Topics

شادی


شادی کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں بتائی جا سکتی۔ چونکہ شادی کے سلسلے میں تاریخی اعتبار سے ہم گونگے بہرے ہیں اس لئے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جب سے دنیا کی ابتدا ہوئی وہی شادی کی تاریخ ہے۔

دنیا کی ابتدا کون سے سن میں ہوئی۔۔۔۔۔۔اس کے بارے میں بھی دنیا کے تمام دانشور مہر بہ لب ہیں۔ قیاس اور اندازوں کی کوئی وقعت اس لئے نہیں ہے کہ قیاس بہرحال قیاس ہے اور مفروضے سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔خالق کائنات نے کائنات کب تخلیق کی؟۔۔۔۔۔۔کیا اس وقت ماہ و سال تھے؟۔۔۔۔۔۔پہلے سے دن رات کا وجود تھا؟۔۔۔۔۔۔ٹائم اسپیس کا کوئی سراغ ملتا ہے؟۔۔۔۔۔۔اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ اتنا علم ہمیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ضرور حاصل ہے کہ
علم الانسان مالم یعلم

’’اور ہم نے انسان کو وہ علم سکھا دیئے جو یہ نہیں جانتا تھا‘‘

(سورۃ العلق۔ آیت 5)


ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو علوم سے آراستہ کر دیا اور فرشتوں نے آدم کے علم کی فضیلت کو جانچ کر، پرکھ کر اور سمجھ کر آدم کی بڑائی کو تسلیم کر لیا تو۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ تو اور تیری بیوی جنت میں رہو خوش ہو کر جہاں سے دل چاہے کھاؤ پیو۔۔۔۔۔۔لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے تمہیں جوڑے جوڑے بنایا۔۔۔۔۔۔مذکر مؤنث بنایا مرد عورت بنایا۔۔۔۔۔۔یعنی وجود ایک رخ پر نہیں بلکہ دو رخوں پر تخلیق ہوا۔۔۔۔۔۔
آدم کا ہر فرزند اور حوا کی ہر دختر یہ جانتی ہے کہ جب آدم و حوا سے جنت میں بھول چوک ہو گئی۔۔۔۔۔۔تو دونوں کو اسفل السافلین میں پھینک دیا گیا۔۔۔۔۔۔اور زمین پر ہی دونوں سے آدم و حوا کی نسل شروع ہوئی۔۔۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے نسل انسانی نے زمین کے ہر خطے پر سکونت اختیار کر لی۔۔۔۔۔۔زمانے کے تغیر و تبدل اور سرد و گرم حالات برداشت کرتے کرتے آدم و حوا کی نسل نے ارتقائی منازل طے کیں اور بزعم خود وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ یا ترقی پذیر قوم کہتی رہی۔۔۔۔۔۔شعوری ارتقا کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔اگر ہے تو کس طرح عمل پذیر ہوا۔۔۔۔۔۔اور کیا واقعتاً جس چیز کو نوع انسانی ارتقا سمجھتی ہے اس کی کوئی حیثیت ہے یا یہ کوئی تنزل کی ترقی یافتہ شکل ہے؟ اس کے بارے میں بھی مفکرین کی مختلف آراء ہیں اور یہ ساری موشگافیاں 99فیصد قیاس پر مبنی ہیں۔

ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ آدم و حوا کی شادی کے بعد جس کو ہم دو وجود کا ملاپ کہتے ہیں، نسل انسانی کی ابتدا ہوئی۔۔۔۔۔۔آدمؑ جب زمین پر تشریف لائے اور حوا ان کی رفیق کار بنیں۔۔۔۔۔۔تو دراصل دو وجود کا بندھن عمل میں آیا۔۔۔۔۔۔دو وجود سے مراد دو شعور، دو فہم، دو عقلیں اور سوچ بچار کی دو قدریں ہیں۔۔۔۔۔۔یعنی جب آدم و حوا کے دو وجود آپس میں ملے یعنی جان جان سے گلے ملی، جان جان میں پیوست ہوئی یا آدم حوا میں اور حوا آدم میں جذب ہو گئے تو نتیجے میں تیسرا وجود عالم دنیا میں داخل ہوا۔۔۔۔۔۔
اسی بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ آدم و حوا کے دو شعور جب آپس میں باہم دگر جذب ہو گئے تو تیسرا شعور آدم کی اولاد کی شکل میں زمین پر وارد ہوا۔۔۔۔۔۔

آدم کی اولاد نے مذکر اور مؤنث کے روپ میں جب اس عمل کو دہرایا تو نتیجے میں 6شعور سے مرکب ایک اور آدم زاد وجود میں آ گیا۔۔۔۔۔۔اور اس طرح شعور در شعور Multiplyہو کر لاکھوں، کروڑوں شعوروں کی دستاویز بن گیا۔دنیوی طرزوں میں آپ جب بھی دو چیزوں کو ایک دوسرے میں جذب کر دیں گے تو لازماً تیسری چیز تخلیق ہو جائے گی اور جب اس تیسری چیز میں مزید کوئی ایک چیز یا زیادہ اشیاء ملا دیں گے یا یکجان کر دیں گے تو ایک اور نئی تخلیق آنکھوں کے سامنے آ جائے گی۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔

یہ قانون انسانوں پر ہی نافذ نہیں ہوتا بلکہ اس میں حیوانات، نباتات، جمادات، حشرات الارض سب شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اتنے اعلیٰ و ارفع، بہترین، بے مثال خالق ہیں کہ انہوں نے تخلیق کا ایک ایسا فارمولا بنادیا ہے کہ ہر شئے دوسری شئے کی تخلیق میں حصے دار ہے۔ ہر شئے دوسری شئے کی معاون و مددگار ہے۔ ہر شئے دوسری شئے کی خدمت گزاری پر مجبور ہے۔ ہر شئے جب فنا ہوتی ہے تو فنائیت کے نیچے بقا نظر آتی ہے اور جب ہم بقا کو ڈھونڈتے ہیں تو اس کی تہوں میں فنا جھانکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یعنی تخلیقی مراحل میں جتنی اہمیت بقا کو حاصل ہے نشوونما کی بھی ہے اور اتنی ہی اہمیت فنا کو بھی حاصل ہے۔

ایک چھوٹا سا جرثومہ رحم مادر میں خود کو نیست کر کے ایک تخلیق کی داغ بیل ڈال دیتا ہے۔ خود نظروں سے معدوم ہو جاتا ہے اور ماں کے پیٹ میں ایک خوبصورت تصویر جنم لے لیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’وہ جو ماں کے پیٹ میں طرح طرح کی تصویریں بناتا ہے‘‘۔

(سورۃ آل عمران۔ آیت 6)

زمین پر آنے والا ہر فرد ایک طرف گھٹتا ہے دوسری طرف بڑھتا ہے۔ اگر ایک طرف بڑھتا ہے تو دوسری طرف گھٹتا ہے۔ ایک رخ میں نشوونما پاتا ہے تو دوسرے رخ میں پہلا مرحلہ عدم میں چلا جاتا ہے۔ لفظ شادی کے معنی خوشی کے ہیں۔ یعنی ایسا عمل جس کے پس پردہ خوشیوں کا ہجوم ہے۔ شادی ایک ایسا باغ ہے جس میں طرح طرح کے نت نئے رنگ رنگ شگوفے پھوٹتے ہیں، کھلتے ہیں اور رنگ و نور کی دنیا آباد ہو جاتی ہے۔

شادی کا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔جان سے جان کا ملنا۔۔۔۔۔۔شادی کا مطلب ہے جان میں جان پڑنا۔۔۔۔۔۔شادی کا مطلب ہے دو وجود کا آپس میں یگانگت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے ایک راستے کا انتخاب کرنا۔ شادی کا مطلب ہے احسن الخالقین اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں ذیلی تخلیقات کو عمل میں لانا۔

شادی کے بارے میں لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں۔ زیادہ تر شادی سے پہلے شادی کو خوشنما، خوش رنگ، خوشحال اور خوش بخت زندگی کی ابتدا کہتے ہیں۔ کچھ لوگ شادی کو ایک مصیبت بھری کہانی کا کردار بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔شادی سے پہلے محب محبوب سے کہتا ہے کہ میں تیرے لئے آسمان سے ستارے توڑ لاؤں گا۔ اور شادی کے بعد محبوب کہتا ہے کہ اگر میں آسمان پر پہنچ جاؤں تو تجھے وہاں چھوڑ آؤں گا۔

غیر جانبدارانہ زاویے سے تفکر کیا جائے تو شادی دراصل اللہ تعالیٰ کی ذیلی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ تعاون کا نام ہے۔
ماں کی مامتا، باپ کی شفقت!۔۔۔۔۔۔اس کا تذکرہ عام ہے۔ ماں کی مامتا کو سب جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔باپ کی شفقت سے سب آگاہ ہیں۔۔۔۔۔۔مامتا اور شفقت نہ ہو تو بچے کی پرورش ہی ایک معمہ بن جاتی ہے۔

مخلوق میں جتنے بھی افراد ہیں، ان سب میں اگر فضیلت ہے تو وہ پیغمبروں کو حاصل ہے۔۔۔۔۔۔پیغمبر اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔ نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کا درس دینے والے ہیں۔ شعوری اور لاشعوری اعتبار سے انسانوں کی تربیت کرنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ سب قدسی حضرات بھی ماں باپ کے بیٹے ہیں۔۔۔۔۔۔

اس عمل سے ماں باپ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ یعنی شادی ماں باپ کی فضیلت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس لئے خالق کائنات نے سسٹم ہی ایسا بنایا ہے کہ خالق کے علاوہ ہر مخلوق والدین کے التفات کی محتاج ہے۔ ہر آدمی کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ سوچتا ہے۔۔۔۔۔۔سوچ منفی ہو یا مثبت بہرحال وہ سوچتا ہے۔۔۔۔۔۔بیٹھے بیٹھے ایک دن مجھے خیال آیا کہ لفظ ’’شادی‘‘ کا مطلب ہے خوش ہونا یا خوشی کا ماحول میسر آنا۔۔۔۔۔۔میں نے شادی کے ابتدائی مرحلے سے سوچنا شروع کیا۔
بچہ جوان ہوا۔۔۔۔۔۔تو ماں کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑی۔۔۔۔۔۔کہ بیٹے کی شادی کرنا ہے۔ دوسری ماں کے دل میں خوشی کی لہر اٹھی کہ بیٹی کی شادی کرنی ہے۔۔۔۔۔۔یہ خوشی نمبر ایک ہوئی اب آگے خوشیوں کی گنتی کرتے جایئے۔۔۔۔۔۔شادی کے خیال سے جس قدر خوشی ہوتی ہے وہ سب مائیں، باپ، بہن اور بھائی۔۔۔۔۔۔اچھی طرح جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔منگنی کی رسومات کا مرحلہ پیش آیا۔۔۔۔۔۔سارا خاندان ہی خوشی میں سرمست ہو گیا۔۔۔۔۔۔منگنی کے بعد نکاح کی تاریخ مقرر ہوئی۔۔۔۔۔۔فرحاں و شاداں سارا خاندان جمع ہو گیا۔۔۔۔۔۔دولہا دلہن اسٹیج پر براجمان ہوئے۔۔۔۔۔۔سلامی کی رسم ادا ہوئی۔۔۔۔۔۔اپنوں پرایوں نے کھانا تناول کیا۔۔۔۔۔۔اور خوشی خوشی گھر میں دلہن کی ڈولی آ گئی۔۔۔۔۔۔پورا گھر خوشی سے جھوم اٹھا۔۔۔۔۔۔روشنیوں سے گھر بقعہ نور بن گیا۔۔۔۔۔۔اتنی خوشی ملی کے احساس ہوا کہ وقت ٹھہر گیا ہے۔۔۔۔۔۔شادی کے بعد گھر گھر دعوتوں کا اہتمام بھی خوشی کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اللہ میاں ہمیشہ ہی اپنے بندوں کو خوش رکھنے کیلئے وسائل بناتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور اپنی مخلوق کے خوش ہونے سے خوش ہوتے ہیں۔ اب تخلیقی عمل کا دور آیا۔۔۔۔۔۔لیجئے خوشی کا ایک اور دروازہ کھل گیا۔۔۔۔۔۔مبارک باد کے پیغام آتے رہے۔۔۔۔۔۔اسی خوشی میں انتظار کے نو مہینے گزر گئے۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ نے چاند سا بیٹا یا بیٹی عطا فرما دی۔۔۔۔۔۔خاندان میں نہیں پورے محلے میں خوشی کی مہک پھیل گئی۔۔۔۔۔۔نومولود نے آنکھیں کھول کر دیکھا، جس کو دیکھا وہ خوش ہو گیا کہ مجھے دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔مجھے پہچان رہا ہے۔۔۔۔۔۔بچے نے غوں غاں کی تو ماں باپ کے ساتھ چھوٹے بہن بھائی بھی کھِل اٹھے۔۔۔۔۔۔کروٹ بدلی تب خوش ہوئے۔۔۔۔۔۔تکیوں کے سہارے سے بچے کو بٹھایا گیا تو خوشی ملی۔۔۔۔۔۔کلکایاں بھریں تب گھر کے افراد مخمور ہو گئے۔۔۔۔۔۔گھٹنوں چلا تو پورے گھر کے افراد کی آنکھوں میں خوشی کی چمک ابھر آئی۔۔۔۔۔۔بچہ اور بڑا ہوا تو اس نے کاغذ پر ایک لکیر کھینچی۔۔۔۔۔۔جناب خوشی کا کیا ٹھکانہ ہے وہ کاغذ ہر آنے جانے والے کو دکھایا جا رہا ہے کہ ہمارے منے نے الف لکھا ہے۔ ہر آدمی اس بات پر یقین کر رہا ہے کہ الف لکھا ہے۔۔۔۔۔۔کوئی نہیں سوچتا کہ اس بچے کو کیا پتہ کہ الف کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔خوشی میں شعور بے شعور ہو گیا۔ بچہ اسکول جانے کے قابل ہوا۔ یونیفارم خریدا گیا۔۔۔۔۔۔ماں نے صبح پانچ بجے اٹھ کر پاک صاف کر کے منہ ہاتھ دھو کر تیار کیا۔۔۔۔۔۔یونیفارم پہنایا۔۔۔۔۔۔ہر آدمی بچہ کے اوپر یونیفارم کو دیکھ کر خوش ہے، مگن ہے۔ بچہ اسکول میں پاس ہوا۔ اچھے نمبر لئے۔۔۔۔۔۔اس سے خوشی حاصل ہوئی۔۔۔۔۔۔میٹرک یاOلیول کر لیا اس کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں لوگ آ رہے ہیں، خوش ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔تحفے تحائف کا تبادلہ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔پڑھ لکھ کر الحمدللہ بیٹا یا بیٹی فارغ التحصیل ہوئے۔۔۔۔۔۔ملازمت مل گئی۔۔۔۔۔۔کاروبار میں لگ گئے۔۔۔۔۔۔اس خوشی کا کوئی بدل نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔اور پھر اماں ابا شادی کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔۔۔۔۔۔
قصہ مختصر شادی ایک ایسا لفظ ہے۔۔۔۔۔۔ایسا عمل ہے۔۔۔۔۔۔اور ایک ایسا اسٹیج ہے جس اسٹیج کا ہر کردار خوشی سے معمور ہے۔۔۔۔۔۔

میرے عزیز بچو!

جن کی شادیاں ہو گئی ہیں یا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہو جائیں گی۔۔۔۔۔۔شادی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔میاں بیوی ایک دوسرے کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے۔۔۔۔۔۔گھر الجھن اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کے بعد دونوں وجود ایک دوسرے کے وجود سے ہم آہنگ نہیں ہونا چاہتے۔۔۔۔۔۔دونوں وجود ایک دوسرے کے وجود کی قدر و منزلت سے واقفیت حاصل نہیں کرنا چاہتے۔۔۔۔۔۔دونوں وجود کے درمیان حفظِ مراتب نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔دونوں وجود اقتدار کے خواہشمند ہوتے ہیں اور جب اقتدار کی خواہش پوری نہیں ہوتی تو اختلافات کا ایسا سیلاب آ جاتا ہے جس پر بند باندھنا آسان کام نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔۔۔۔۔۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔ آیت 35)

کا مفہوم یہ ہے کہ میاں بیوی جب تک اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو باہم دگر شیر و شکر ہو کر استعمال کریں گے وہ خوش رہیں گے۔۔۔۔۔۔اور جب میاں بیوی میں سے کوئی ایک یا دونوں خوشی کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی ذات کو اہمیت دیں گے تو ناخوش ہو جائیں گے اور جب وہ ناخوش ہو جائیں گے تو اپنے اوپر ظلم کریں گے۔۔۔۔۔۔اور جب ظلم کریں گے تو ان کا گھر جنت کے بجائے اسفل السافلین بن جائے گا۔ میرے آقا۔۔۔۔۔۔میرے پیارے نبی۔۔۔۔۔۔حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ:
’’اچھی بیوی گھر کو جنت بنا دیتی ہے‘‘۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیوی ہی اچھی ہو گی تو گھر جنت بنے گا اچھا شوہر بھی گھر کو جنت بنانے کا ذریعہ ہے۔
میری والدہ صاحبہ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، کہتی تھیں۔

’’ہر لڑکی وہ بہن ہو، بیٹی ہو، بہو ہو، اللہ تعالیٰ نے اسے ذیلی تخلیق کے لئے پیدا کیا ہے‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر عورت ’’ماں‘‘ ہے۔ ماں اگر بچے کی صحیح تربیت کر دے تو یہی اس کا عروج ہے اور یہی اس کا کمال ہے۔ بیوی اگر ماں کی خصوصیت کو سامنے رکھ کر شوہر کی تربیت کرے تو شوہر بیوی کے ہاتھ سے کبھی نہیں نکل سکتا۔ اس لئے کہ شوہر بھی کسی ماں یعنی عورت کا بیٹا ہے۔

میاں بیوی آپس میں ذہنی ہم آہنگی کو برقرار رکھیں تو اولاد صالح ہوتی ہے۔ ماں باپ کی خدمت گزار ہوتی ہے۔ خاندان اور معاشرے میں نیک نام ہوتی ہے اور یہ نیکی بہرحال ماں باپ کے نام سے منسوب کی جاتی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی کا بہترین عمل یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس بنایا ہے۔ عورت مرد دونوں میں سے جب کوئی اپنے لباس کو نوچتا ہے تو لازماً جسم بھی مجروح ہوتا ہے۔


وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!