Topics
ہر
مخلوق دوسری مخلوق کے ساتھ باہم مشترک ہے۔ اور ایک رشتے میں منسلک ہے۔ جس طرح آدم
کے اندر روح کام کرتی ہے اور اس روح کی تحریکات سے ہر آدم کی زندگی میں حواس بنتے
ہیں، وہ جذبات و احساسات سے گزرتا ہے۔ مسرت و شادمانی اور رنج و الم کی کیفیات سے
وہ متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح چیونٹی کے اندر بھی جذبات و احساسات موجود ہیں۔ معاش کے
حصول کے لئے جس طرح آدم زاد جدوجہد کرتا ہے اسی طرح چیونٹی بھی جدوجہد کرتی ہے۔
مکھی بھی جدوجہد کرتی ہے۔ مچھر بھی جدوجہد کرتا ہے۔ اگر آدم کی تربیت زیر بحث آئے
تو اللہ کی دوسری مخلوق بھی اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی۔
شیر اپنے بچے کو فطری اور جبلی تربیت دیتا ہے۔ بلی اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے اور
انہیں معاش حاصل کرنے کے لئے وہ تمام قاعدے و ضابطے اور گر بتا دیتی ہے جو اس کی
زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ آدم کی فضیلت اگر اس بات میں ہے کہ وہ عقلمند ہے تو تجربہ
کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دوسری مخلوق کے افراد میں بھی عقل موجود ہے۔ یہ ہو
سکتا ہے کہ عقل کسی مخلوق میں کم ہو اور کسی مخلوق میں زیادہ۔
اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم شہد کی مکھی پر وحی کرتے ہیں۔ وحی کے لئے ضروری ہے کہ جس
پر وحی کا نزول ہو رہا ہے وہ سعادت مند ہو، ہوش و حواس رکھتا ہو، اس کے اندر سوچنے
سمجھنے اور فکر کرنے کی صلاحیت موجود ہو، وہ وحی کے مفہوم سے آشنا ہو کر اس کے
مطابق عمل کر سکے۔ جب ہم اللہ رب العزت کا ارشاد پڑھتے ہیں کہ ہم نے شہد کی مکھی
پر وحی کی تو ہم جان لیتے ہیں کہ شہد کی مکھی میں عقل موجود ہے۔ شہد کی مکھی میں
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے اور شہد کی مکھی وحی کے مفہوم سے بھی باخبر ہے۔
اگر انسان کو عقل کی بنیاد پر فضیلت دی جائے تو شہد کی مکھی بھی افضل و اعلیٰ ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ محض علم و حکمت، دانائی اور عقل و شعور کی بنیاد پر انسان کو
دوسری قوتوں میں شرف حاصل نہیں ہے۔ کائنات میں موجود ہر شئے زندہ ہے، متحرک ہے اور
جب زندہ ہے تو اس کے اندر شعور ہے، اس کے اندر حواس ہیں، اس کے اندر زندگی گزارنے
کے تقاضے موجود ہیں۔
وہ
اپنی بھلائی یا برائی کا احساس رکھتا ہے۔ سردی بلی کو بھی لگتی ہے، سردی انسان کو
بھی لگتی ہے۔ اگر کوئی انسان مکان بنا کر یا اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہن کر سردی کا
تدارک کر لیتا ہے تو بلی بھی سردی سے بچاؤ کے طریقے جانتی ہے۔
اللہ
کریم نے انسان کو اپنی نیابت کے علوم سکھا کر جو شرف عطا کیا ہے وہ کیا ہے؟ وہ شرف
قرآن پاک کے اندر تفکر کرنے سے سامنے آتا ہے۔ آدم اور فرشتوں کا جب موازنہ کیا
جاتا ہے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آدم اسمائے الٰہیہ کے اسرار اور رموز جانتا
ہے جو فرشتے نہیں جانتے۔ یہاں ایک بات بہت زیادہ وضاحت طلب ہے کہ اسماء سے مراد یہ
نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو بتا دیا ہے کہ اس چیز کا نام درخت ہے، اس کا نام
فاختہ ہے، اس کا نام شیر ہے۔ حقیقت کبھی نہیں بدلتی ہمیشہ ایک نقطے پر قائم رہتی
ہے۔ اگر اسماء سے مراد دنیاوی چیزوں کے نام ہوتے تو پوری نوع انسانی ہر چیز کو ایک
ہی نام سے جانتی اور پہچانتی جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ کوئی آدمی درخت کو درخت کہتا
ہے اور کوئی درخت کو Treeکہتا
ہے۔ اسماء سے مراد اللہ کی وہ صفات ہیں جو خالقیت کے روپ میں تخلیق کرنے کی صلاحیت
رکھتی ہیں۔ اسماء کا علم وہ علم ہے جو کائنات کے اندر تخلیقی فارمولے ہیں۔ اسماء
الٰہیہ وہ علم آگہی ہے جو انسان کے اوپر اس عالم کو منکشف کرتا ہے۔ جس عالم میں
غیبی انکشافات ہیں جس عالم میں قدرت الٰہیہ کے وہ راز ہیں جن کے اوپر پوری کائنات
قائم ہے۔
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘ہم
نے اپنی امانت سماوات پر، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کی سب نے کہا ہم اس کو اٹھانے
کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر یہ امانت ہم نے اپنے ناتواں
کندھوں پر اٹھائی تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور ہمارا وجود نیست و نابود ہو
جائے گا۔‘‘
آیت
مقدسہ میں پوری طرح اس قانون کی وضاحت کی گئی ہے کہ سماوات بھی شعور رکھتے ہیں۔
ارض بھی شعور رکھتی ہے، پہاڑ بھی شعور رکھتے ہیں۔ انکار یا اقرار بجائے خود اس بات
کا ثبوت ہے کہ انکار یا اقرار کرنے والی ہستی میں شعور موجود ہے۔ اگر پہاڑ کے اندر
جسے بے جان پتھر سمجھا جاتا ہے عقل نہ ہوتی سمجھ بوجھ نہ ہوتی، اسے اپنی ہستی کا
ادراک نہ ہوتا تو وہ کیسے کہہ سکتا تھا کہ میں یہ امانت نہیں اٹھا سکتا۔ اگر میں
نے اس امانت کو اٹھا لیا تو میں ریزہ ریزہ ہو جاؤں گا۔ تفکر کرنے سے مزید وضاحت
ہوتی ہے کہ جس طرح انسان سنتا ہے، پتھر بھی سنتا ہے، جس طرح انسان سوچتا ہے پتھر
بھی سوچتا ہے۔ جس طرح انسان بولتا ہے پتھر بھی بولتا ہے۔ یہ قرآن پاک کی آیات ہیں
کوئی عقلی اور فلسفیانہ استدلال نہیں ہے۔ ذرا غور کیجئے جب پتھر بول سکتا ہے، سن
سکتا ہے، اپنی ہستی کے بارے میں اسے علم ہے کہ میرے اندر کتنی سکت ہے اور وہ کسی
غلط فہمی میں بھی مبتلا نہیں ہے۔ وہ اپنے بارے میں صحیح صحیح اندازے بھی رکھتا ہے
تو پھر انسان اس سے کیسے اشرف ہوا؟
اللہ
کریم یہ بھی فرماتے ہیں:
‘‘اس
امانت کو انسان نے قبول کر لیا ہے۔ بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘
اس
کا مفہوم یہ ہوا کہ سماوات ارض اور پہاڑ ظالم اور جاہل نہیں ہیں۔ انسان ظالم اور
جاہل ہے۔ اس لئے ظاہم اور جاہل ہے کہ اس نے بغیر سوچے سمجھے کہ میں اس امانت کا
تقاضا بھی پورا کر سکتا ہوں یا نہیں؟ کوتاہ بینی اور اپنی نادانی میں امانت الٰہیہ
کو قبول کر لیا لیکن چونکہ اس نے قبول کر لیا ہے اس لئے اشرف المخلوقات کے دائرے
میں داخل ہو گیا۔ اشرف المخلوقات کے دائرے میں کوئی انسان جب ہی داخل ہو سکتا ہے
جب اس امانت سے با خبر ہو۔ اگر وہ امانت سے بے خبر ہے تو وہ ہرگز اشرف المخلوقات
نہیں ہے۔ اس کی حیثیت دوسری مخلوقات سے ناصرف یہ کہ کم ہے بلکہ بدتر ہے۔ جو بندہ اللہ
کی امانت سے بے خبر ہے وہ ظالم اور جاہل ہے۔ یہی اللہ کریم کا ارشاد ہے۔ انسان
امانت کے علم کے بغیر جاہل اور سرکشوں کے گروہ میں تو داخل ہو سکتا ہے اشرف
المخلوقات نہیں بن سکتا۔