلے مرحلے کے زیر اثر آدمی کچھ وہمی ہوجاتا ہے، اسی طرح یکے بعد دیگر مرحلے رونما
ہوتے ہیں۔ رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے اور وہم کی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ دماغ کے باریک ترین
ریشے بھی اس تصرف کا اثر قبول کرتے ہیں۔
اگر رنگ کی مقدار کوکنٹرول
کرلیا جائے تو مرض کا علاج ہوجاتا ہے۔ ان رنگوں کی کمی کو پورا کرنے یا زیادتی کو ختم
کرنے کے لئے سورج کی شعاؤں یا روشنی کو رنگین بوتلوں کی مدد سے پانی ، تیل یاDistilled Water Ampules میں جذب کرکے،
کمرے کی کھڑکیوں میں
مختلف رنگ کے شیشے لگواکر یا مطلوبہ رنگ کے بلب سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ رنگوں
کی کمی کو پورا کرنے یا زیادتی کو ختم کرنے کے لئے روشنی اور رنگ سے تیار کردہ پانی
انتہائی درجہ فائدہ مند ثابت ہوا ہے کیونکہ یہ علاج مفت بر ابر ہے ۔ آسان ہے اور کوئی
پابندی یا کسی قسم کا قابل ذکر پرہیز نہیں کیا جاتا اور علاج ہر گھر میں جو پانی استعمال
ہوتاہے اسی پانی سے ہوتاہے ۔ فرق اتنا ہے کہ چند قسم کے رنگ اور چند قسم کی روشنیاں
پانی میں سرایت کر جاتی ہیں۔ جب یہ پانی استعمال ہوتاہے تومعدہ اس کو چیک نہیں کرتا
بلکہ براہ راست یہ پانی خون میں اور اعصاب میں شامل ہوجاتاہے ۔یہ اس کی بہت بڑی خصوصیت
ہے جو دنیاکی کسی دوامیں نہیں ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ انسانی جسم کے
اندر یہ پانی کیا تغیر پیدا کرسکتاہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے
کہ پانی خون کے اندر دورکرتاہے جیسے عام پانی دورکرتا ہے یہ خصوصیت بھی دنیا کی کسی
دوامیں نہیں ہے ۔تیسری سب سے بڑی اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پانی جس وقت خون کے اندرگردش
کرتا ہے اس وقت رگوں ،نسوں اور گوشت پوست کے اندر اس کارنگ اوراس کی روشنیاں تحلیل
ہوجاتی ہیں اورباقی عام پانی پسینہ کے ذریعہ یابول برازکے ذریعہ خارج ہوجاتاہے۔دنیا
کی ہر دوااپنااثرچھوڑتی ہے اوراپنااثر چھوڑ کرخارج ہوجاتی ہے۔رنگ اور روشنی کی طرح
اعصاب میں پیوست نہیں ہوتی۔ یہ اسی علاج کی ایک اہم خصوصیت ہے ۔
رنگ اور روشنی سے تیار
شدہ پانی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ رنگ اور روشنی سے جو پانی الگ ہوتاہے وہ پانی اعصاب،
رگوں، دل، دماغ اور خون کے ذرات کو دھو ڈالتا ہے اور جتنے زہریلے مادے ہوتے ہیں انہیں
اپنے ساتھ لے جاتاہے جو خارج ہوجانے ہیں۔
تجربہ میں یہ بات آئی
ہے کہ ماسوا سرخ رنگ پانی کے کسی رنگین پانی کا ری ایکشن نہیں ہوتا۔سرخ رنگ پانی کی
زیادتی سے دست آجاتے ہیں یا بلڈ پریشر بھی ہائی ہوسکتا ہے۔جو بڑی آسانی کے ساتھ سبز
شعاعوں کے پانی سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ
کا ارشاد ہے ’’ اللہ سمٰوات اور ارض کا نور ہے‘‘ اس آیت میں نور کی پوری تشریح کی گئی
ہے۔آیت مقدسہ کی تشریح کے پیش نظر آسمان اور زمین روشنی ہے یعنی آسمان اور زمین پر
موجود ہر شئے کا قیام نور (روشنی ) پر ہے۔کائنات میں کوئی ذرہ ایسا نہیں ہے جو روشنی
کے ہالے میں بند نہ ہو۔اللہ پاک کا یہ بھی ارشاد ہے ’’ پاک اور بلند ہے وہ ذات جس نے
معین مقداروں کے ساتھ تخلیق کی‘‘ ۔
روشنی کی یہ الگ الگ
مقداریں ہی انفرادیت پیدا کرتی ہیں۔ روشنی جب دماغ پر نزول کرکے بکھرتی ہے تو اس میں
رنگ پیدا ہوجاتے ہیں ۔رنگوں کی یہ لہریں ہر تخلیق میں وولٹیج کا کام کرتی ہیں۔کوئی
انسان سنکھیا کھاکر اس لئے مرجاتا ہے کہ سنکھیا کے اندر کام کرنے والے برقی نظام کا
وولٹیج انسان کے اندر کام کرنے والے وولٹیج سے زیادہ ہوتا ہے۔
نگینہ یا پتھر کے اندر
بھی روشنی دور کرتی رہتی ہے ۔اگر انسان کی روشنیاں اور پتھر کی روشنیاں باہم مطابقت
رکھتی ہیں تو یہ پتھر انسان کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔پتھر کی روشنیاں اور انسان کے
اندر دور کرنے والی روشنیاں باہم دگر مل کر ایک طاقت بنالیتی ہیںیہ طاقت براہ راست
دماغ کو تقویت دیتی ہے اور انسان کی بہت سی خفیہ صلاحیتیں بیدارہوجاتی ہیں۔یہ کوئی
ایسی بات نہیں ہے جو فہم و ادراک سے ماوراء ہو۔
ہمارا عام مشاہدہ ہے
کہ محلول جسم پر لگانے سے کھال جل جاتی ہے اور کوئی دوسری چیز جسم پر رکھنے یا ملنے
سے ہمیں راحت ملتی ہے۔بات یہ ہے کہ جب ہمارے جسم پر کوئی چیز رکھی جاتی ہے یا ہمارا
ہاتھ کسی چیز سے مس ہوتا ہے تو اس چیز کے اندر کام کرنے والی لہریں فی الفور ہمارے
دماغ کو متاثر کرتی ہیں۔بالکل یہی صورت نگینہ او ر پتھر کی ہے ۔انگوٹھی میں کوئی نگینہ
یا پتھر انگلی سے مس ہوتا ہے تو ان کے اندر کام کرنے والا والٹیج دماغ میں پہنچتا ہے
اور دماغ کو طاقت بخشتا ہے۔
جہاں تک انگوٹھی میں
پتھر یا نگینہ پہننے کا تعلق ہے، معمولی نگینہ بھی اپنے رنگ کی بنا پر وہی خاصیت رکھتا
ہے جو قیمتی پتھر رکھتا ہے۔یہ دیکھنے کے لئے آپ کے پاس موجود پتھر آپ کو کیا فوائد
دے سکتا ہے۔ آپ ایک کاغذ پر یہ دائرہ اس طرح بنائیں کہ اندرونی دائرہ کا قطر ۴/۳ ۲ انچ اور بیرونی دائرہ کا قطر ۲/۱ ۲ انچ ہو۔
اب با وضو دو رکعت نماز
نفل استخارہ پڑھیں۔ پھر سورۂ یاسین ایک مرتبہ پڑھ کر اپنے پاس موجود تمام پتھروں (جن
کے فوائد جانچنے ہیں) پر دم کریں۔ اور ان میں سے ایک پتھر دائرہ کے وسط میں رکھ کر
اس کے اوپر انگشت شہادت کو آہستہ سے رکھیں۔ یعنی انگلی پتھر سے صرف مس کرے لیکن پتھر
کی حرکت میں رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ اب آپ آہستہ آہستہ
اِنَّہُ مِنْ سُلَیْمَانَ
وَاِنَّہُ لَیْسَ لَھَامِنْ دُوْنِ اﷲِ کَاشِفَہ
بلا تعداد پڑھتے جائیں۔چند
منٹوں کے بعد ہی پتھر میں حرکت پیدا ہوگی اور دائرہ کے جس خانہ میں جاکر رک جائے یہ
پتھر آپ کے لئے اسی تاثیر کا حامل ہوگا اور یہی فائدہ پہنچائے گا۔
اگر پتھر حرکت کرتا
ہوا متعدد خانوں میں سے گزرے تو جن جن خانوں سے پتھر گزرا یہ آپ کے لئے اتنی ہی تاثیرات
کا حامل ہوگا۔ اگر پتھر حرکت نہ کرے تو یہ پتھر آپ کے لئے فائدہ مند نہ ہوگا۔
ایک کے بعد دم شدہ پتھروں
میں سے دوسرا پتھر دائرہ میں رکھ کر پھر مذکورہ عمل پڑھنا شروع کردیں۔ اسی طرح آپ ایک
ہی نشست میں بہت سے پتھروں اور نگینوں کے خواص اپنے لئے معلوم کرسکتے ہیں۔ پتھر یانگ
کا وزن تین رتی سے کم نہیں ہونا چاہئے۔
اسی طرح نام یا تاریخ
پیدائش کے مطابق بھی، پتھر یا نگینہ کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔تاریخ پیدائش یا د نہ
ہو تو اپنے نام کے پہلے حرف سے رنگ کا انتخاب کریں اور یہ پتھر یا نگینہ ، انگوٹھی
میں اس طرح پہنیں کہ انگلی سے مس ہوتا رہے۔
تاریخ پیدائش
نام کا پہلا حرف
موافق رنگ
۲۱، مارچ تا ۲۰، اپریل
۱۔ ل۔ ع۔ ی
سرخ
۲۱، اپریل تا ۲۱، مئی
ب۔ و
نیلا
۲۲، مئی تا ۲۱، جون
ق۔ ک
سرخی مائل زرد
۲۲، جون تا ۲۳، جولائی
ح۔ہ
سفید۔ دودھیا۔ ہلکا
نیلا
۲۴،جولائی تا ۲۳، اگست
م
نارنجی
۲۴، اگست تا ۲۳، ستمبر
پ ۔ غ
گہرا زرد۔ نقرئی
۲۴، ستمبر تا ۲۳، اکتوبر
ر۔ت۔ ط
ہلکا گلابی ۔ نیلا
۲۴، اکتوبر تا ۲۲، نومبر
ظ ۔ ذ۔ ض۔ ز۔ ن
گہرا سرخ ۔ قرمزی
۲۳، نومبر تا ۲۲ ،دسمبر
ف
ہلکا ارغوانی
۲۳، دسمبر تا ۲۰، جنوری
ج۔ خ۔ گ
بھورا ۔ نیوی بلیو۔
سیلیٹی
۲۱، جنوری تا ۱۹، فروری
س۔ ش۔ ص۔ ث
سیاہ ۔ نیلا۔ سبز
۲۰، فروری تا ۲۰، مارچ
د۔ چ
بینگنی ۔ گہرا سبز۔
بھورا
جسمانی لحاظ سے ہمارے
اندر دو نظام کام کرتے ہیں۔
۱۔ سمپیتھیٹک سسٹم (Sympathetic System)
۲۔ پیرا سمپیتھیٹک سسٹم
(Parasympathetic System)
اول الذکر نظام دل کی
دھڑکن کی تیزی، خون کی رفتار کی تیزی اور آنکھوں کی پتلیوں کے پھیلنے کو کنٹرول کرتا
ہے جبکہ دوسرے نظام کے تحت دل کی دھڑکن کا آہستہ ہونا، خون کی رفتار کا کم ہونا۔ پتلیوں
کا سکڑنا اور جسم کے مختلف مادوں کی حرکات وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
یہ نظام ہمارے ارادے
اور اختیار کے بغیر کام کرتا ہے۔ مثلاً ہم سانس لینے پر مجبور ہیں اگر سانس روک بھی
لیں تو کچھ وقفے کے بعد دوبارہ سانس لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دل کی رفتار پر بھی
ہمیں اختیار نہیں ہے چنانچہ فی زمانہ طبی ماہرین اور ماہرین علم النفس اس بنیاد پر
کام کررہے ہیں کہ مختلف طریقوں اور مشقوں سے اگر ہم پیرا سمپیتھیٹک سسٹم کی حرکات پر
اثرات مرتب کرسکیں تو ہم بیماریوں کا کامیابی سے دفاع کر سکیں گے اور بہت سے امراض
کا خاتمہ آسانی سے ہوجائے گا۔ اسی بنیاد پر سائنس دانوں نے ’’بائیو فیڈ بیک‘‘ نامی
طریقہ ایجاد کیا ہے جس پر تحقیقات کی جارہی ہیں۔
مراقبہ کے ذریعے پیرا
سمپیتھیٹک سسٹم پر حسب منشاء اثرات مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ مراقبہ اس نظام میں خوشگوار
تبدیلیاں پیدا کردیتا ہے۔ مراقبہ کی کیفیت گہرے سکون اور ٹھہراؤ میں لے جاتی ہے۔ یہ
کیفیت ہمارے اوپر عام طور پر طاری نہیں ہوتی کیونکہ ذہن زیادہ دیر تک ایک جگہ نہیں
ٹھہرتا۔ مراقبہ سے نہ صرف قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار
سے بھی کثیر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔تجربات اور مشاہدات نے ثابت کردیا ہے کہ مراقبہ سے
مندرجہ ذیل جسمانی اور نفسیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
O
خون کے دباؤ پر کنٹرول
O
قوت حیات میں اضافہ
O
بصارت میں تیزی
O
خون کی چکنائی میں کمی
O
تخلیقی قوتوں میں اضافہ
O
چڑ چڑے پن میں کمی
O
دل کی کارکردگی میں بہتری
O
قوت سماعت میں اضافہ
O
بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت
O
ڈیپریشن اور جذباتی ہیجان کا خاتمہ
O
پریشانی اور مشکلات میں آنے والے دباؤ میں کمی
O
خون کے سرخ ذرات میں اضافہ
O
قوت یاد داشت میں تیزی
O
بہتر قوت فیصلہ
O
بے خوابی سے نجات اور گہری نیند
O
ڈر اور خوف کے خلاف ہمت اور بہادری
O
وسوسوں سے نجات
O
حسد کا خاتمہ
O
مراقبہ میں کامیابی کے بعد، جادو ٹونے، بھوت پریت، آسیب اور منفی
خیالات سے آزادی
مراقبہ کے ذریعے مریض
میں کس طرز پر رنگ و روشنی میں تبدیلی کی جائے اس کا تعین صرف ایک ماہر ہی کرسکتا ہے
کیونکہ اس دوران مریض کی طبیعت کا رجحان، ذہن کی قوت، طرز فکر، طبعی ساخت اور دیگر
بہت سے عوامل کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے رنگ و روشنی کو جذب کرنے کا
طریقہ یہ ہے۔
طریقہ نمبر ۱۔ آرام دہ نشست میں بیٹھ کر تصور کریں کہ رنگ اور روشنی
کی لہریں پورے جسم میں جذب ہورہی ہیں۔
طریقہ نمبر ۲۔ مراقبہ میں تصور کریں کہ رنگ یا روشنی کی لہر آسمان
سے نازل ہو کر دماغ میں جذب ہورہی ہے۔
طریقہ نمبر ۳۔ مراقبہ میں تصور کیا جائے کہ گرد و پیش کا پورا ماحول
روشنی سے معمور ہے۔
طریقہ نمبر ۴۔ یہ تصور کیا جائے کہ مراقبہ کرنے والا روشنی کے دریا
میں ڈوبا ہوا ہے۔
طبی اور جسمانی لحاظ
سے ہر رنگ اور روشنی کے الگ الگ خواص ہیں۔ جب کسی روشنی کا مراقبہ کیا جاتا ہے تو ذہن
میں کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور دماغ میں مطلوبہ روشنی کو جذب کرنے کی
طاقت بڑھ جاتی ہے۔ ایسے نفسیاتی عوارض جو ذہنی ٹوٹ پھوٹ سے پیدا ہوتے ہیں ان کے تدارک
کے لئے تجویز کردہ روشنیوں کے مراقبے درج ذیل ہیں۔
نوٹ : کس رنگ یا روشنی
کا مراقبہ کیا جائے۔ اس کے لئے استاد کی رہنمائی اشد ضروری ہے
نیلی روشنی
نیلی روشنیوں سے دماغی
امراض، گردن اور کمر میں درد، ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی خرابی، ڈپریشن، احساس محرومی،
کمزور قوت ارادی سے نجات مل جاتی ہے۔
زرد روشنی
نظام ہضم، حبس ریاح،
آنتوں کی دق، پیچش، قبض، بواسیر، معدہ کا السر وغیرہ کے لئے نہایت ہی موثر علاج ہے۔
نارنجی روشنی
سینے کے امراض مثلاً
دق، سل، پرانی کھانسی، دمہ وغیرہ کا علاج ہے۔
سبز روشنی
ہائی بلڈ پریشر اور
خون میں حدت سے پیدا ہونے والے امراض، جلدی امراض، خارش، آتشک، سوزاک، چھیپ وغیرہ کا
علاج ہے۔
سرخ روشنی
لو بلڈ پریشر، اینمیا،
گھٹیا، دل کا گھٹنا، دل کا ڈوبنا، توانائی کا کم محسوس کرنا، نروس بریک ڈاؤن، دماغ
میں مایوس کن خیالات آنا، موت کا خوف، اونچی آواز سے دماغ میں چوٹ محسوس ہونا وغیرہ
کے لئے سرخ روشنی کا مراقبہ کرایا جاتا ہے۔
جامنی روشنی
مردوں کے جنسی امراض
اور خواتین کے اندر رحم سے متعلق امراض کا علاج ہے۔
گلابی روشنی
مرگی، دماغی دورے، ذہن
اور حافظہ کا ماؤف ہونا، ڈر اور خوف، عدم تحفظ کا احساس، زندگی سے متعلق منفی خیالات
آنا، دنیا بیزاری سے نجات پانے کے لئے موثر علاج ہے۔صاحب مراقبہ کے لئے ضروری ہے کہ
جس جگہ مراقبہ کیا جائے وہاں وہاں شور و غل نہ ہو، اندھیرا ہو۔ جتنی دیر کسی گوشے میں
بیٹھا جائے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ذہن کو مقصود کی طرف متوجہ رکھا جائے۔
پرہیز و احتیاط :
۱۔ مٹھاس کا کم سے کم
استعمال کیا جائے
۲۔ کسی قسم کا نشہ نہ
کیا جائے
۳۔کھانا آدھا پیٹ کھایا
جائے
۴۔ضرورت کے مطابق نیند
پوری کی جائے اور زیادہ دیر بیدار رہے
۵۔بولنے میں احتیاط کی
جائے، صرف ضرورت کے وقت بات کی جائے
۶۔عیب جوئی اور غیبت
کو اپنے قریب نہ آنے دے
۷۔جھوٹ کو اپنی زندگی
سے یکسر خارج کردے
۸۔مراقبہ کے وقت کانوں
میں روئی رکھے
۹۔مراقبہ ایسی نشست میں
کرے جس میں آرام ملے لیکن یہ ضروری ہے کہ کمر سیدھی رہے۔ اس طرح سیدھی رہے کہ ریڑھ
کی ہڈی میں تناؤ نہ ہو
۱۰۔مراقبہ کرنے سے پہلے
ناک کے دونوں نتھنوں سے آہستہ آہستہ سانس لیا جائے اور سینہ میں رو کے بغیر خارج کردیا
جائے۔ سانس کا یہ عمل سکت اور طاقت کے مطابق استاد کی نگرانی میں پانچ سے اکیس بار
تک کریں۔
۱۱۔سانس کی مشق شمال رخ
بیٹھ کر کی جائے
۱۲۔مراقبہ لیٹ کرنہ کیا
جائے کیونکہ اس طرح بیداری کے حواس مغلوب ہوجاتے ہیں اورنیند غالب آجاتی ہے ۔وہ کیفیات
جو بیداری میں سامنے آنی چاہئیں خواب میں منتقل ہوجاتی ہیں ۔ اس سے یہ نقصان ہوتا ہے
کہ دماغ بیداری کے بجائے خواب دیکھنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
انسان کے اندر کام کرنے
والی ساری صلاحیتوں کا دارومدار ذہن پر ہے۔ ذہن کی طاقت ایسے ایسے کارنامے انجام دیتی
ہے جہاں شعور بھی ہراساں اور خوف زدہ نظر آتاہے۔ انسان کی ایجاد کا یہ کتنا بڑا کارنامہ
ہے کہ اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ایک ایٹم کو اتنا بڑا درجہ دے دیا
کہ اس ایک ایٹم سے لاکھوں جانیں ضائع ہوسکتی ہیں یعنی یہ کہ ایٹم کولاکھوں اشرف المخلوقات
انسانوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ جس طرح ایٹم میں مخفی طاقتیں موجود ہیں بالکل اسی طرح
کائنات کی ہر تخلیق میں مخفی اور پوشیدہ طاقتوں کا ایک سمندر موجزن ہے اور ان ساری
طاقتوں کی اصل روشنی ہے۔
تعویذمیں بھی یہی روشنی
کام کرتی ہے چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اس لئے روشنی پر اس کو تصرف کا اختیار دیا
گیا ہے۔ تعویذ کے نقوش میں جو روشنیاں کام کرتی ہیں وہ ذہن انسانی کے تابع ہیں لیکن
یہ بات بہت زیادہ غور طلب ہے کہ کسی بھی عمل کے صحیح نتائج اس وقت سامنے آتے ہیں جب
ہماری صلاحیتیں، دلچسپی اور یکسوئی کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔ قانون یہ ہے کہ دلچسپی اور
یکسوئی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے روشنیاں بکھر جاتی ہیں۔ یہی حال تعویذکے اوپر لکھے ہوئے
نقوش اور ہندسوں کا بھی ہے۔کوئی عامل جب تعویذ لکھتا ہے تو وہ اپنی پوری صلاحیتوں کو
روبہ عمل لاکر اپنی ماورائی قوتوں کو حرکت میں لے آتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد
ہے، پاک اور اعلیٰ ہے وہ ذات جس نے معین مقداروں کے تحت تخلیق کی۔ تعویذ کے اوپر لکھے
ہوئے نقوش اور ہندسے بھی اس قانون کے پابند ہیں۔ علم لدنی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ
یہاں ہر چیز مثلث اور دائرہ کے تانے بانے میں بنی ہوئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی نوع کے
اوپر دائرہ غالب ہے اور کسی نوع کے اوپر مثلث غالب ہے۔
مثلث کا غلبہ زمان و
مکان (Time&Space) کی تخلیق کرتا ہے اور جس نوع پر دائرہ غالب ہوتا ہے وہ مخلوق لطیف
اور ماورائی کہلاتی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی جیسے جنات اور فرشتے۔انسان چونکہ اشرف
المخلوقات اور اﷲ تعالیٰ کی تیسری صناعی ہے اس لئے وہ چاہے تو خود کو مثلث کے دباؤ
سے آزاد کرکے دائرہ میں قدم رکھ سکتا ہے۔ جیسے ہی وہ دائرہ کے اندر قدم رکھ دیتا ہے
اس کے اوپر جنات کی دنیا اور فرشتوں کا انکشاف ہوجاتا ہے۔یہی دائرہ اور مثلث تعویذ
میں ہندسے بن کر عمل کرتے ہیں جو نقطہ سے شروع ہوکر ۹کے ہندسے پر ختم ہوجاتے ہیں ۔
نقطہ ( ۰ )
ذہن میں ایک نقطہ ہوتا
ہے۔ اس میں کوئی لمبائی چوڑائی نہیں ہوتی بلکہ وہ نقطہ کے تصور کی اصل ہے۔ جب کسی طاقت
کو یا کسی عمل کو مضاعف کرنا ہو(مضاعف کرنے سے مراد یہ ہے کہ طاقت یا کسی عمل کی طاقت
کو دوگناہ، بیس گنا، دس ہزار گناہ، ایک لاکھ گنا یا اس سے بھی زیادہ گنا کرنا ہو تو
ایسی صورت میں سیدھی طرف ایک نقطہ لکھتے ہیں۔
ایک کا ہند سہ ( ۱ )
اگر یہ طاقت کسی چیز
کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کی جائے تو ایک لکیر اوپر سے نیچے کی طرف یعنی ایک کا
ہندسہ استعمال کیا جاتا ہے۔
دو کا ہندسہ ( ۲ )
اگر اس طاقت کو تعمیر
اور تخریب دونوں کیلئے استعمال کیاجائے یعنی مضر کو ختم کرنے کے لئے اور مفید کو تخلیق
کرنے کے لئے تو اس لکیر کے اوپری سرے میں نصف دائرہ بنایا جاتاہے۔ اس سے دوکا ہندسہ
بن جاتا ہے۔
تین کا ہندسہ ( ۳ )
اگر بہت ساری چیزیں
غلط ہیں، ان کو مٹانا ہے اور صرف ایک کو مفید میں تخلیق کرنا ہے تو دو نصف دائرے، سیدھی
لکیر یعنی ایک کے ساتھ شامل کر دیئے جائیں تویہ تین کا ہندسہ بن جائے گا۔
چار کا ہندسہ ( ۴ )
اگر ایک غلط کو حذف
کرناہے اور دوسری بہت سی مفید طاقتیں تخلیق کرنی ہیں تو الف مکسورہ اور نصف دائرہ کو
ایک کے ہندسے میں ملائیں گے۔ یہ چار کا ہندسہ بن جائے گا۔
پانچ کا ہندسہ ( ۵ )
اگر صرف مضر رساں حالات
پیش نظر ہیں اور صرف مشکلات ہی مشکلات درپیش ہیں۔ یعنی خارجی دنیا سے حوادث پے درپے
جمع ہورہے ہیں اور تسللم کے ساتھ آرہے ہیں تو آنے والے واقعات کو روکنے کے لئے ورائے
ذہن کی طاقت استعمال کرنی پڑے گی۔
اس کا طریقہ یہ ہوگا،
دو نصف دائروں کو اس طرح ملایا جائے جس میں مثلث نمایاں ہو ۔
چھ کا ہندسہ ( ۶ )
اگر ذہن کے اندر تعمیر
کی صلاحیتیں معطل ہیں تو ان کو حرکت میں لانے کے لئے ایک کے ساتھ بائیں طرف اوپری حصہ
پر نصف دائرہ کا اضافہ کردیں گے۔
سات کا ہندسہ ( ۷ )
مشکلات وناساز گار حالات
،اگر طبیعت اختراع کررہی ہے اور انسان کام کرتے کرتے صحیح کام کو خود ہی بگاڑدیتا ہے
یا کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے کہ اس کے مفید نتائج نہ نکلیں تو اس کے لئے دو خط استعمال
ہوتے ہیں۔ ایک سیدھا اور ایک آڑا۔ دونوں کو ملایاجائے تو سات کا ہندسہ بن جائے گا۔
اس سے ذہن کی تخریبی حرکات، اشتعال اور تباہی کے رجحانات مسدود ہوجاتے ہیں۔
آٹھ کا ہندسہ ( ۸ )
تخریبی حرکات، اشتعال
اور تباہی کا رجحان اور اس قبیل کی دوسری چیزیں اگر ماحول سے آرہی ہیں اور طبیعت ان
کا اثر قبول کرنے پر اس لئے مجبور ہے کہ وہ ماحول کی پابند ہے تو اس قسم کے آنے والے
بیرونی حملوں کو روکنے کے لئے دو آڑے خط استعمال ہوتے ہیں۔ ان سے آٹھ کا ہندسہ وجود
میں آتا ہے۔
نو کا ہندسہ ( ۹ )
جو مسائل سمجھ میں نہ
آئیں ان کو حل کرنے کے لئے نو کا ہندسہ استعمال ہوتا ہے۔ جو امراض بہت پیچیدہ ہوں خاص
طور پر پاگل پن، مرگی، مالیخولیا، مایوسی، احساس کمتری، کند ذہنی کو دور کرنے اور حافظہ
بحال کرنے میں یہ ہندسہ عجیب و غریب صفات کا حامل ہے۔ یہ ہندسہ چھپی ہوئی چیزیں اور
وسائل حاصل کرنے کے لئے کئی طریقوں سے لکھا جاتا ہے مثلاً کاغذ کے اوپر، دھات کی پتریوں
کے اوپر، جھلی کے اوپر، بھوج پتر کے اوپر، کھال کے اوپر، ہڈی کے اوپر، یکساں سطح کے
اوپر، گولائی کے اوپر، ناخن کے اوپر، سونے چاندی اور انگوٹھی میں نگینہ کے اوپر۔
مثلث ( r )
گھر میں یا وراثتاً
تخریبی آثار ملیں، ان کو ختم کرنے کے لئے تین آڑے خط تعویذ پرلکھے جاتے ہیں جو مثلث
شکل اختیار کرلیں گے۔اسلاف سے ورثہ میں ملی ہوئی بیماریاں، بری عادتیں ختم کرکے تعمیر
مقصود ہو تو اس مثلث میں ایک نقطہ ( 3 ) لگادیا جاتا ہے جس سے ان تخریبی ورثوں کے علاوہ
آسیب، گیس، ہوا کے زہریلے جراثیم، مونوگیس، وبائی لہریں وغیرہ وغیرہ کی روک تھام ہوجاتی
ہے۔
خون میں سقم واقع ہوجائے
، کینسر لاحق ہوجائے تو ایک سیدھی لکیرسے مثلث کے اوپری سرے کو نصف سے کاٹتے ہوئے نصف
تک مثلث( 3)بنادی جاتی ہے۔یہ کینسر اور کینسر کے قبیل کے دوسرے امراض کا شافی علاج
ہے۔
انسان کی زندگی دو رخوں
پر قائم ہے۔ ایک رخ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو مادیت کے پیمانے سے ناپتے ہیں اور انسانی
زندگی کا دوسرا رخ وہ ہے جس پر مادیت کا قیام ہے۔ کوئی بھی مادی شے کسی نہ کسی بنیاد
پر قائم ہے، یہ بنیاد روشنی ہے۔ روشنی بھی ایک طرح کا مادہ ہے۔ ایسا مادہ جسے ہم لطیف
ترین مادہ کہہ سکتے ہیں جس میں کثافت نہیں ہوتی۔ جس میں بھاری پن نہیں ہوتااور ایسا
مادہ جو نہایت تیز رفتاری سے سفر کرتا ہے۔ اس میں عام مادہ کی نسبت سوراخ چھوٹے ہوتے
ہیں جب کہ عام مادہ میں سوراخ بڑے ہوتے ہیں یعنی مادہ کا ہر ذرہ بہت بڑا سوراخ ہے۔
جب یہ سوراخ ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں تو مادہ کی کوئی نہ کوئی شکل بنتی ہے۔ قانون یہ
ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ سخت ہوگی اور جس چیز میں جتنی زیادہ موٹائی ہوگی۔ اس میں اتنے
ہی بڑے بڑے سوراخ ہوں گے۔
روحانی سائنس کے نظریے
پر تیسری آنکھ سے دیوار کو دیکھا جائے تو دیوار میں غاروں کی طرح بڑے بڑے سوراخ نظر
آتے ہیں۔ لیکن روحانیت جس روشنی کو مادہ یا Matter کہتی ہے اس میں سوراخ عام مادے کی بہ نسبت چھوٹے
ہوتے ہیں۔ چونکہ روشنی بھی مادہ ہے اس لئے اس کی بھی کوئی نہ کوئی بنیاد ہے۔ روشنی
جس بساط پر قائم ہے اسے روحانیت نور کے نام سے جانتی ہے۔ نور روشنی سے زیادہ لطیف روشنی
ہے۔ چونکہ نور میں Dimension
ہوتے ہیں، اس لئے اس کی بھی کوئی نہ کوئی بنیاد ہے۔ نور کی بنیاد
تجلی ہے۔ تجلی میں Dimension
نہیں ہوتے۔
عظیم روحانی سائنسدان
قلندر بابا اولیاء کا نظریہ اضافیت یہ ہے کہ کوئی شے ایسی نہیں جو تجلی، نور، روشنی
اور مادیت کے غلاف میں بند نہ ہو۔ اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ اس دنیا میں یا
کائنات میں جو کچھ موجود ہے وہ چار غلافوں میں بند ہے اور یہ چاروں غلاف ایک دوسرے
سے پیوست ہیں۔ یہ جس طرح پیوست ہیں اسی طرح الگ الگ بھی ہیں۔ اس کی مثال کتاب کے ورق
سے دی جاسکتی ہے۔ ورق کے دو صفحے ہیں جو یک جان بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔
تخلیق کا فارمولا یہ
ہے کہ کائنات کی تخلیق کا پہلا مرحلہ تجلی ہے اور کائنات کا وہ مرحلہ جو مادی جسم کے
ساتھ مادی آنکھ سے نظر آتا ہے مفروضہ مرحلہ ہے لیکن چونکہ کائنات ٹھہری ہوئی نہیں ہے
مسلسل حرکت میں ہے اس لئے چاروں غلاف بیک وقت حرکت کرتے ہیں اور یہ حرکت جاری و ساری
ہے۔
جب کوئی مخلوق سانس
اندر لیتی ہے تو اس کا تعلق تجلی سے ہوجاتا ہے اور جب مخلوق سانس باہر نکالتی ہے تو
کیلوریز (Calories) بنتی ہیں۔ یہ کیلوریز ہی مادی جسمانی زندگی کا ایندھن بنتی ہیں۔
روحانی سائنس میں سانس
کے ان دونوں رخوں کے لئے حضور قلندر بابا اولیاء نے دو الگ الگ اصطلاحیں قائم کی ہیں۔
سانس کا اندر گہرائی میں جانا صعودی حرکت ہے۔ سانس کا باہر نکالنا نزولی حرکت ہے۔ سانس
کا گہرائی میں جانا یا صعودی حرکت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق یا انسان کا تخلیقی سلسلہ
تجلی سے قائم ہے۔ نزولی حرکت سے کوئی چیز مظہر بنتی ہے۔فارمولا یہ بنا کہ جب ہم اندر
سانس لیتے ہیں تو مادیت، روشنی اور نور سے گزر کر تجلی میں داخل ہوجاتے ہیں اور جب
ہم سانس باہر نکالتے ہیں تو تجلی، نور اور روشنی سے گزر کر مادیت میں داخل ہوجاتے ہیں۔
اگر اس بات کی مشق کرلی جائے کہ سانس کی گہرائی بڑے وقفوں پر محیط ہوجائے تو انسان
کے اندر وہ صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں جن صلاحیتوں سے انسان روشنی، نور اور تجلی کو
دیکھتا ہے۔
تصرف کا طریقہ یہ ہے
کہ روحانی انسان سانس کی گہرائی کے عمل سے اس شے کا رشتہ جو آناً فاناً ظہور میں آتی
ہے تجلی کے ساتھ کردیتا ہے۔ جب تجلی سے وہ چیز یا روحانی انسان کا ارادہ نزول کرکے
مادی خول میں داخل ہوتا ہے تو چیز وجود میں آجاتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی کو بخار ہے، بخار
اتارنے کا مادی طریقہ یہ ہے کہ اس کو ایسی دوائیں دی جائیں جو خون کے اندر دور کرکے
جسمانی مشین میں ہیٹنگ سسٹم (Heating system) متوازن کردے لیکن اگر کوئی روحانی انسان جو سانس کی گہرائی کے قانون
سے واقف ہے وہ اپنے ارادے سے بخار کو جسم پر سے اترجانے کا حکم دیتا ہے تو یہ حکم صعودی
حرکت کرکے تجلی بن جاتا ہے اور تجلی سے نزول کرکے مادی خول میں داخل ہوجاتا ہے۔ جیسے
ہی یہ حکم مادی خول میں داخل ہوتا ہے بخار اترجاتا ہے۔ روحانی انسان کے حکم کی رفتار
اتنی تیز ہوتی ہے کہ اس کو سیکنڈ یا منٹ کے وقفوں سے نہیں ناپا جاسکتا، یہ عمل آناً
فاناً ہوتا ہے۔
روحانی علوم میں یہ
بتایا جاتا ہے کہ زمین کے اوپر موجود پہاڑ بھی سانس لیتے ہیں۔ پہاڑ کے سانس لینے کی
رفتار یعنی سانس اندر جانے اور سانس باہر آنے کی عام رفتار پندرہ منٹ ہے۔ مثلاً اگر
ایک انسان ایک منٹ میں تقریباً اٹھارہ مرتبہ سانس لیتا ہے۔ یعنی اگر انسان پندرہ منٹ
میں دو سو ستر (۲۷۰)مرتبہ سانس لیتا ہے
تو پہاڑ پندرہ منٹ میں ایک مرتبہ سانس لیتا ہے۔ سانس لینے سے مراد سانس کا گہرائی میں
جانا ہی نہیں بلکہ سانس کا گہرائی میں جانا اور باہر آنا دونوں شامل ہیں۔ کوئی انسان
اگر سانس کی مشقوں کے ذریعے سانس کو گہرائی میں پندرہ منٹ تک روکنے اور پندرہ منٹ تک
باہر نکالنے پر کنٹرول حاصل کرلے تو پہاڑ پر تصرف کرکے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرسکتا ہے۔
دنیاوی زمین کی طرح
عالم آسمان میں بھی مخلوق اور زمینیں موجود ہیں۔ عالم آسمان میں موجودات کی سانس کی
رفتار زمین میں موجود مخلوق کی سانس کی رفتار سے مختلف ہے۔ اگرکوئی انسان آسمان میں
موجود مخلوق کی سانس کی رفتار سے واقف ہوکر اس پر عبور حاصل کرلے تو وہ آسمانی مخلوق
پر بھی تصرف کرسکتا ہے۔
یہ طریقۂ علاج براہ
راست قوانین قدرت سے منسلک ہونے کے باعث فوری اور یقینی نتائج کا حامل ہے ۔اس طریقۂ
علاج کے تحت تجویزکردہ چند مسائل کے حل درج ذیل ہیں۔
مسئلہ
میں خدا اور رسول کو
حاضر ناظر جان کر سچ لکھ رہی ہوں ۔میرا شوہر مجھے ہر طرح سے دکھ دیتا ہے ،منہ سے بولنے
بھی نہیں دیتا ۔اچھی بات پر بھی گالیاں بکتا ہے ۔
کسی سے آنکھ اونچی کرکے
بات نہیں کرنے دیتا ۔اولاد سے بھی ایسا سلوک کرتا ہے جیسے سوتیلے بچے ہوتے ہیں۔اڑوس
پڑوس میں بھی کسی سے تعلقات نہیں رکھنے دیتا ، ماں کے گھر کا دروازہ بھی میرے لئے کھلنے
نہیں دیتا ۔میری کسی معاملے میں طرف داری کے لئے گونگا بنا رہتا ہے ۔آٹھ سال سے اسی
طرح گاڑی چل رہی ہے بچے اور میں عاجز آچکی ہوں خدا کے لئے کوئی ایسا عمل یا علاج بتلائیں
کہ یہ شخص بدل جائے ۔مجھے قید میں سمجھ کر آزادی دلائیں۔
حل
آپ اپنے شوہر کا ۱۲ 235 ۱۰ انچ کا ایک فوٹو بنوالیں اور اسے فریم کروالیں۔اس
فوٹو کو الٹا کسی ایسی جگہ رکھیں جہاں محفوظ رہے ۔الٹا سے مراد یہ ہے کہ سر نیچے اور
دھڑ اوپر ہو۔آپ کے شوہر یا کوئی اور تصویر کو سیدھاکردیں تو کوئی حرج نہیں آپ پھر الٹا
دیں ۔جب تک آپ کے شوہر کارویہ آپ سے درست نہ ہوجائے فوٹو اسی طرح رکھیں اور پانی ،چائے
اور کھانے پر ایک بار ’’ یا ودود‘‘ پڑھ کر دم کردیں۔
نوٹ: خصوصی اجازت کے
بغیر کوئی صاحب یا صا حبہ یہ عمل نہ کریں۔
مسئلہ
احمد رضا ،حیدرآباد۔گوہر
رحمان ،لانڈھی۔الطاف حسین ،کراچی ۔محمد اسلام ، سیالکوٹ۔عبدالرحیم شاہین،جھنگ۔صوفیہ
نازش ،لاہور۔ریاض علی عابد ،ڈیرہ دبئی۔
حل :
آپ سب حضرات و خواتین
صبح بہت سویرے سورج نکلنے سے پہلے اٹھ کر ضروریات سے فارغ ہونے اور فرائض کی ادائیگی
کے بعد شمال رخ منہ کرکے بیٹھ جائیں۔
گردن ہلکی سی سیدھی
طرف جھکا لیں اور دائیں بائیں آنکھ سے ناف کے مقام پر ارتکاز کریں۔کوشش کریں کہ پلک
نہ جھپکے ۔جب ارتکاز قائم ہوجاتا ہے ،ناف کے مقام پر زرد رنگ روشنیاں دائروں میں گھومتی
ہوئی نظر آتی ہیں۔ان روشنیوں کے پس پردہ آپ کا لاشعور چھپا ہوا ہے اور ہر وہ کام جو
شعور میں آنے کے بعد مظہر بنتا ہے پہلے لاشعور میں موجود ہوتا ہے۔جب توجہ زرد شعاعوں
میں جذب ہوجائے تو دل میں اس کا م کی تکمیل کا فیصلہ کریں ۔اپنی ساری روحانی قوت سے
یہ کہیں کہ یہ کام ہوگیا ہے۔صرف ایک بار کے اس فیصلہ سے مقصد پورا ہوجاتا ہے۔
نوٹ: خصوصی اجازت کے
بغیر کوئی صاحب یا صا حبہ یہ عمل نہ کریں۔
مسئلہ
خدیجہ بشیر ،راولپنڈی۔اطہر
حسین صدیقی،اورنگی ٹاؤن ۔حمیرا انجم ،سکھر۔شہلا بانو ، ایبٹ آباد۔ثمینہ یاسمین ،کراچی۔مشکور
احمد غوری ،ملیر کالونی ۔
حل
آپ سب کو میری طرف سے
جنت کی حوروں سے ملاقات کا عمل کرنے کی اجازت ہے۔اللہ تعالیٰ کامیابی عطا کرے ۔آمین!
اس عمل کا طریقہ یہ
ہے ،صبح بہت سویرے بیدار ہوکر وضوکیجئے اور شمال رخ منہ کرکے بیٹھ جائیے۔آنکھیں بند
کرکے تصور کیجئے کہ آپ جنت میں ہیں ۔چند ہفتوں میں انشاء اللہ تصور قائم ہوجائے گا۔جب
جنت کا تصور قائم ہوجائے تو آپ یہ دیکھئے کہ حوروں کے ساتھ بیٹھی ہیں ۔جب حوروں کے
خدو خال اورجسمانی ساخت سے آپ مانوس ہوجائیں تو حوروں سے معلوم کیجئے کہ ان کی خوبصورتی
کا راز کیا ہے۔
خوبصورتی کا یہ راز
معلوم ہوجانے پر وہ عورت جو اس راز سے واقف ہوجاتی ہے لاکھوں کروڑوں عورتوں پر بھاری
ہوتی ہے۔اس کے اندر کشش اور جاذبیت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اچھے اچھے مردوں کے حواس
جواب دے جاتے ہیں۔مرد حضرات جنت میں غلمان کا تصور کریں۔
نوٹ: خصوصی اجازت کے
بغیر کوئی صاحب یا صا حبہ یہ عمل نہ کریں۔
اس طریقۂ کار کے مطابق
سائل ایک سوالنامہ میں اپنا پورا نام ،والدہ کا نام ،عمر، وزن، آنکھوں کا رنگ ،چہرہ
کی ساخت ،پسندیدہ مشغلہ ،اندھیرے میں ڈر تو نہیں لگتا کے جوابات تحریرکرنے کے ساتھ
ساتھ مسئلہ کی نوعیت مع اپنے دستخط کے ارسال کرتا تھا۔ان تمام معلومات کا تجزیہ کرنے
کے بعد حضرت عظیمی صاحب نے علم تحریر شناسی کے تحت مسئلہ کا حل تجویز فرمایا ہے۔
انسانی دماغ میں دو
کھرب خلئے ہوتے ہیں۔ کسی نارمل آدمی کے اندر دوسو خلئے کام کرتے ہیں۔ دوسو خلیوں سے
زیادہ اگر چند خلئے کھل جائیں تو ایسا آدمی Genius کہلاتا ہے لیکن اگر یہ اور زیادہ کھل جائیں تو شعور
پر ضرب پڑتی ہے اور حواس میں تعطل واقع ہونے لگتا ہے۔ خلیوں کی شکست و ریخت، کھلنے
اور بند ہونے میں جہاں ماحول اور فضاء کا اثر مرتب ہوتا ہے ، وہاں غذائیں بھی اثر ڈالتی
ہیں۔ خون کے اندر اگر سوڈیم کلورائیڈ کی مقدار اعتدال سے بڑھ جائے تو خلیوں کا عمل
تیز ہوجاتا ہے۔ انسان کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں ۔
ایک شعوری حواس، دوسرے
لاشعوری حواس۔ اول الذکر حواس بہت ناقص اور کمزور ہوتے ہیں اس کے برعکس لاشعوری حواس
میں آدمی ٹائم اسپیس سے آزاد ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہم لاشعوری حواس سے واقفیت نہیں رکھتے
اس لئے جب یہ متحرک ہوتے ہیں تو ہمارا شعور غیر متوازی ہوجاتا ہے اور شعور سے ایسی
حرکتیں سرزد ہونے لگتی ہیں جو عام زندگی میں پاگل پن کہلاتی ہیں۔
حواس کو متوازن کرنے
کے لئے دنبہ یا بھیڑ کی اون لے کر ، دنبہ یا بھیڑ کو ذبح کرکے اون کو خون میں بھگولیں۔
طریقہ یہ ہوگا کہ جس وقت بھیڑ یا دنبہ کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹایا جائے اس کی
گردن کے نیچے اون رکھ لیا جائے تاکہ ذبح ہونے کے بعد پورا خون اون میں جذب ہوجائے۔
اس خون آلود اون کو سائے میں خشک کرکے رکھ لیں۔ روزانہ دن میں دو مرتبہ تھوڑی سی اون
لے کر کوئلوں پر جلائیں۔ جس جگہ اور جس وقت یہ اون جلائی جائے اس وقت وہاں مریض کا
رہنا ضروری ہے۔اس دھوئیں سے سوڈیم کلورائیڈ کی زائد مقدار خون کے اندر سے کم ہوجاتی
ہے اور چند ہفتوں میں انشاء اﷲ دماغی صحت بحال ہوجاتی ہے۔
خدمت خلق کی معمولات
کی طرزوں میں ایک ڈاک بھی ہے۔ مرکزی مراقبہ ہال میں تقریبا ہر ماہ مسائل کے حل کے لئے
نو ہزار خطوط موصول ہوتے ہیں۔ بعض اوقات باوجود کوشش کے بھی خط کے جواب میں تاخیر ہوجاتی
ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عظیمی صاحب نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔
یہاں محترم سید مشتاق احمد صاحب کے تذکرے کے بغیر ڈاک کی تفصیلات ادھوری رہیں گی۔
آپ ۳۵ سال تک محکمہ ڈاک سے منسلک رہنے کے بعد بحیثیت اپر ڈویژن کلرک ریٹائر ہوئے۔
۱۹۷۱ء میں آپ نے روزنامہ جسارت میں عظیمی صاحب
کامسائل کے حل کا کالم پڑھا اور بہت متاثر ہوئے۔ ان دنوں یہ کالم اخبار میں روز شامل
اشاعت ہوتا تھا۔ کالم کے کچھ روز مسلسل مطالعے سے آپ نے اندازہ لگایا کہ عظیمی صاحب
کو مسائل کی مد میں موصول ہونے والے خطوط کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انہیں ان خطوط
کے جوابات تحریر کرنے کیلئے معاونت درکار ہوگی۔ اسی سوچ کے تحت ایک روزدفتر سے فارغ
ہونے کے بعد آپ 1-D-1/7
پہنچ گئے اور عظیمی صاحب سے ملاقات کے دوران اپنی معاونت کی پیش کش
فرمائی ۔ عظیمی صاحب آپ کی اس پیش کش سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا، کل میں اپنے مرشد
کریم کے پاس گیا تھا اور میں نے ان سے عرض کی کہ میرے پاس کام بہت ہے۔ مرشد کریم نے
جواب میں فرمایا، کل تمہارے پاس ایک آدمی آئے گا۔ تم اس کی مدد حاصل کرلینا۔شام کو
عظیمی صاحب انہیں حضور قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں لے گئے اور ساری روئدادآپ کی
خدمت میں عرض کی اور فرمایا، حضور! کیا یہی وہ صاحب ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے
فرمایا،ہاں! یہی وہ صاحب ہیں اور اس کے بعد حضور قلندر بابا اولیاء نے محترم سید مشتاق
احمد صاحب پر دم فرمایا۔
محترم سید مشتاق احمد
صاحب فرماتے ہیں کہ اس دم کے بعد میں نے اپنے اندر سمجھ بوجھ اور دوراندیشی کی واضح
تبدیلی کو محسوس کیااور اس طرح آپ نے باقاعدہ خطوط کے جوابات کے سلسلہ میں معاونت کا
آغاز کیا۔ جس کا طریقۂ کار کچھ اس طرح سے تھا کہ آپ تمام خطوط کو کھول کر رکھ دیا کرتے
جن پر عظیمی صاحب مختصراً جوابات تحریر فرماتے اور اس کے بعد آپ تحریر کردہ جوابات
کو مکمل جزیات کے ساتھ دوبارہ تحریر کرتے ۔آپ تقریباً گیارہ سال شعبہ ڈاک سے منسلک
رہے ہیں۔
۱۹۹۲ء میں عظیمی پبلک ہسپتال
کے نقشہ کی تیاری کے دوران عظیمی صاحب نے فرمایا، میری آٹھ سال کی عمر میں مانگی ہوئی
دعا نے ۶۶ سال کی عمر میں عملی شکل اختیار کی ہے ۔ جب
میں آٹھ سال کا تھا تو میرے ہاتھ کی انگلی زخمی ہوگئی ۔ آبائی شہر سہارن پور میں ایک
مشنری ہسپتال میں پٹی کروانے جاتا تھا ، ڈاکٹر سے ملاقات کے لئے پرچی کی فیس ایک پیسہ
تھی ۔ ایک دن میرے پاس پیسے نہیں تھے لہٰذا اس دن میں پٹی کروانے نہیں گیا ۔ دوسرے
دن گیا تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے پوچھا کہ کل پٹی کروانے کیوں نہیں آئے تو میں نے
جواب دیا کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ ڈاکٹر صاحب بڑی شفقت اور پیارسے پیش آئے اور
کہا کہ یہ کیا بات ہوئی، بیٹا ہر روز آیا کرو اور پٹی کروایا کرو اور اس دن کی فیس
بھی نہ لی۔ میں ان کے حسن سلوک سے بہت متاثر ہوا اور میرے دل میں خدمت خلق کے لئے فری
ادارہ قائم کرنے کی خواہش پیدا ہوئی اور اللہ کے حضور دعا کی جو آج عملی شکل میں پوری
ہورہی ہے ۔
آپ نے جب خدمت خلق کا
باقاعدہ آغاز فرمایا تو پریشان حال لوگوں سے ملاقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بیماریوں
کے جسم میں نشوو نما پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مختلف طریقہ ہائے علاج سے ان امراض
کو جسم سے خارج کرنے کے بجائے جسم کے اندر ہی خشک کردیا جاتا ہے۔ دعا اور دوا کے اصول
پر روحانی علاج کے ساتھ ساتھ یونانی علاج معالجہ کے لئے ۱۹۶۷ ء میں عظیمی دواخانہ کی داغ بیل ڈالی گئی اور ۱۹۷۳ ء میں شعبۂ دوا سازی کا آغاز کیا گیا۔
مساجد اپنے مذہب کے
پرچار کے لئے اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ مساجد میں قرآن پاک کی تعلیم کے لئے جمع ہونا
، خطبات پڑھنا ، قرآن خوانی کرنا ،شب بیداری اور محفل میلاد کا انعقاد ، نیاز اور دعوت
افطار کاانتظام کرنا، یہ سارے افعال ایسے ہیں جن سے انسان کو حقوق اللہ ، حقوق العباد
اور حقوق النفس سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کی تعلیمات کے لئے جامع مسجد کی جگہ کی بشارت کے بعد۱۹۹۰ء میں عظیمیہ جامع مسجد، سرجانی ٹاؤن کی تعمیر
ایک جھونپڑا بناکر شروع کی گئی جس میں پہلی اذان حضرت عظیمی صاحب نے دی ۔ بہت سے اہل
باطن افراد نے دیکھا کہ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام
اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اس جگہ مسجد تعمیر فرمارہے ہیں اور حضرت امیر حمزہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت میں دعا مانگی جارہی ہے۔
عظیمیہ جامع مسجد کی
محرابیں اپنی نوعیت کا واحد نمونہ ہیں جس میں اسم اللہ محیط ہے اور بغور دیکھنے سے
سمجھ میں آتا ہے ۔ کھڑکیوں کی شکل میں بھی یہی تمثیل پیش نظر رکھی گئی ہے۔مسجد کا اندرونی
ماحول سادہ ہے، روشنی کا انتظام اس طرح کیا گیا ہے کہ کوئی روشنی براہ راست توجہ کو
متاثر نہ کرے۔ مسجد کے فرش کی آرائش کے لئے سنگ بادل کا استعمال کیا گیا ہے تا کہ فرش
دیکھنے سے آسمانوں میں کہکشاؤں کا تصو ر ابھرے۔ مرکزی مراقبہ ہال کے علاوہ مراقبہ ہال
گلشن شہباز۔ حیدر آباد،مراقبہ ہال کاہنہ نو۔ لاہور اورمراقبہ ہال ٹنڈو الہ یار میں
بھی مساجد قائم کی گئی ہیں ۔
O
حفظ و ناظرہ کی تعلیم کے لئے عظیمیہ جامع مسجد ۔ کراچی میں مدرسہ
بحر النور قائم ہے۔
بالمشافہ ملاقات اور
خطوط کے ذریعے مسائل کے حل کی فراہمی کے باوجود معاشرے میں پریشان حال افراد کی ایک
کثیر تعداد موجود ہے جن کے مسائل فوری حل کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا ستمبر ۱۹۹۴ء میں خدمت خلق کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے
روحانی فون سروس کا آغاز کیا گیا۔
اس سروس کے تحت خواتین
و حضرات مسائل کے حل،عظیمی صاحب کے کالمز میں شائع شدہ جوابات کے بارے میں وضاحت و
تفہیم کے ساتھ ساتھ محفل مراقبہ میں دعا کے لئے نام کا اندراج بھی کرواسکتے ہیں۔ اس
وقت تقریبا تمام ملک اور بیرون ملک قائم مراقبہ ہالزمیں روحانی فون سروس مصروف عمل
ہے۔
سرجانی ٹاؤن ۔ کراچی
شہر کی ایک نو آبادیاتی بستی ہے جس میں متوسط طبقے کی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔ ۱۹۹۴ء میں سرجانی ٹاؤن۔ سیکٹر 4-D میں مسائل کے حل اور نوجوان حلقے میں تعمیری رحجانات کے فروغ کے لئے اسپورٹس
اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن (S.W.A.S) کی بنیاد رکھی گئی۔ ایسو سی ایشن کے تحت مہیا کی جانے والی خدمات
کی فہرست یہ ہے۔
O
۱۹۹۴ء میں ماہر ڈاکٹروں
کے زیر نگرانی فری میڈیکل ڈسپنسری کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس سے علاقے کی ایک کثیر
تعداد استفادہ حاصل کررہی ہے۔جبکہ ڈسپنسری کے زیر انتظام سرجانی ٹاؤن کے علاوہ شہر
کے دیگر علاقوں میں متعدد بار فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جاچکا ہے۔
O
ایسوسی ایشن کے زیر
انتظام شجر کاری مہم علاقے کی خوب صورتی اور آب و ہوا میں خوشگوار تبدیلی کا باعث بنی
ہے۔
O
نماز عیدین جہاں بلاشک
و شبہ اسلاف پر چلنے کے لئے تجدید عہد کا دن ہیں وہاں ہمیں اپنے نادار اور غریب بہن
بھائیوں کی دستگیری کا بھی حکم دیتی ہیں۔
اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی
کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔القرآن
اسی ہدایت خداوندی کی
تکمیل کے لئے گزشتہ ایک دہائی سے ایسوسی ایشن نماز عیدین کے انتظامات کے لئے اپنی خدمات
پیش کررہی ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کاوش ۱۴،مارچ ۱۹۹۴ء کو نماز عید الفطر
کے اجتماع کے لئے کی گئی تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔