Topics

ریکارڈ

نو کروڑ تیس لاکھ میل دور مشرق سے ہر روز سورج طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔ زمین سورج کے گرد تیس کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ سائنسدانوں کے کہنے کے مطابق طلوع غروب کا یہ سلسلہ ساڑھے تیس ارب سال سے جاری و ساری ہے۔

روز و شب کی گردش خود کو کھربوں مرتبہ دہرا چکی ہے۔ لیکن آدمی کا شعور یہ جانتا ہے کہ ہر صبح نئی صبح ہے اور ہر شام نئی شام ہے۔
ایک بندہ بشر جس کا نام کوئی بھی رکھ لیجئے۔۔۔۔۔۔پیدائش کے پہلے دن سے پچاس سال تک ہر دن گیہوں کی روٹی یا چاول کھاتا ہے۔ سمجھتا یہ ہے کہ میں نئی روٹی کھا رہا ہوں۔ ایک ہی کمرے میں، ایک ہی بستر پر سالہا سال سوتا ہے۔ کہتا یہ ہے کہ ہر شب، شبِ نو ہے۔ صبح دم بیدار ہوتا ہے لیکن ہر صبح کو نیا دن کہتا ہے۔

کائنات ایک نقطہ ہے۔۔۔۔۔۔ریاضی دانوں کی اصطلاح میں نقطہ نہ لمبائی رکھتا ہے نہ چوڑائی رکھتا ہے اور نہ گہرائی رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ صرف شعور کی تخلیق ہے۔ یہی نقطہ شعور سے مسافرت کر کے ادراک بالحواس بنتا ہے۔۔۔۔۔۔اس کا ادراک بالحواس بننے کا عمل بہت سادہ ہے۔

پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ شعور فی نفسہ کیا چیز ہے؟

شعور خود کو قائم رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔اوراپنی یاددہانی میں مصروف رہتا ہے۔شعور جس ریکارڈ پر قائم ہے اس کو دہراتا رہتا ہے۔ نوزائیدہ بچہ جب بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے تو دراصل یہ شعور کے ریکارڈ کا دہرانا ہے۔۔۔۔۔۔شعور اگر اپنے ریکارڈ کو نہ دہرائے اور شعوری یاددہانی میں مصروف نہ رہے تو بچہ جوانی میں داخل نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔جو فرد تیس سال کا ہے وہ بچپن سے تیس سال تک سفر کرتا رہا ہے۔۔۔۔۔۔جوانی دراصل بچپن سے جوانی تک شعوری ریکارڈ کی یاددہانی ہے۔

بچپن میں جب ہوش و حواس کا دور شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ماں سکھاتی ہے۔۔۔۔۔۔یہ باپ ہے، یہ بہن ہے۔۔۔۔۔۔یہ پانی ہے، یہ چاند ہے، یہ سورج ہے، یہ میز ہے، یہ کرسی ہے۔۔۔۔۔۔شعور میں جب وسعت پیدا ہو جاتی ہے تو سکھایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ قلم ہے۔ لکھنے کے کام آتا ہے، یہ کتاب ہے، اس سے آدمی علم سیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ درخت ہے، اس سے bedبنتا ہے، دروازہ بنتا ہے، میز بنتی ہے، chairبنتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔یہ سب شعوری ریکارڈ بن جاتا ہے، یہی ریکارڈ بچہ بڑھاپے سے موت تک بڑھاتا رہتا ہے اور اس پر  بچہ عمل کرتا رہتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ بچہ کتاب کو درخت کہے یا درخت کو قلم کے نام سے پکارے۔۔۔۔۔۔
شعور اپنے ریکارڈ کو۔۔۔۔۔۔یا ریکارڈ میں موجود نقوش کو۔۔۔۔۔۔یا ریکارڈ میں موجود تصویروں کو مختلف طریقوں سے استعمال کرتا ہے۔
فرض کیجئے۔۔۔۔۔۔

ہم شعور کا نام زید رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔زید کون ہے؟زید محمود کا بیٹا ہے۔۔۔۔۔۔زید پڑھا لکھا ہے۔ اس کی عمر 25سال ہے۔۔۔۔۔۔یہ شخص جس کا نام زید رکھ لیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔خوش اخلاق ہے۔۔۔۔۔۔عقل مند ہے۔۔۔۔۔۔نوجوان اور وجیہہ ہے۔۔۔۔۔۔بُردبار ہے۔۔۔۔۔۔

آپ کیا سمجھتے ہیں؟ ان باتوں کا مطلب کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟

ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ ہم زید کی صفات کا تذکرہ کر رہے ہیں یعنی زید بہت ساری صفات کا مجموعہ ہے۔۔۔۔۔۔ہم گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنے ہوئے زید کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ ان اوصاف کا تذکرہ کرتے ہیں جو زید کی ذات کے اندر جمع ہیں۔

اگر ہم زید کی زندگی کا تجزیہ کریں تو یہ کہیں گے کہ زید صفات کی فلم ہے۔ اس فلم اور فلم کے اندر آثار و احوال اور حوادث کو ایک لمحے میں لپیٹ دیا جائے تو زید کی زندگی کا ایک لمحہ بنا۔

یعنی بے شمار لمحات کا مجموعی نام زید ہے۔ یہ وہی زید ہے جس کو حواس دیکھتے ہیں۔ چھُوتے اور جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔
بے شمار لمحات کی لپٹی ہوئی سربستہ فلم کا تعلق اطلاع سے ہے۔۔۔۔۔۔اطلاع کہیں سے آتی ہے۔۔۔۔۔۔ذہن پر وارد ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔دماغ اسے محسوس کر کے معانی پہناتا ہے۔۔۔۔۔۔اور جب اطلاع کی تکمیل ہو جاتی ہے تو یہی تکمیل جذبہ یا تقاضا بن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
زندگی کہیں سے آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔

جو زندگی کہیں سے آ رہی ہے وہ زندگی کہیں جا بھی رہی ہے۔۔۔۔۔۔زندگی کا تسلسل قائم ہے۔۔۔۔۔۔
ایک ہی جذبہ بار بار بیدار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔بار بار وہ جذبہ کہیں غائب ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔جذبہ ابھرتا ہے۔۔۔۔۔۔جذبے کی تکمیل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اور جذبہ ریکارڈ (فلم) بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔فلم میں تغیر ہی شعور کی ہستی ہے۔’’لوح محفوظ کے نقوش عالم، تخلیط کی حدود میں داخل ہو کر عنصریت کا لباس قبول کر لیتے ہیں۔ عنصریت کا لباس قبول کرتے ہی مکانیت کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔مکانیت کا قیام زمانیت پر ہے‘‘۔

(کتاب: لوح و قلم)

خالق کائنات اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں لوح محفوظ کا مالک ہوں۔ جس حکم کو چاہوں برقرار رکھوں اور جس حکم کو چاہوں منسوخ کر دوں۔۔۔۔۔۔’’ہر وعدہ ہے لکھا ہوا۔ مٹاتا ہے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور رکھتا ہے۔ اس کے پاس ہے اصل کتاب‘‘۔

(سورۃ الرعد۔ آیت 38-39)

یہاں جو کچھ ہے وہ کتاب میں لکھا جا چکا ہے۔ کتاب ازل ہے اور ازل ماضی ہے۔۔۔۔۔۔ازل میں جو کتاب لکھی گئی ہے اس میں تعمیر اور تخریب دونوں طرزیں متعین ہیں۔







 


وقت

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!